’’کشمیر سے محبت اور کشمیریوں سے نفرت‘‘

   

محمد نصیرالدین
کشمیرجس کو ’’جنت نشاں‘‘ بھی کہا جاتا ہے، آج تاریخ کے انتہائی کربناک اور اذیت ناک دور سے گذر رہا ہے۔ 40 دن سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے۔ کشمیری عوام کی زندگی اجیرن بن چکی ہے، فوج اور سکیورٹی فورسیس نے عملاً کشمیری عوام کو قید و بند میں مبتلا کردیا ہے، عوامی نمائندوں کو نظر بند کردیا گیا ہے، ساری دنیا سے کشمیر کے رابطہ کو ختم کردیا گیا، ہزاروں نوجوانوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ کشمیری عوام بیرون ریاست اپنوں سے ربط پیدا کرنے سے قاصر ہے، اسی طرح بیرون کشمیر رہنے والے کشمیری عوام سے رابطہ سے قاصر ہیں، ملک کے میڈیا کو کشمیر کے حالات سے واقف ہونے اور واقف کروانے سے روک دیا گیا ہے، تاہم بعض بیرونی ممالک کی خبر رساں ایجنسیز سے جو خبریں مل رہی ہیں، وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ کشمیر غیرمعلنہ کرفیو سے گذر رہا ہے، عوام غذائی اشیاء کی قلت اور کمی سے پریشان ہیں، دودھ کے لئے اکثر بچے ترس رہے ہیں، بیمار اور ضعیف دواؤں کے حصول کیلئے در در بھٹک رہے ہیں، 8,000 کروڑ روپئے کے میوے کی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں، روزمرہ کے کاروباری اور چھوٹے بیوپاری بیروزگاری میں مبتلا ہوچکے ہیں، تعلیمی ادارے طلبہ سے خالی ہیں، سرکاری دفاتر میں برائے نام حاضری ہے، لیکن ملک کے حکمرانوں سے کون پوچھے کہ یہ کونسی جمہوریت ہے، یہ کونسی انسانیت ہے، یہ ملک کے شہریوں سے کیسا سلوک ہے، یہ کونسا وکاس ہے اور یہ کس کا ساتھ ہے؟ آرٹیکل 370 کو یکلخت ختم کرنے کی ایسی کیا ضرورت اور مصلحت تھی کہ سارے کشمیر کی عوامی زندگی کو تہس نہس کردیا گیا۔ 70 سال سے دفعہ 370 موجود ہے اور اہل کشمیر بعض خصوصی مراعات کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ آخر اس دفعہ سے ملک کی دیگر ریاستوں اور عوام کو کیا اعتراض تھا ؟ اور بالفرض اگر سارے کشمیر کو بھی دیگر ریاستوں کے لوگ خرید لیتے ہیں تو کیا چمتکار ہونے والا ہے!! سپریم کورٹ قوانین، R.T.I اور C.A.G کا کشمیر میں اطلاق ہوتا ہے تو ملک میں کونسا انقلاب برپا ہونے والا ہے؟ مرکزی حکومت کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے پس پردہ مقاصد پر سے پردہ اُٹھانا چاہئے اور کشمیری عوام اور سارے ملک کو بتانا چاہئے کہ کشمیر کے خصوصی موقف کو ختم کرکے ملک کو کیا حاصل ہوگا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ دستور کی حفاظت اور پابندی کا حلف لینے والوں نے دستور کی دھجیاں بکھیر دیں لیکن کشمیری عوام اور وہاں کے عوامی نمائندوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی مزید تعجب یہ ہے کہ ملک کی اہم اپوزیشن جماعتوں کو بھی اس تعلق سے باخبر رکھنے کی سعی نہیں کی گئی۔ ریاست کشمیر کو ترقی دینے اور تعمیر کرنے کے بلند بانگ دعوے کئے جارہے ہیں، لیکن وہ کیا منصوبے ہیں اور کیا اقدامات ہیں جن کو عمل میں لاکر کشمیر کو جنت نشاں باقی رکھا جائے گا، کوئی نہیں جانتا۔ وزیراعظم ملک و بیرون ملک یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ کشمیر میں حالات نارمل ہیں اور وہاں کسی قسم کی کوئی بے چینی یا ناراضگی نہیں پائی جاتی، اسی طرح کشمیر کے مسئلہ پر سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا جاتا ہے کہ کشمیر میں عام زندگی بحال ہے، کسی قسم کی کوئی پابندی یا رکاوٹ نہیں ہے، واقعی یہ بیان صحیح ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مواصلات کا رابطہ کیوں بند ہے، اپوزیشن قائدین کو ایرپورٹ سے واپس کیوں کردیا گیا، آبادیوں میں جانے اور عوام سے ملاقات کرنے سے کیوں روک دیا گیا اور کشمیر کی مساجد میں عبادات پر پابندی کیوں عائد کردی گئی ہے؟ حکمراں جماعت کے اقدامات اور رویہ سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے حکمرانوں کو خطۂ کشمیر کے خصوصی موقف کو ختم کرنے سے دلچسپی تھی اور اس خطہ کو عام دوسری ریاستوں کی طرح ایک ریاست بنانے کی جلدی تھی چنانچہ اس مقصد میں کامیابی پر وہ جشن منانے میں مصروف ہیں، انہیں اہل کشمیر کے مصائب اور تکالیف سے کوئی سروکار نہیں ہے، چاہے عوام کو غذائی اشیاء ملیں یا وہ بھوکے رہیں، بیمار و ضعیف لوگوں کو دوائیں دستیاب ہوں کہ نہیں، تعلیمی ادارے کام کرتے ہیں یا نہیں اور دواخانوں میں علاج و معالجہ کی سہولیات دستیاب ہیں یا نہیں، ان سب اُمور سے انہیں کوئی مطلب نہیں ہے۔ انہیں ایک خطہ ٔارض کو ملک کا ایک حصہ بنانا تھا سو انہوں نے وہ اقدامات کر ڈالے، اس کے عوض چاہے وہاں انسانیت بلکتی رہے، جبر و ظلم سہتی رہے اور موت و زیست میں گرفتار ہوتی رہے، ملک کے حکمرانوں کو اس بات کا اطمینان حاصل ہے کہ ملک کے وفادار، جاں نثار اور بہادر فوجی کشمیر کے چپہ چپہ کی حفاظت میں لگے ہیں اور اس خطہ ارضی پر کوئی آنچ آنے والی نہیں ہے۔
ڈی ایمانیل ایک فرانسیسی جرنلسٹ ہے جس نے کشمیر کا بہ نفس نفیس دورہ کیا

