کرناٹک :یدی یورپا حکومت مستحکم

   

کرناٹک میں اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں 15 حلقوں کے منجملہ 13 پر بی جے پی کی کامیابی کو بہت بڑی راحت سمجھا جارہا ہے ۔ ان نتائج نے بی جے پی کرناٹک حکومت کے لیے دو بڑی راحتیں بہم پہونچائی ہیں : ایک تو ریاست میں حکومت بچانے میں چیف منسٹر بی ایس یدی یورپا نے اپنے بل پر اس جنگ کو آخر تک منظم طور سے لڑا ہے ۔ انہوں نے باغیوں کی تائید حاصل کرتے ہوئے کرناٹک کی سیاست میں پیدا ہونے والے سیاسی چیلنجس کا آسانی سے مقابلہ کیا ۔ اپوزیشن کے طور پر کانگریس اور جنتادل ایس نے کرناٹک بی جے پی حکومت کو آسان نوالہ پیش کیا ۔ 2018 کے اسمبلی انتخابات کے بعد کرناٹک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوگئی تھی ۔ بی جے پی نے کرناٹک میں اپنے اقتدار کو بچانے کی ہر ممکنہ کوشش کی ۔ ضمنی انتخابات کے نتائج اپوزیشن کے لیے بہت بڑا سبق ہیں کیوں کہ کانگریس کے اندر ریاستی سطح پر جو داخلی اختلافات کو ہوا دی گئی تھی ، اس کو ہائی کمان نے یکسر نظر انداز کردیا تھا ۔ بی جے پی نے اقتدار پر برقرار رہنے کے جائز حق سے محروم ہونے کے باوجود باغیوں کی مدد سے اپنے اس دستور کے مغائر رول کو اپنے موافق بنانے کی کوشش کی اور کامیاب رہی ۔ کرناٹک کے رائے دہندوں نے 2018 کے اسمبلی انتخابات میں منقسم رائے سے سیاسی عدم استحکام پیدا کیا تھا لیکن یہی رائے دہندوں نے 15 اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات میں یکطرفہ طور پر بی جے پی کو ووٹ دے کر ایک مستحکم حکومت لانے کے لیے ووٹ ڈالا ۔ کرناٹک کی سیاست میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ یہاں شخصیات کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ ان ہی شخصیتوں نے کرناٹک کی سیاست میں اپنا موقف مضبوط کرلیا ہے ۔

باغی ارکان نے حکومت کا جس طریقہ سے ساتھ دیا ہے اس کے انعام کے طور پر یدی یورپا کابینہ میں وزارتیں حاصل کرنا ان کی اولین پسند ہوگی ۔ کرناٹک میں سیاسی ڈرامہ کا آغاز گذشتہ سال اس وقت ہوا تھا جب کانگریس اور جنتادل ایس کے قائدین میں بغاوت پیدا ہوگئی تھی ۔ اور ان پارٹیوں کے اندر سیاسی بغاوت گذشتہ روز اس وقت ختم ہوگئی جب 11 باغی قائدین نے ان ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔ ان باغیوں کو ان کی پارٹیوں میں ایک عرصہ سے نظر انداز کردیا گیا تھا ۔ کانگریس اور جنتادل ایس کے یہ باغی ارکان مقامی سیاست پر حاوی تھے انہیں وزارت میں اہم مقام ملنے کا کافی عرصہ سے انتظار تھا جب ان کی اپنی پارٹیوں نے دیرینہ ورکرس کی قدر نہیں کی تو یہ لوگ باغی ہوگئے اور اب ضمنی انتخابات نے انہیں اپنی مرضی سے وزارت حاصل کرنے کی راہ ہموار کردی ہے لیکن آیا منتخب باغی ارکان کو ان کی پسند کا قلمدان دیا جائے گا ، یہ ایک اہم مسئلہ ہے ۔ اگر یدی یورپا کابینہ میں ان منتخب ارکان کو ان کی پسند کی وزارت نہیں دی گئی تو وہ بغاوت پر اتر آئیں گے ۔ یدی یورپا حکومت میں اس وقت ایسے کئی ارکان اسمبلی ہیں جو اہم قلمدان حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ بعض کو ڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ بھی چاہئے ۔ وزارت آبی وسائل کی خواہش رکھنے والے رمیش جرکوہلی ہی ایک اہم لیڈر ہیں جنہوں نے کانگریس ، جنتادل ایس کی اتحاد میں قائم حکومت کے اندر بغاوت کو ہوا دی تھی ۔ رمیش جرکوہلی کو وزارت آبی وسائل کا قلمدان اس لیے چاہئے کیوں کہ کانگریس اتحاد حکومت میں یہ وزارت کانگریس لیڈر ڈی کے شیوکمار کے پاس تھی ۔ اگرچیکہ رمیش جرکوہلی ڈپٹی چیف منسٹر کی کرسی کی خواہش رکھتے ہیں کیوں کہ انہوں نے ہی کرناٹک کی کانگریس جنتادل ایس اتحادی حکومت کو گرانے میں اہم رول ادا کیا تھا ۔ لیکن یدی یورپا نے پہلے ہی سے 3 ڈپٹی چیف منسٹرس مقرر کرچکے ہیں تو اب اس کرسی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ رمیش کی طرح دیگر کئی باغی ارکان ایسے ہیں جو اپنے لیے اچھے قلمدان چاہتے ہیں لیکن یدی یورپا کے لیے ہر کسی کو خوش کرنا مشکل ہے ۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ جن باغی ارکان کو پسندیدہ قلمدان نہ دئیے گئے تو آیا یہ لوگ ایک اور بغاوت کو ہوا دیں گے ۔۔