کرناٹک کی حکومت کا خاتمہ

   

غضنفر علی خاں
آخرکار ہماری پڑوسی ریاست کرناٹک میں جنتادل سیکولر ۔ کانگریس کی مخلوط حکومت 14 ماہ کی حکمرانی کے بعد ختم ہوگئی۔ اِس کو ختم کیا گیا، اس سلسلہ میں بی جے پی کے ریاستی لیڈرس اور اُن کی پشت پناہی کرنے والے مرکزی قائدین نے اہم رول ادا کیا۔ کرناٹک کا یہ ناٹک اتنا طویل ہوگیا تھا کہ اخبار بین طبقہ ایک قسم کی بیزارگی محسوس کررہا تھا۔ عام مارکٹ کی طرح سیاسی بازار میں بول تول، رقمی لین دین، عہدوں کا لالچ سب کچھ اپنے عروج پر تھی۔ کیسے کیسے چہرے بے نقاب ہوئے۔ تقریباً ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس ڈرامہ میں ایک طرف خفیہ انداز میں بی جے پی کے لیڈرس اور اُن کی بے شمار دولت کام کررہی تھی تو دوسری طرف کرناٹک کے چیف منسٹر کمارا سوامی بے دست و پا ہورہے تھے وہیں بی جے پی نے اپنی ساری طاقت حکومت چھیننے کے لئے گویا وقف کردی تھی اور یہی طاغوتی طاقتوں کو فتح ملی۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک منتخب کردہ حکومت کو زوال سے دوچار کرنے کا کون ذمہ دار ہے۔ ایک طرف مخلوط حکومت اور چیف منسٹر کمارا سوامی بے دست و پا ہوکر جنگ کررہے تھے تاکہ اُن کی یہ مخلوط حکومت کو بچایا جاسکے۔ روز اوّل ہی سے جب کہ یہ ملی جُلی سرکار بنی تھی، یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ بی جے پی کوئی موقع حکومت کو گرانے کا ہاتھ سے جانے نہ دے گی۔ طرح طرح کی ترغیبات، عہدوں کا لالچ، کثیر رقومات، انعامات، حکومت میں شامل وزراء اور مخلوط حکومت کے اراکین اسمبلی کو پیش کئے جارہے تھے، اس سیاسی سانحہ کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ دور حاضر کے سیاستداں، ارکان اسمبلی یا قانون ساز اداروں کے ارکان کا کوئی سیاسی آئیڈیل نہیں ہے۔ اُن کے پاس نہ تو کوئی نظریہ ہے اور نہ کوئی اپنے ملک کے وقار اور اپنی ریاست کے مسائل پر سنجیدہ ہے۔ ایک مرحلہ پر تو کانگریس اور جے ڈی ایس کے منحرف ارکان اسمبلی کو مقید کرکے ممبئی میں رکھا گیا تھا جہاں اُنھیں ہر قسم کی تفریح اور ناؤ نوش کی سہولت حاصل تھی۔ اُنھیں بنگلورو سے ممبئی منتقل کرنے کے لئے بی جے پی کے ایک خوشحال اور دولتمند رکن پارلیمنٹ نے خصوصی اور ذاتی طیارہ فراہم کیا تھا اور اُن کو کسی سے ملنے کی اجازت نہیں تھی گویا وہ مقید تھے۔

