کسی کو کام کی تو کسی کو نام کی ضرورت

   

راوش کمار
جس وقت قومی ہاکی ٹیم کو اسپانسر کی ضرورت تھی، پیسے کی ضرورت تھی تب کوئی آگے نہیں آیا اور جب ہاکی کھلاڑیوں کے مظاہرے میں غیرمعمولی بہتری آئی تو ہر کوئی کھلاڑی کی سخت محنت میں اپنا حصہ جوڑنے کیلئے پہنچ گیا ہے۔ ہندوستانی خاتون ہاکی کھلاڑیوں کو ٹوکیو اولمپکس میڈل جیتنے میں اگرچہ ناکامی ہوئی لیکن اس ناکامی کے باوجود ہماری خواتین کی ٹیم نے ملک کا دل جیت لیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے خاتون کھلاڑیوں کے شاندار مظاہرے پر ٹوئٹ کرتے ہوئے یہ کہا کہ ان خاتون کھلاڑیوں نے ملک کا سَر فخر سے اونچا کردیا ہے۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ کئی شہریوں نے ان سے راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ کا نام تبدیل کرکے اس ایوارڈ کو افسانوی ہاکی کھلاڑی میجر دھیان چند سے موسوم کرنے کی درخواست کی تھی اور عوام کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ان کی حکومت نے اب ’’راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ‘‘ کا نام بدل کر ’’میجر دھیان چند کھیل رتن ایوارڈ‘‘ رکھ دیا ہے۔ ’’جئے ہند‘‘ مودی حکومت کے اس اقدام کی ستائش کی گئی اور ستائش کرنے والوں میں وہ میڈیا سب سے زیادہ آگے رہا جو ہاکی کے فروغ کیلئے اڈیشہ کی نوین پٹنائک حکومت کے اقدامات اور پھر ٹوکیو اولمپکس میں قومی ٹیم کے بہتر مظاہرے پر خاموشی اختیار کئے ہوئے تھا۔ وہی میڈیا اچانک توانائی سے بھرپور ہوگیا۔ حکومت کو میڈیا کے بعض اداروں نے یہ یاد دلایا کہ پہلے سے ہی میجر دھیان چند کے نام سے ایک ایوارڈ قائم کیا گیا ہے اور اس ایوارڈ کا آغاز سال 2002ء میں ہوچکا ہے۔ اس ایوارڈ کے تحت توصیف نامے کے ساتھ 10 لاکھ روپئے دیئے جاتے ہیں۔ کھیل کود کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے کھلاڑیوں کو دھیان چند کارنامے حیات ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ اب اس ایوارڈ کا کیا ہوگا کیونکہ وزیراعظم نریندر مودی نے راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ کو دھیان چند ایوارڈ سے موسوم کردیا ہے۔ اگر حکومت کانگریس کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ اس نے تمام اسکیمات کو اپنے قائدین کے نام سے رکھا ہے اور وہ ان غلطیوں کو سدھار رہی ہے، تب حکومت یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ پنڈت دین دیال اپادھیائے نیشنل ویلفیر فنڈ کیا ہے۔ یہ دراصل ایک ایسی اسکیم ہے جو مارچ 1982ء میں شروع کی گئی اور اس کا نام کسی بھی کھلاڑی کے نام پر رکھا جاسکتا تھا، لیکن ستمبر 2017ء میں ’’دین دیال اپادھیائے نیشنل ویلفیر فنڈ‘‘ رکھا گیا۔ ذرا سوچئے یہ ایوارڈ دین دیال اپادھیائے سے موسوم کیا گیا ہے۔ ویسے بھی جاریہ سال 18 مارچ کو حکومت نے پارلیمنٹ میں یہ کہا تھا کہ وزارت کے پاس اس بات کے کوئی اعداد و شمار نہیں کہ کتنے میڈل یافتہ کھلاڑی آج خراب معاشی حالات سے گزر رہے ہیں اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ اس لئے یہ نہیں کہا جانا چاہئے کہ راجیو گاندھی کا نام ہٹاکر ایک کھلاڑی سے انصاف کیا جارہا ہے اور پرانی غلطیاں سدھاری جارہی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ میجر دھیان چند سے متعلق کسی بھی ایوارڈ کا نام رکھنے کے بارے میں کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا بلکہ کئی دہوں سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ میجر دھیان چند کو بھارت رتن جیسا باوقار اعزاز عطا کیا جائے۔ جاریہ سال فروری میں جب احمدآباد کرکٹ اسٹیڈیم کا نام تبدیل کرکے ’’نریندر مودی کرکٹ اسٹیڈیم‘‘ کردیا گیا تو اس وقت ایک بہت بڑا تنازعہ پیدا ہوگیا۔ اس اسٹیڈیم کے ایک حصہ کو ریلائنس اینڈ کا نام دیا گیا۔ دوسرے حصے کو اڈانی اینڈ سے موسوم کیا گیا۔ 2018-19ء کے اکنامک سروے میں صاف طور پر یہ لکھا گیا کہ عمارتیں، اسکولس، سڑکیں، طیران گاہیں وغیرہ اُن لوگوں کے نام پر رکھے جانے چاہئے جو پچھلے دہے میں سب سے زیادہ ٹیکس یا محاصل ادا کئے ہوں۔ صرف حکومت یہ بتا سکتی ہے کہ اس طرح محاصل ادا کرنے والے کتنے لوگوں کے نام پر سڑکوں کے نام رکھے گئے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ دہلی کا مشہور و معروف فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ ارون جیٹلی کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔ بی جے پی حکومت نے اس گراؤنڈ کا نام تبدیل کرکے ’’ارون جیٹلی اسٹیڈیم‘‘ رکھا تو ایسے میں یہ مت سوچئے کہ حکومت کھیل کود سے متعلق اداروں اور ایوارڈس کے نام کھلاڑیوں سے ہی موسوم کرے گی۔ وہ راجیو گاندھی کو پسند نہ کرے لیکن دین دیال کو بہت زیادہ پسند کرتی ہے۔ نہ صرف کھیل کود بلکہ کئی اسکیمات بھی بی جے پی قائدین کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’اٹل پینشن یوجنا‘‘، ’’شیام پرساد مکرجی اربن مشن‘‘ جیسی اسکیمات۔ آخرالذکر اسکیم کیلئے سال 2020ء میں بجٹ 372 کروڑ روپئے سے بڑھاکر 600 کروڑ روپئے کردیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کوئی اسکیم اڈوانی جی سے بھی موسوم ہوسکتی ہے۔
خاتون کھلاڑیوں نے جو خواب دیکھا، وہ خواب پایہ تکمیل تک پہنچ کر چور چور ہوگیا، لیکن ایوارڈ کے نام کی تبدیلی اور رقمی انعام دیئے جانے کا رجحان شروع ہوگیا۔ جیسے جیسے ایوارڈس کے نام تبدیل ہورہے ہیں۔ کھیل میں بھی تبدیلیاں آنی شروع ہوں گی۔ اسی طرح مہمات کے نام تبدیل کردیئے جائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا آپ چاہتے ہیں کہ وزیراعظم کورونا کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں کی 15 اگست کو اپنے خطاب میں تعریف کریں تو پھر دوسری لہر کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے نہ صرف عام طور پر کورونا کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں کے بارے میں بات کی بلکہ اس میں ہلاک ہونے والوں کا بھی ذکر کیا۔