کرونا وائرس! بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے

   

کرونا وائرس! بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے
(طنز ومزاح)
اسدالرحمن تیمی
جب سے ذرائع ابلاغ میں کرونا وائرس کی شہرت ہوئی ہے، میری روتی بلکتی زندگی میں گویا ہنستا ،چہکتابہار آگیا ہے، گھریلو زندگی سے دفتری امور تک ہرجگہ موج ہی موج ہے، میں سوچتا ہوں آخر اتنی تاخیر سے اس وائرس کا وائر کیوں بچھا۔
جہاں میرا گھر صرف عید کے عیدہی صاف ستھرا ہوا کرتا تھا آج ہر صبح گھر کا کونہ کونہ چمکتا نظرآتا ہے، ہاتھ دھونے کی نوبت بھی بہت کم آتی تھی، آج اہلیہ بغیر ڈیٹال سے ہاتھ دھلائے کھانا نہیں دیتی۔
سب سے اہم فائدہ یہ ہوا ہے کہ بیوی کی شاپنگ بند ہوگئی، بلا وجہ مال جانا رک گیا، فلم کی فرمائش بند ہوگئی، آٹگ بند اور باہرکا کھانا بند، مزید برآن منہ پر ماسک کا تالا لگ جانے سے دن بھر کی چک چک، بک بک بند! واہ رے کرونا تم بھی کمال کی چیز ہو، جو اچھے اچھے نہ کرپائے،تم نے وہ کردکھایا۔
البتہ کرونا وائرس کی بھارت سرکار سے شکایت یہ ہے کہ جب چیچک کے وائرس کو یہا ’’ماتا‘‘ کا مقام حاصل ہے تو پھر اسے پھوپھا کا درجہ کیوں نہ دیا جائے؟ میرے خیال ہے کہ کرونا کا یہ ر ونا اور گلہ شکوہ بجا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ کرونا کی وجہ سے معیشت کا بڑا خسارہ ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ، اس کی وجہ سے گھر کے اخراجات میں جوکمی آئی ہے ، بجٹ میں بیلنس پیدا ہوا ہے؟ ڈاکٹر کی آمدنی میں اضافہ ہوا، جانچ کی فیس بڑھی، اگر آپ اس پر غور فرمائیں گے تو یہ کہنا بھول جائیں گے کہ اس سے ہماری معیشت کو خطر ہے۔
یہ کرونا وائرس کی ہی کارفرمائی ہے کہ جہاں پارکوں میں، اسٹیشنوں پر، بس اور ٹرین کیا ہوائی جہاز میں خطرناک بھیڑ ہوا کرتی تھی، آج ہر جگہ آپ کو کھلی فضا اور کشادہ جگہ ملے گی، صاف ستھری ہوا میں سانس لے سکیں گے۔
سنا ہے کہ کئی ممالک میں ہوائی سفر بالکل سستا ہوگیا ہے، چین میں صرف ڈالر میں آپ کہیں بھی ہوائی سفر کا لطف لے سکتے ہیں، میرے دل میں خیال آتا ہے کہ کاش چین چلا جاؤں، سستے ہوائی سفر کا فائدہ اور مزہ لوں اور پھر کرونا کا شکریہ ادا کروں۔
اخبارات میں پڑھا ہے کہ کرونا وائرس جس شخص کو شہادت کے مقام سے سرفراز کرتا ہے اسے بالکل شہیدوں کی طرح غسل نہیں بلکہ تییم کرایا جاتا ہے، لاش سے ڈاکٹر اور تجہیز وتدفین کے عملہ بھی دور رہتے ہیں مجھے لگتا ہے کہ منکر نکیر کو بھی کرونا کے اس آدمی کو ٹچ کرنے اور سوال وجواب کی ہمت نہیں ہوگی، وہ خود اس کی قبر سے دوری بنائیں گے۔ ایسے میں حساب وکتاب کا سوال ہی نہیں اٹھتا ، گویا کرونا میں دنیا وآخرت دونوں کی صلاح وفلاح مضمر ہے۔ ایک روحانی بزرگ نے مجھے بتایا کہ جب سے کرونا کے آدمی قبرستان پہنچنے لگے ہیں، عالم ارواح میں بھی ہنگامہ سا برپا ہے
رات ایک مسلم ملک میں آذان کی آواز سن رہا تھا موذن کہہ رہا تھا صلو فی رحالکم (اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھیں) اب تک کسی مفتی ، عالم اور فقیہ نے نمازیوں کو یہ سہولت نہیں دی تھی، یہ صرف اور صرف کرونا کے کارن ہی ممکن ہوا ہے۔ دفتری عملے کے لئے کرونا وائرس کی آمد کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں، یا تو دفتر سے چھٹی ہے یا پھر گھر سے کام کرنے کی بہار، ایسا موقع زندگی میں بہت کم آتا ہے
خیر! کرونا کے فضائل ومناقب کتنا گناؤں؟ اس کے لئے کئی جلدیں درکار ہوں گی۔ بقول غالب :
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحر بے کراں کے لئے