کرناٹک میں فون ٹیاپنگ اسکام

   

یوں ہی الزام تراشی سے بھلا کیا ہوگا
مسئلہ حل کوئی ہوجائے تو کچھ بات بنے
کرناٹک میں فون ٹیاپنگ اسکام
ریاست کرناٹک میں گذشتہ چند ہفتوں سے جہاں ارکان اسمبلی کے استعفوں اور انحراف کی وجہ سے سیاست میں گہما گہمی رہی تھی اور کمارا سوامی حکومت کے زوال کے بعد یدیورپا حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا اس کے بعد سے اب فون ٹیاپنگ اسکام کی وجہ سے سیاسی حالات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ جنتادل ایس کے نا اہل قرار دئے گئے رکن اسمبلی نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ سابق چیف منسٹر کمارا سوامی کے دور حکومت میں ریاست میں تقریبا 300 قائدین کے فون ٹیپ کئے گئے تھے اور ان کی جاسوسی کی گئی تھی ۔ ان کا یہ بھی دعوی تھا کہ صرف ان قائدین کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جو سی ایل پی لیڈر سدارامیا سے قربت رکھتے تھے ۔ حالانکہ کمارا سوامی نے اس طرح کے الزامات کی تردید کی ہے لیکن کچھ کانگریس قائدین نے ان الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا ۔ ایسا مطالبہ کرنے والوں میں خود سدارامیا ‘ سینئر کانگریس لیڈر ملکارجن کھرگے اور سابق وزیر داخلہ ایم بی پاٹل بھی شامل تھے ۔ یہ الزامات در اصل کانگریس اور جے ڈی ایس کے درمیان خلیج میں اضافہ کرنے اور باہمی طور پر اختلافات پیدا کرنے کی کوشش تھی ۔ ان الزامات کا بی جے پی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ حالانکہ سینئر کانگریس لیڈر و سابق وزیر ڈی کے شیو کمار نے اس طرح کے الزامات کو مسترد کیا ہے اور انہوں نے کمارا سوامی کی حمایت کی ہے لیکن کانگریس قائدین جتنے منہ اتنی باتیں جیسا رویہ اختیار کئے ہوئے تھے اور ہر کوئی اپنے اپنے طور پر اس پر بیان بازیاں کر رہا تھا ۔ اسی داخلی چپقلش کا ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور چیف منسٹر یدیورپا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس اسکام کی سی بی آئی تحقیقات کا اعلان کردیا ہے ۔ یدیورپا کا دعوی ہے کہ ریاست کے عوام اس اسکام کی حقیقت اور تفصیلات جاننا چاہتے ہیں اسی لئے وہ اس کی سی بی آئی تحقیقات کا حکم دینے والے ہیں۔ اس سلسلہ میں کل ہی احکامات جاری بھی کردئے جائیں گے ۔ یہ بی جے پی کی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش ہے ۔ ویسے بھی اگر فون ٹیپ ہوئے ہیں تو ان کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
ایک پہلو ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ایسی کوئی جاسوسی ہوئی ہے تو اس کی تفصیلات کو منظر عام پر لایا جانا چاہئے تاہم اس کے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہئے جیسا کہ بی جے پی کر رہی ہے ۔ جہاں اس اسکام کی تحقیقات ہو رہی ہیں تو پھر ریاست میں آپریشن لوٹس کی بھی تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ بی جے پی نے ایک منتخبہ حکومت کو زوال کا شکار کرتے ہوئے چور دروازے سے خود اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے ۔ اس بات کی تحقیقات بھی کرنے کی ضرورت ہے کہ کانگریس اور جے ڈی ایس کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی نے آخر کن وجوہات کی بناء پر استعفی دیا تھا ۔ ان کو استعفی دینے کیلئے کن عوامل نے مجبور کیا تھا ۔ کیا اس کے پس پردہ کوئی سیاسی سازش تھی ۔ ان ارکان کی کن گوشوں سے حوصلہ افزائی کی گئی تھی ۔ انہیں مستقبل میں کن عہدوں یا وزارتوں کا لالچ دیتے ہوئے اپنی پارٹیوں سے سبکدوشی اختیار کرنے اور اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دینے کیلئے تیار کیا تھا ان ساری تفصیلات کو بھی منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان تمام واقعات اور حالات کی بھی غیر جانبداری سے تحقیقات کروائی جائیں تاہم بی جے پی کے برسر اقتدار رہتے ہوئے ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا ۔ بی جے پی ایسے کسی بھی شبہات کو قبول کرنے یا تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔
اب جبکہ ریاست میں بی جے پی کی کوششیں کامیاب ہوچکی ہیں وہ جے ڈی ایس ۔ کانگریس مخلوط حکومت کو بیدخل کرنے اور خود اقتدار پر قابض ہونے میں کامیاب ہوچکی ہے تو وہ اب ان دونوں جماعتوں میں مزید اختلافات کو ہوا دینے اور مستقبل میں ان کے اتحاد کے امکانات کو متاثر کرنے کی کوششوں میں جٹ گئی ہے ۔ علاوہ ازیں ایسے مسائل کو ہوا دیتے ہوئے پارٹی اپنی کارکردگی سے عوام کی توجہ ہٹانے میں بھی کامیاب ہوسکتی ہے ۔ ریاست کے عوام کو تمام حالات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ موجودہ حکومت کو اس کی کارکردگی کی اساس پر پرکھا جانا چاہئے جیسا کہ خود بی جے پی نے دعوی کیا تھا کہ وہ ریاست میں عوام کو بہتر حکمرانی اور اچھا نظم و نسق فراہم کرنا چاہتی ہے ۔ عوام کو اس بات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