کجریوال کے بلند بانگ دعوے

   


عام آدمی پارٹی لیڈر و چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے انتخابی امکانات کو مستحکم کرنے کیلئے سرگرم ہوچکے ہیں۔ وہ حالانکہ بظاہر بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں لیکن ان کا بالواسطہ نشانہ کانگریس ہی ہے ۔ کجریوال اپنی انتخابی سیاست کو وسعت دینے کیلئے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں۔ عوام کو سبز باغ دکھانے سے بھی وہ گریز نہیں کر رہے ہیں۔ وہ نت نئے وعدے کرتے ہوئے عوام کے درمیان پہونچ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی اور اپنی پارٹی کی ساری توجہ گجرات پر مرکوز کردی ہے ۔ وہ دعوی کر رہے ہیں کہ گجرات میں عام آدمی پارٹی حکومت سازی کے موقف میں پہونچ چکی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ گجرات میں عام آدمی پارٹی کا ایک بھی رکن اسمبلی نہیں ہے ۔ تنظیمی اور کیڈر کے اعتبار سے بھی پارٹی اتنی مضبوط نہیں ہے ۔ وہ صرف عوامی لہر کا دعوی کرتے ہوئے حکومت مخالف ووٹوں کو بانٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گجرات میں گذشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی بمشکل تمام اپنا اقتدار بچا پائی تھی ۔ اسے انتہائی معمولی اکثریت حاصل ہوئی تھی ۔ کانگریس کے خلاف اگر پس پردہ جال نہیں بچھایا جاتا اور سودے بازیاں نہیں ہوتیں تو پھر شائد کانگریس کو گجرات میں اقتدار حاصل ہوجاتا ۔ تاہم اب شائد بی جے پی یہ خطرہ مول لینا نہیںچاہتی اس لئے وہ حکومت مخالف ووٹوں کی تقسیم کیلئے کجریوال کو استعمال کر رہی ہے ۔ اروند کجریوال یا تو بی جے پی کے سیاسی جال میں پھنس چکے ہیں یا پھر وہ اپنے قائدین کو مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کے مقدمات سے بچانے اور پارٹی اور حکومت کی امیج کو بچانے کیلئے بی جے پی کے اشاروں پر کام کرنے کو تیار ہوگئے ہیں۔ اب کجریوال نے دعوی کیا ہے کہ ایک انٹلی جنس رپورٹ کے مطابق بی جے پی کو گجرات میں شکست ہو رہی ہے اور عام آدمی پارٹی وہاں اپنی حکومت بنانے کے موقف میں پہونچ گئی ہے ۔ ان کا دعوی ہے کہ ان کی پارٹی کو معمولی اکثریت سے اقتدار حاصل ہو رہا ہے تاہم گجرات کے عوام کو چاہئے کہ وہ مزید تائید کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کریں۔
کجریوال رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کے گر جانتے ہیں۔ وہ عوام کی نبض کے مطابق اعلانات کرتے ہیں۔ تاہم جہاں تک گجرات کے انتخابی نتائج سے متعلق ان کا دعوی ہے کہ انٹلی جنس رپورٹ نے ان کی پارٹی کو اقتدار دیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس رپورٹ تک کجریوال کی رسائی کس طرح ہوئی ہے ؟ ۔ کجریوال دہلی کے چیف منسٹر ہیں۔ خود دہلی کی پولیس یا انٹلی جنس ان کے تحت نہیںآتی ۔ دہلی کا کوئی پولیس کانسٹیبل تک بھی اروند کجریوال یا ان کی حکومت کو جواب دہ نہیں ہے تو پھر گجرات کے نتائج سے متعلق رپورٹ کس طرح ان تک پہونچ گئی یا انہوں نے کس طرح سے واقفیت حاصل کی ہے ؟ ۔ بظاہر یہ دعوی عوام پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہی کہا جاسکتا ہے ۔ کجریوال کا الزام ہے کہ بی جے پی حکومت مخالف ووٹ بانٹنے کیلئے کانگریس کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کجریوال بتدریج اپنے عزائم پر عمل کرتے ہوئے حکومت مخالف ووٹوں کو بانٹنے اور بی جے پی کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ گجرات کی جو سیاسی صورتحال ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کجریوال وہاں محض مخالف حکومت ووٹ بانٹ سکتے ہیں۔ ان کا تنظیمی ڈھانچہ انتہائی کمزور ہے ۔ پارٹی کیڈر بھی دستیاب نہیں ہے ۔ ریاست کے جو قائدین ہیں وہ بھی کوئی معروف چہرے نہیں ہیں ۔ ایک بھی رکن اسمبلی عام آدمی پارٹی کا نہیں ہے ایسے میںاقتدار کے حصول کا دعوی کرنا ناقابل فہم ہی کہا جاسکتا ہے ۔
کجریوال کے رول کے بارے میں شبہات اس لئے بھی پیدا ہوتے ہیں کہ وہ بی جے پی سے مقابلہ کا دعوی کرتے ہیں لیکن بی جے پی کے خلاف بننے والے کسی بھی محاذ کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہیں۔ کجریوال پر ہندوستانی سیاست کا اثر ہوچلا ہے اور وہ خود ہی کو ہر مسئلہ کا حل بناکر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دہلی ایک شہر ہے ۔ اسے ریاست کا درجہ ضرور دیا گیا تھا اور وہاں اسمبلی بھی موجود ہے تاہم ایک شہر پر عوام کو سہولیات فراہم کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرنا اور ایک پوری ریاست کو کنٹرول کرنا دو مختلف باتیں ہیں۔ کجریوال کو اپنے عزائم اور منصوبوں کی تکمیل کیلئے اپوزیشن کے استحکام کو متاثر کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