کشمیر ‘ خصوصی موقف کی برخواستگی

   

لاکھ شیرازہ بندی کی ہوگی
آدمی ہے بکھر گیا ہوگا
کشمیر ‘ خصوصی موقف کی برخواستگی
مرکز کی بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے جموںو کشمیر کے خصوصی موقف کو برخواست کردیا اور ریاست کی دو حصوں میں تقسیم کا بھی فیصلہ کرلیا ہے ۔ اس سلسلہ میں قرار داد بھی منظور کرلی گئی ہے ۔ یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ دستور کے دفعہ 370 اور جموں و کشمیر کے خصوصی موقف کو برخواست کرنا بی جے پی کے انتخابی ایجنڈہ کا حصہ رہا ہے اور اس نے اپنے منشور میں بھی اس بات کا تذکرہ کیا تھا ۔ تاہم ایک پہلو ہے جس پر غورکرنے کی ضرورت ہے کہ اس انتہائی حساس ترین اور اہمیت کے حامل مسئلہ پر جس انداز سے مودی حکومت نے کام کیا ہے وہ سوال پیدا کرتا ہے ۔ حکومت کو اس اہم ترین اور حساس نوعیت کے مسئلہ پر ملک کی اپوزیشن جماعتوں کو ‘ خود اپنی حلیف جماعتوں کو اور جموںو کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے علاوہ وہاں کے عوام کو اعتماد میں لیتے ہوئے فیصلہ کرنے کی ضرورت تھی ۔ اس کیلئے ایک جامع کوشش کے ذریعہ رائے عامہ ہموار کی جاسکتی تھی ۔ عوام کو اعتماد میں لے کر اگر یہ فیصلہ کیا جاتا تو اس پر جو اندیشے اب ظاہر کئے جا رہے ہیں وہ پیدا ہونے سے قبل ہی دم توڑ جاتے ۔ تاہم ایسا نہیں ہوا ہے اور حکومت نے عملا یکطرفہ طور پر فیصلہ کرلیا ہے ۔ حکومت نے پارلیمنٹ میں جس طرح سے اس سلسلہ میں قرار داد منظور کی اور اس پر غور و خوض کیلئے صرف ایک گھنٹہ کا وقت دیا ہے وہ قابل اعتراض ہے ۔ رہی بات ریاست کے تعلق سے فیصلہ کرنے کی تو اس پر کچھ سوال ضرور پیدا ہوتے ہیں تاہم سب سے زیادہ جو نقصان ہوا ہے وہ ریاست کے سیاستدانوں کا ہے ۔ جموں و کشمیر کو جو خصوصی موقف حاصل تھا اس کا فائدہ سب سے زیادہ ریاست کے سیاستدانوں نے اٹھایا تھا ۔ جموں و کشمیر کے عوام کو بھی اس سے کچھ مراعات ضرور حاصل تھے لیکن زیادہ فائدہ سیاستدانوں کو ہی حاصل تھا ۔ اب جو سیاستدان اس پر ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں وہ اپنے فائدہ کو پیش نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ریاست کے عوام کے ذہنوں میں جو سوالات ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔ ان سوالات کو اور ریاست کے عوام کو بھی اہمیت دئے جانے کی ضرورت یقینی طور پر محسوس کی جا رہی ہے ۔
حکومت نے اب جبکہ یہ فیصلہ کیا ہے تو اس کو ریاست کے عوام کے ذہنوں میں جو سوالات ہیں ان کو دور کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ یہ کام پہلے نہیں کیا گیا لیکن اب بھی یہ کیا جاسکتا ہے ۔ کشمیر میں جب ملک کے دوسرے حصوں سے لوگ جا کر اراضیات خریدیں گے تو یقینی طور پر ان اراضیات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا ۔اس سے کشمیری عوام کو جہاں ایک پہلو سے نفع ہوگا تو دوسرا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ وہ اب زمینوں کے مالک ہونے کی بجائے یہاں ملازمت کرنے والے بن جائیں گے ۔ ان کی سکیوریٹی اور سلامتی دوبارہ حکومت کی ذمہ داری ہوگی ۔ یہ کام پہلے سے بھی کیا جاتا رہا ہے اور آگے بھی کیا جانا ہوگا ۔ زمینات کی قیمتوں میں اضافہ سے جہاں فائدہ ہوگا وہیں کشمیری عوام خود بے زمین ہوجائیں گے ۔ ملک کے تاجروں کو اور دوسری ریاستوں سے وہاں پہونچ کر اراضیات خریدنے والے اس سے ضرور استفادہ کریں گے ۔ اس مسئلہ کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت کے فیصلے کے نتیجہ میں کشمیر میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے ۔ یہاں کے عوام کو روزگار سے جوڑنے میں مدد بھی مل سکتی ہے تاہم کچھ گوشوں سے اس فیصلے کی مخالفت میں عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان کیا جا رہا ہے اور یہ اندیشے فی الحال تو ضرور ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ حکومت کے اس فیصلے کو ملک کی عدالتوں میں آسانی سے چیلنج کیا جاسکتا ہے اور روکا جاسکتا ہے ۔
حکومت کے اس فیصلے کے سیاسی محرکات بھی ضرور دکھائی دیتے ہیں۔ جموںو کشمیر کو علیحدہ مرکزی زیر انتظام علاقہ بنایا جا رہا ہے جہاں مقننہ بھی ہوگی ۔ تاہم اگر ان دونوں علاقوں میں اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی ہوگی تو اس کا فائدہ بی جے پی حاصل کرنے کی کوشش ضرور کریگی اور یہی سوال عوام کے ذہنوں میں بھی دکھائی دیتا ہے ۔ لداخ کو ایک الگ مرکزی زیر انتظام علاقہ بناتے ہوئے اسے مقننہ سے دور کردیا گیا ہے ۔ جموں اور وادی کشمیر کو ایک علاقہ بناتے ہوئے وہاں اسمبلی بھی ہوگی اور لیفٹننٹ گورنر ہونگے ۔ عوام کے ذہنوں میں اس تعلق سے بھی جو سوالات ہیں ان کو حکومت کو محسوس کرنے اور ان کے اندیشوں کو دور کرنے کی کوشش بھی کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ جو کوئی فیصلہ عوام اور سیاسی حلقوں کو اعتماد میں لے کر کیا جاتا ہے اس سے وہاں حالات کو بہت جلد اور تیزی سے بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے ۔