کرناٹک میںکرپشن کا عروج

   

جنوبی ہند میں بی جے پی کے اقتدار والی واحد ریاست کرناٹک میں مسلسل کرپشن کے الزامات اور اسکامس سامنے آتے جا رہے ہیں۔ کئی سینئر قائدین اور حکومت کے ذمہ داران کے خلاف کرپشن کے الزامات عائد ہو رہے ہیں۔ بعض وزراء پر بھی اس طرح کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں لیکن حکومت اور اس کے ذمہ داران یا پھر مرکزی تحقیقاتی ایجنسیاں اس معاملے میں کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان وزراء اور ذمہ داران کے خلاف الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کردیا جاتا ہے اور ان کے خلاف مقدمات کے اندراج اور عدالت سے فیصلہ کی کوشش ہی نہیں کی جاتی ۔ معاملات کو عدالتوں تک پہونچنے سے بھی روکا جاتا ہے اور جو معاملات عدالتوں تک پہونچ بھی جاتے ہیں ان میں بھی تحقیقات اس طرح سے کی جاتی ہے کہ ملزمین کی مدد ہوسکے اور انہیں عدالتوں سے براء ت مل جائے ۔ ریاست کے ایک وزیر پر ایک کنٹراکٹر نے کمیشن کیلئے ہراساں کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے خود کشی کرلی تھی ۔ انہیں بھی کلین چٹ مل گئی ہے ۔ خود چیف منسٹر کو نشانہ بناتے ہوئے کئی طرح کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ ریاستی حکومت کو 40 فیصد کمیشن کی حکومت قرار دیا جا رہا ہے ۔ آئے دن مسلسل اس طرح کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ چونکہ حکومت اور دیگر تحقیقاتی ایجنسیاں کسی طرح کی کارروائی نہیں کرتی ہیں اس لئے بدعنوانیاں کرنے والوں اور بے قاعدگیوں کے مرتکب افراد کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ دھڑلے سے ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے ہیں۔ اب تازہ ترین معاملہ میں کرناٹک کے ایک بی جے پی رکن اسمبلی کے گھر پر دھاوے کئے گئے ہیں۔ ان کے گھر اور دفتر سے بھاری رقم ضبط ہوئی ہے ۔ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اب تک 8 کروڑ روپئے ضبط کئے گئے ہیں۔ رکن اسمبلی کے گھر سے چھ کروڑ روپئے اور ان کے دفتر سے 1.75 کروڑ روپئے کی ضبطی عمل میں آئی ہے ۔ رکن اسمبلی فرار ہوگئے ہیں۔ ان کا کوئی پتہ نہیں مل رہا ہے اور نہ ہی ان سے کسی اور طرح سے رابطہ ہو پا رہا ہے ۔ ان کے فرزند جو سرکاری عہدیدار ہیں وہ بھی رشوت لیتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔
یہ رکن اسمبلی در اصل کرناٹک سوپس اینڈ ڈیٹرجنٹ کارپوریشن لمیٹیڈ کے صدر نشین بھی تھے ۔ انہوں نے حالانکہ آج اس اسکام کے منظر عام پر آنے کے بعد اس عہدہ سے استعفی پیش کردیا ہے لیکن ایک رکن اسمبلی اور ایک کارپوریشن کے صدر نشین ہوتے ہوئے اس قدر بھاری رقومات جمع کرنا اور ان کا کوئی حساب کتاب نہ رہنا انتہائی تشویش کی بات ہے ۔ اگر ذمہ دار عہدوں پر فائز عوامی نمائندے بھی کرپشن اور بدعنوانیوں میں ملوث ہوتے رہیں اور ان کے گھروں افر دفاتر سے اس قدر بھاری رقومات ضبط کی جانے لگیں تو اس سے عوام میں غلط پیام جاتا ہے ۔ سرکاری سطح پر کرپشن کے خاتمہ اور اس کے تدارک کے اقدامات بے اثر ہوجاتے ہیں۔ ویسے تو ریاست میں ہر شعبہ میں کرپشن اور بدعنوانیوں کے الزامات عام ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت ان کی تردید کرتے ہوئے بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہے ۔ نہ ان الزامات کی تحقیقات کروائی جاتی ہیں اور نہ ہی عدالتوں میںکوئی پیروی کی جاتی ہے تاکہ خاطیوں کو سزائیںدلائی جاسکیںاور کرپشن کی روک تھام میں مدد مل سکے ۔ حکومت کے کارنوں اور نمائندوں کے خلاف ہی اس طرح کے الزامات عائد ہونا اور ان کے گھرو سے بھاری رقومات کی ضبطی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ حکومت خود کرپشن کے معاملات کی تحقیقات کرنے یا کرپشن پر قابو پانے کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔ اس معاملے میں کرناٹک کی بومائی حکومت عملا پوری طرح سے ناکام دکھائی دیتی ہے ۔
اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قائدین کو نشانہ بنانے میں بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ حکومت سے اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف بے بنیاد مقدمات تک بھی درج کرتے ہوئے انہیںجیلوں میں بند کیا جاتا ہے ۔ ان کی ضمانتیں تک منظور نہیںہوتیں۔ تاہم بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ذمہ دار قائدین کے خلاف مقدمات کو برفدان کی نذر کردیا جاتا ہے ۔ ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوتی اور نہ ہی مقدمات چلائے جاتے ہیں۔ یہ دوہرے معیارات ہیں اور اس سے حکومتوں کے ڈوغلے پن اور کرپشن کے معاملے میں نرمی کا پتہ چلتا ہے ۔