کشمیر اور نئے امریکی انتظامیہ سے امید

   

اذان جاوید
جوبائیڈن اور کملا ہیرس کی 2020 کے صدارتی انتخابات میں کامیابی سے جموں و کشمیر کی سیاسی پارٹیوں میں تازہ توقعات کا احیاء ہوا ہے۔ انہیں توقع ہے کہ ڈیموکریٹک صدر و نائب صدر امریکہ گزشتہ اگست میں دستور ہند کی دفعہ 370 کا احیاء کریں گے۔
وادیٔ کشمیر کے سیاستداں توقع رکھتے ہیں کہ نومنتخبہ صدر امریکہ بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس وادیٔ کشمیر کے بارے میں اپنے اُس موقف کو برقرار رکھیں گے جس کی وہ اس علاقہ میں عوام کے سامنے مستقبل کے حکمرانوں کو جوابدہ بنانے کے لئے پرزور انداز میں تائید کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ اکتوبر میں کملا ہیرس نے کہا تھا ’’ہم وادیٔ کشمیر کو یہ یاددہانی کروانا چاہتے ہیں کہ وہ دنیا بھر میں اکیلے نہیں ہیں ہم صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور اگر صورتحال کا تقاضہ ہو تو دخل دینے کے لئے بھی تیار رہیں گے‘‘۔
علاوہ ازیں اپنی پالیسی کے بارے میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے بائیڈن کی ویب سائٹ پر جاریہ سال جون میں کہا گیا تھا کہ جوبائیڈن کا ایجنڈہ برائے امریکی مسلم برادری بحیثیت نومنتخبہ صدر یہ ہوگا کہ حکومت ہند سے خواہش کریں کہ وادی کشمیر کے تمام عوام کے انسانی حقوق کے احیاء کے لئے ضروری اقدامات کئے جائیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ناراضگی پر تحدیدات پرامن احتجاج کی راہ ہموار کرتے ہیں یا پھر انٹرنیٹ کو سست رفتار بنادیتے ہیں اور جمہوریت کو کمزور کرتے ہیں۔
نومنتخبہ صدر امریکہ میں انتخابی نتائج کے بعد سابق وزرائے اعلیٰ جموں و کشمیر محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ سے واضح الفاظ میں اس بیان کی توقع رکھتے ہیں کہ بائیڈن اور ہیرس کی کامیابی پر ہفتہ کے دن انہوں نے جو تبصرے کئے تھے اُن میں ظاہر کردہ اپنے موقف پر برقرار رہیں گے۔ محبوبہ مفتی نے کہا تھا کہ ’’ان کی کامیابی ہمیں اور باقی تمام دنیا کو جس کا تعلق انتہا پسند دائیں بازو سے ہے تیقن دیتی ہے کہ نفرت کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے کے عمل کو بہت جلد روک دیا جائے گا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی میعاد کے دوران تاریخ میں اس باب کا اضافہ کیا تھا‘‘ ۔ عمر عبداللہ نے طنزیہ انداز میں بہار کے ایگزٹ پولس نتائج پر تحریر کیا تھا کہ اپوزیشن اتحاد کو کامیابی حاصل ہوگی۔ انہوں نے کہا تھا کہ بہار میں اور وائیٹ ہاوز میں ناکامی جس کا اعلان یکے بعد دیگرے کیا جائے گا چند برے دنوں کے بعد اچھے دن آنے کے نقیب ثابت ہوں گے۔
صف بندی کی سیاست کا اختتام
اتوار کے دن سیاسی پارٹیاں بشمول نیشنل کانفرنس (این سی) پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اور پیپلز کانفرنس (پی سی) نے انتخابی نتائج کا خیرمقدم کیا۔ نیشنل کانفرنس کے قائد عمران در کا بیان دی پرنٹ کو دیئے ہوئے انٹرویو میں شائع ہوا جس میں انہوں نے کہا ’’ہمیں امید ہے کہ صف بندی کی سیاست کا دور ختم ہوگیا۔ دنیا بھر میں کئی حکومتیں ہیں جن کی نوعیت فسطائی ہے، ان کے نتیجہ میں جمہوریت کمزور ہوتی ہے اور یہ اسی وقت طاقتور اور بلند حوصلہ اسی وقت ثابت ہوتی ہے جبکہ عالمی سطح پر فسطائی طاقتوں کو شکست ہو۔ بائیڈن اور کملا ہیرس پہلے ہی سے اپنی ذہنیت آشکار کر چکے ہیں۔ جب ان کی قیادت کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا تھا دونوں نے کشمیریوں اور کشمیری قیادت کے بارے میں اپنی آواز اٹھائی تھی۔ انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور مواصلاتی ناکہ بندی کا الزام عائد کیا تھا۔ ہمیں توقع ہے کہ وہ اسی موقف کو برقرار رکھیں گے اور جو غلطیاں کشمیر میں یا ہندوستان کے دیگر علاقوں میں کی جارہی ہیں ان کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے موقف پر قائم رہیں گے اور ایسے افراد کو برسر اقتدار لانے کی تائید کریں گے جو جواب دہ ہوں‘‘۔
انتہا پسند دائیں بازو کی شرمناک شکست
سجاد لون زیر قیادت پیپلز کانفرنس نے امید ظاہر کی ہے کہ بائیڈن اور ہیرس اصولی موقف پر کشمیر کے لئے برقرار رہیں گے اور یہ بات برداشت نہیں کریں گے جو ٹرمپ انتظامیہ نے کشمیر کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا تھا وہ جاری رہے۔
’’دونوں نے ماضی کے کشمیر کے بارے میں بات چیت کی ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ وہ کشمیر کے بارے میں اپنا اصولی رویہ برقرار رکھیں گے۔ ان میں انسانی حقوق کے مسائل برائے ہند بھی شامل ہوں گے‘‘۔
پارٹی ترجمان عدنان اشرف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’کیا موجودہ سیاسی منظر نامہ میں جہاں انہوں نے (امریکہ نے) ہندوستان پر زبردست دباؤ ڈالا ہے کہ ہند۔ پاک حکمت عملی میں چین کے تعلق سے متوازن موقف اختیار کیا جائے۔ ہم نہیں جانتے کہ کملا ہیرس کی مودی حکومت کی کشمیر پر پالیسی پر تنقید کا ترجمہ تبدیل شدہ حقیقی حالات میں کیا جاسکتا ہے لیکن ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان یقینا اس بات کو قبول نہیں کریں گے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی کشمیر کے بارے میں پالیسی کو جاری رکھا جائے۔ وہ اپنے اندیشے ظاہر کریں گے جو سابقہ بیانات میں ان کے سخت لب و لہجہ کی عکاسی کرتے تھے۔ ہمیں امید ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان خاص طور پر بائیڈن اور ہیرس پرزور انداز میں انسانی حقوق کے مسائل اور کشمیر کے عوام کی نمائندگی کے حقوق کے مسائل پرزورانداز میں اٹھائیں گے۔
پی ڈی پی کے وحید پارا کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان کی فتح ’’جمہوریت، فراخدلی کے نظریہ اور سیکولرازم کی فتح ہے‘‘ ۔ انہوں نے کہا کہ کئی طریقوں سے وہ یہ امید ہر ایک سے سن چکے ہیں کہ انتہا پسند دائیں بازو کو شرمناک شکست ہوگی۔ جب ٹرمپ فسادات کے دوران دہلی میں تھے تو انہوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان مختلف انداز فکر رکھتے ہیں۔