کرناٹک بی جے پی کے صدر یدی یورپا نے اپنے قاصدوں کے ذریعہ ان منحرف ارکان پر کئی نظریں رکھی تھیں۔ اُنھیں کچھ بولنے اور کہنے کا موقع ہی نہیں دیا جارہا تھا۔ اگر بہ فرض محال اُنھیں کچھ کہنے و سننے کا موقع دیا بھی جاتا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ ان سب ارکان نے لالچ اور دولت کی چکا چوند میں اپنی عقل کے دروازے پہلے ہی سے بند کرلئے تھے۔ دولت کی چکا چوند نے اُن کی آنکھوں کو موند لیا تھا۔ اس کے باوجود بی جے پی کوئی خطرہ نہیں مول لینا چاہتی تھی اور ضرورت سے زیادہ احتیاط برت رہی تھی۔ ملی جلی سرکار کے چیف منسٹر کمارا سوامی نے استعفیٰ کا پیشکش کیا تھا لیکن کانگریس اور خود اُن کی پارٹی کے ارکان کو یہ توقع تھی کہ انحراف کرنے والے ایم ایل اے پھر اُن کے کیمپ میں لوٹ آئیں گے مگر یہ نہ ہوسکا اور منحرف ارکان اپنے انحراف پر قائم رہے۔ ہر کوشش کے بعد کمارا سوامی نے جو سابق وزیراعظم دیوے گوڑا کے بیٹے ہیں ان خلاء بازیوں سے بیزار ہوکر اپنا استعفیٰ پیش کردیا تھا لیکن اسپیکر اسمبلی نے اچانک اُنھیں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی ہدایت دی اور چیف منسٹر کو اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کرکے اعتماد کے ووٹ پر مقابلہ آرائی کرتے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کمارا سوامی نے یہ چیلنج اپنی اُس مجبوری کے تحت کیا تھا جو منحرف ارکان کی بغاوت کو بہتر طور پر سمجھے تھے۔ شروع ہی سے یہ حکومت چند آزاد ارکان اور مایاوتی کی پارٹی بہوجن سماج کی بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔ اس کا اپنا دخل نہیں تھا اور بی جے پی کو اس بات کا اندازہ تھا کہ دو چار ارکان اسمبلی کے اختلاف کے بعد حکومت گرانے کا یہ کھیل اُن کے لئے بے حد آسان ہوجائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقریباً سارے ملک میں حکومت کرنے والی پارٹی بی جے پی کو اس ایک ریاست سے کیا فرق پڑنے والا تھا۔ بی جے پی کے اہل فکر اور دانشور لیڈرس کو یہ سمجھنا چاہئے کہ کرناٹک میں کھیلے گئے ڈرامہ سے جنوبی ہندوستان کو نہیں جیتا جاسکتا ۔ جنوبی ہند کی اِن ریاستوں کے انداز فکر بیحد مختلف ہے۔ ہماری ریاست تلنگانہ میں چیف منسٹر کے سی آر اور اُن کی پارٹی ٹی آر ایس کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ یہاں بی جے پی پَر نہیں مارسکتی۔ اسی طرح آندھراپردیش میں جگن موہن ریڈی کی پارٹی وائی ایس آر کی طاقت بھی ناقابل شکست ہے۔ رہا سوال ٹاملناڈو (چینائی) کا تو یہاں ڈی ایم کے اور اے ڈی ایم کے اثر و رسوخ اتنا زیادہ ہے کہ کانگریس ہو یا بی جے پی کوئی الیکشن جیتنے کا اپنے میں حوصلہ نہیں رکھتا۔ یہی بات ایک اور جنوبی ریاست کیرالا کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے کہ یہاں بائیں بازو کی پارٹی اور عوام کا رجحان اس ریاست میں سیاسی استحکام کا ضامن بنا ہوا ہے۔ یہاں بھی بی جے پی نہ تو انحراف پسندی کو بڑھاوا دے سکتی ہے اور نہ ہی جنوبی ہند کی سیاسی بنیادوں کو ہلا سکتی ہے۔ یہ خیال کہ کرناٹک میں کی گئی ڈرامہ و ناٹک بازی جنوبی ہند کی اور ریاستوں میں جن کا ذکر کیا گیا ہے دہرایا جاسکتا ہے، یکلخت غلط ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ جنوبی ہند کے ووٹرس میں مجموعی طور پر کبھی ہندو نیشنلزم اور کٹر فرقہ پرستی کو قبول نہیں کیا اور نہ آج اُن کے اس موقف کو بی جے پی یا سنگھ پریوار بدل سکتے ہیں۔ البتہ شمالی ہند کی ریاستوں میں جہاں بی جے پی کو ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کا موقع مل سکتا ہے، وہ اس کی کوشش کریں گے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلا نام مدھیہ پردیش کا ہے جہاں دو چار ووٹوں کی اکثریت سے کانگریس نے حکومت قائم کرلی ہے۔ چھتیس گڑھ، راجستھان میں بہت جلد اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں یہاں ابھی سے توڑ جوڑ کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ مہاراشٹرا میں بھی اسمبلی چناؤ عنقریب ہونے والے ہیں۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو بی جے پی ہر منتخبہ حکومت کو گرانے اور اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرے گی۔ ایک نیا چسکہ بی جے پی کو لگ چکا ہے اور اس چسکہ کو نشہ بننے میں دیر نہیں لگے گی۔ اپوزیشن پارٹیاں یہ سمجھ رہے ہیں کہ مال و دولت کی حد تک بی جے پی اُن سب سے طاقتور ہے اور اقتدار مرکزی سطح پر بھی بس اُس کو حاصل ہے۔ ہر عام انتخابات کے بعد کانگریس کا ووٹنگ فیصد کم ہوتا جارہا ہے۔ ایسی کوئی صورت سارے ملک میں نظر نہیں آتی کہ کانگریس کو بحیثیت ایک پارٹی بہت جلد ایسا عروج حاصل ہوگا کہ وہ ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی بن کر اُبھرے گی۔ ایک طرف بی جے پی کا اقتدار پر آنا فرقہ پرستوں کی بڑی کامیابی ہے۔ اب تو اِن فرقہ پرست طاقتوں نے توڑ جوڑ کی سیاست میں مہارت دکھانی شروع کردی ہے۔ کرناٹک میں وسیع پیمانے پر ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کا معاملہ ہوا۔ اُس کی کوئی مثال جمہوری ہندوستان میں نہیں ملتی۔ اِس انتہائی غیر جمہوری طریقہ کو مقبولیت دینے کا کام بی جے پی کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے اور ایسے وقت کرناٹک کی حکومت کا گرنا کانگریس کے لئے بدبختی کی بات ہے۔