کرناٹک میں باغیوںکو بی جے پی ٹکٹ

   

معنی نہیں منیر کسی کام میں یہاں
اطاعت کریں تو کیا ہے بغاوت کریں تو کیا
کرناٹک میں باغیوںکو بی جے پی ٹکٹ
کرناٹک میں بی جے پی کے اقتدار کیلئے قدرے پریشانی ہوسکتی ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے سابقہ اسپیکر کی جانب سے نا اہل قرار دئے گئے ارکان اسمبلی کو ‘ جنہوں نے کانگریس اور جے ڈی ایس سے استعفے پیش کرتے ہوئے بغاوت کی تھی ‘ حالانکہ الیکشن لڑنے کی اجازت دیدی ہے لیکن ان ارکان کو نا اہل قرار دئے جانے کے فیصلے کو درست بھی قرار دیا ہے ۔ یہ ایک طرح سے ان سابق ارکان اسمبلی کی اخلاقی شکست تھی اور اس سے زیادہ اخلاقی شکست ریاست میں بی جے پی کی یدیورپا حکومت کی رہی ہے کیونکہ انہیں ارکان کے استعفوں کی وجہ سے یدیورپا حکومت قائم ہوسکی تھی اور سابقہ جے ڈی ایس کی کمارا سوامی حکومت زوال کا شکار ہوئی تھی ۔ جو ڈرامے ریاست میںہوئے تھے وہ سب کے سامنے ہیںاورسبھی اس حقیقت سے واقف ہیںکہ بی جے پی قیادت کی جانب سے ہی ان ارکان کو استعفوں کیلئے اکسایا گیا تھا اور انہیں ریاست سے باہر مہاراشٹرا منتقل کرکے حکومت کے زوال کو یقینی بنایا گیا تھا ۔ ان ارکان کے استعفوں کے بعد یدیورپا کو ریاست میںچیف منسٹری کا عہدہ مل گیا تھا اورا ن ارکان نے اپنی نا اہلی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا ۔ عدالت نے ان کی نا اہلی کو درست قرار دیا تاہم انہیںانتخابات میں مقابلہ کی اجازت دیدی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے ان ارکان کو مقابلہ کیلئے ٹکٹ دینے کااعلان کردیا گیا ہے اور چیف منسٹر یدیورپا نے انہیں مستقبل کے وزراء قرار دیا ہے ۔ یہ ساری صورتحال اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ریاست میں یدیورپا کی قیادت میں بی جے پی نے پچھلے درازے سے اورسیاسی توڑ جوڑ کے ذریعہ اقتدار حاصل کرتے ہوئے عوام کے فیصلے کا مذاق بنادیا ہے ۔ بی جے پی نے یہ واضح کردیا ہے کہ اس کے پاس عوام کے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیںہے اور وہ صرف کسی بھی طریقے سے اقتدار حاصل کرنے ہی کو ترجیح دیتی ہے اور اس کیلئے جمہوری اصولوں اور سیاسی اخلاق و اقدار کی دھجیاں اڑانا اس کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا اور وہ ایسا کر گذرنے سے گریز بھی نہیں کرتی ۔ اس سب کے باوجود بی جے پی دوسروں کو اخلاقیات کا درس دینے سے بھی گریز نہیںکرتی ۔
اصولی طور پر تویدیورپا حکومت کو اخلاقی شکست قبول کرتے ہوئے اپنے عہدہ سے استعفی پیش کردینا چاہئے تھا لیکن ایسا کرنے کی بجائے یدیورپا ان ارکان کو ٹکٹ بھی دیتے ہیں اور انہیں مستقبل کے وزراء بھی قرار دیتے ہیں۔ خودیدیورپا نے گذشتہ دنوں اعتراف کیا تھا کہ باغی ارکان اسمبلی کو ورغلانے اور انہیںاستعفوں کا اعلان کرنے کا ساراڈرامہ امیت شاہ کی ایماء پر ہوا تھا اورا میت شاہ نے ہی ساری صورتحال کی نگرانی کی تھی ۔ ان ارکان کو مہاراشٹرا میں تمام سہولیات فراہم کی گئی تھیںاور انہیں اکسایا گیا تھا ۔ بی جے پی نے اخلاقیات کے معاملہ میں دوہرا معیار اختیار کیا ہوا ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر کسی بھی سودے بازی کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنے سے گریز نہیںکرتی ۔ حالیہ عرصہ میں اس کی مثال ہریانہ میں دیکھنے کو ملی ہے ۔ جے جے پی اور بی جے پی نے ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ انتخابی مہم چلائی تھی اور الزامات و جوابی الزامات عائد کئے گئے تھے لیکن جب نتائج میں بی جے پی کو اقتدار نہیں مل پایا تھا اسی جے جے پی سے اتحاد کرلیا گیا ۔ دشینت چوٹالہ کو ڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ دیدیا گیا ۔ ان کے والد کو جیل سے رہا کردیا گیا اور وہ حلف برداری تقریب کے مہمان خصوصی بھی رہے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کو صرف اقتدار حاصل کرنے سے دلچسپی ہے اوروہ اخلاقیات و اقدار کی کوئی پاسداری کرنے کو تیار نہیں ہے ۔
کرناٹک میںبھی مرکزی اقتدار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسا ہی کیا گیا اور کانگریس و جے ڈی ایس کے ارکان اسمبلی کو استعفوں کیلئے اکسایا گیا ۔ حکومت کے خلاف ان سے بغاوت کی گئی اور اسمبلی کی عددی طاقت کو کم کرتے ہوئے پچھلے دروازے سے اقتدار پر قبضہ کرلیا گیا ۔ اب انہیں نا اہل قرار دیدئے جانے کے بعد دوبارہ پارٹی ٹکٹ دیتے ہوئے ایک بار پھر جمہوریت اور سیاسی اخلاق و اقدار کا مذاق اڑایا گیا ہے ۔ بی جے پی نے یہ واضح ثبوت دیدیا ہے کہ اس کے پاس سوائے اقتدار کے کسی چیز کی اہمیت نہیں ہے چاہے اقتدار پچھلے دروازے ہی سے کیوں نہ حاصل کیا جائے ۔ اب کرناٹک کے عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی رائے کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو سبق سکھائیں۔ اپنے ووٹ کے ذریعہ اپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کیلئے ایک مثال قائم کرنے کی کوشش کریں۔