کسانوں سے حکومت کا ٹکراؤ

   

انجام اُسکے ہاتھ ہے آغاز کر کے دیکھ
بھیگے ہوئے پروں سے پرواز کر کے دیکھ
ملک کی مختلف ریاستوں اور خاص طور پر اترپردیش ‘ ہریانہ اور پنجاب وغیرہ سے تعلق رکھنے والے کسان ایک بار پھر مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کیلئے سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ یہ کسان چاہتے ہیں کہ حکومت ان کی پیداوار کیلئے اقل ترین امدادی قیمت سے متعلق قانون بنائے ۔ مرکز کی مودی حکومت نے سماج کے مختلف طبقات کی طرح کسانوں سے بھی کئی وعدے کئے تھے ۔ انہیں بھی سبز باغ دکھائے گئے تھے ۔ انہیں اعتماد میں لینے کے کچھ ایسے اقدامات کئے گئے تھے جن سے کسان مطمئن نہیں ہوسکے ۔ کسانوں نے حکومت کو اس سے قبل بھی اپنے تین متنازعہ قوانین کو واپس لینے پر مجبور کردیا تھا ۔ راکیش سنگھ ٹکیت کی قیادت میں احتجاج کرتے ہوئے ملک کے کسانوں نے مودی حکومت کے تیا رکردہ تین متنازعہ قوانین واپس لئے جانے تک اپنے احتجاج کو جاری رکھا تھا ۔ اس جدوجہد میں کچھ کسانوں نے اپنی جان تک گنوا دی تھی ۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال کے باوجود اپنے مطالبہ سے دستبرداری اختیار نہیں کی تھی ۔ بالآخر کسان احتجاج کے اثرات کو قبل از وقت محسوس کرتے ہوئے حکومت نے ایک دن اچانک ہی تینوں متنازعہ قوانین سے دستبرداری اختیار کرلی تھی ۔ کسان چاہتے تھے کہ حکومت کی جانب سے ان کی پیداوار کی اقل ترین امدادی قیمت کیلئے باضابطہ قانون بنادیا جائے ۔ حکومت نے بھی کسانوں سے اس طرح کا وعدہ کیا تھا اور ان کے مطالبہ کی حمایت کی تھی تاہم ابھی تک بھی حکومت نے ایسا نہیں کیا ۔ کسان چاہتے تھے کہ سوامی ناتھن کمیشن نے اس سلسلہ میں جو رپورٹ پیش کی ہے اس کو حکومت تسلیم کرلے اور اس کی سفارشات پر عمل آوری کرے ۔ حکومت نے اس مطالبہ کا جائزہ لینے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی ۔ اس کمیٹی کے اب تک درجنوں اجلاس بھی ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک اس مسئلہ پر کمیٹی کسی بھی نتیجے پر نہیںپہونچ پائی ہے ۔ حکومت کا رویہ بھی اب تک ٹال مٹول والا ہی ہے اسی لئے کسان سڑکوں پر اتر آئے ہیں اور انہوں نے ایک بار پھر طویل احتجاج کی تیاری کرلی ہے اور وہ اس کا باضابطہ اظہار بھی کر رہے ہیں ۔
مرکزی حکومت نے کسانوں سے بارہا وعدے کئے تھے لیکن ان وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا ۔ وزیر اعظم مودی کی جانب سے کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب تھی اس سلسلہ میں کچھ نہیں کیا گیا۔ سالانہ فی ایکڑ پر کچھ امداد فراہم کرتے ہوئے حکومت آمدنی دوگنی کرنے کے وعدہ سے منحرف ہوگئی ہے ۔ اس صورتحال میں کسان اب باضابطہ قانون سازی سے کم کسی بھی بات پر متفق ہونے کو تیار نہیںہیں۔ حکومت نے ملک میںکئی شعبہ جات کیلئے مراعات فراہم کی ہیں ۔ حکومت سے اتفاقر کھنے والے حاشیہ بردار کارپوریٹس کو ہزاروں کروڑ روپئے کے قرضہ جات فراہم کئے گئے ۔ ان میںکئی کارپوریٹ تاجرین ایسے رہے جو ہزارہا کروڑ کے قرضہ جات لے کر ملک سے فرار ہوگئے اور بینکوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ یہ نقصان بھی عام آدمی کی جیب سے پورا کیا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ کئی کارپوریٹ اداروں کو عوامی شعبہ کی کمپنیاں اور نفع بخش ادارے بھی کوڑیوں کے مول فروخت کردئے گئے ۔ یہ فروخت بھی نہیں بلکہ تحفہ کہا جاسکتا ہے ۔ یہ ادارے اور کمپنیاں بھی حکومت کے حاشیہ بردار کارپوریٹس کو سونپے گئے ہیں۔ حاشیہ برداروں پر مراعات اور انعامات کی بارش کرنے والی حکومت سارے ملک کے عوام کو غذا فراہم کرنے والے کسانوں کے جائز اور واجبی مطالبہ کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ اس نے پانچ سال کیلئے کچھ عبوری راحت کا ارادہ تو ظاہر کیا تھا لیکن اب حکومت سے قانون سازی سے کم کسی بات پر متفق ہونے تیار نہیں ہیں۔
مرکزی حکومت جس طرح سے کسانوں کے احتجاج سے نمٹ رہی ہے وہ بھی درست نہیں ہے ۔ کسانوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ یہ کوئی ملک دشمن عناصر نہیں ہیں۔ ماضی میںحالانکہ انہیںسماج دشمن عناصر کے طور پر پیش کرنے کی گودی میڈیا کی جانب سے کوشش کی گئی تھی لیکن کسان ڈٹے رہے تھے ۔ حکومت کو کسانوں کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کرنے اور ان کے جائز اور واجبی مطالبات پر ہمدردانہ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ طاقت کا استعمال مناسب نہیںہے ۔ سنجیدہ اور ہمدردانہ انداز میں بات چیت کرتے ہوئے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے اور کسانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جانا چاہئے ۔