اور وہاں کی صورتحال کا برسر عام جائزہ لیا۔ اس صحافی نے 23 اگست کے فرانسیسی اخبار ’’لی فگارو‘‘ کے صفحہ 11 پر کشمیر کی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ ’’جب سے نریندر مودی حکومت نے کشمیر کی خودمختاری کو ختم کیا ہے، ہندوستانی سکیورٹی فورسیس گھروں پر چھاپے اور ناکہ بندی میں اضافہ کردیئے ہیں، سرینگر، پلوامہ اور شوپیان میں اکثر لوگوں نے بتلایا کہ رات کے اوقات میں سکیورٹی فورسیس ،گھروں پر چھاپے مارکر نوجوانوں کو حراست میں لیتی جارہی ہے۔ فوج عموماً اولین صبح 2 بجے گھروں پر چھاپے ماری کرتی ہے۔ گھر کے سارے مکینوں کو ایک کمرے میں بند کردیتی ہے، پھر گھروں میں تلاشی کے نام پر غذائی اشیاء اور نقدی و جویلری وغیرہ لوٹ لیتے ہیں اور گھروں کی کھڑکیاں توڑ دیتے ہیں، فوجی خواتین کے نقابوں کو نوچ ڈالتے اور پھاڑ دیتے ہیں۔ خوف و دہشت کا یہ عالم ہے کہ بچے اسکول تو کجا باہر کھیلنے سے بھی خوف محسوس کرتے ہیں۔ تمام مواصلاتی رابطے ختم کردیئے گئے ہیں۔ ڈسٹرکٹ پولیس ہیڈکوارٹرس سے بیرون ریاست مقیم رشتہ داروں سے فون کرنے کی سہولت دی جارہی ہے جہاں روزانہ لگ بھگ 3,000 افراد جمع ہوتے ہیں اور محض 6 منٹ کیلئے بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ہوٹلیں اور تمام تعلیمی ادارے بند ہیں، دواخانوں میں فوجی گولیوں سے زخمی افراد کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ دو باتیں عموماً بڑے زور و شور سے سننے کو ملیں: ’’اگر دنیا ہماری مدد نہیں کرسکتی تو پھر حکومت ہمارا قتل عام کر ڈالے اور ہماری زمین لے لے‘‘۔ ’’ہمارے ساتھ ظلم و ستم محض اس لئے ہورہا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور حکومت چاہتی ہے کہ کشمیر کو ایک ’ہندو ریاست‘ بنا دیا جائے‘‘۔
حقوق انسانی کے لئے سرگرم تنظیمیں، اپوزیشن جماعتیں اور امن و انصاف کیلئے سرگرم عمل نامور شخصیتیں مسلسل حکومت سے مطالبہ کررہی ہیں کہ وہ اپنے رویہ میں تبدیلی لائے اور کشمیر میں حالات کو بحال کرنے کی کوشش کرے لیکن افسوس کہ مرکزی حکومت کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہے۔ آخر مرکزی حکومت کے لئے کیا بات مانع ہے کہ وہ کشمیری عوام اور عوامی نمائندوں سے گفت و شنید کرتے ہوئے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش نہیں کرتی۔ ایک پرامن اور مستحکم کشمیر کیلئے تعمیر و ترقی پر مبنی روڈ میاپ کا اعلان کیوں نہیں کیا جاتا، ظاہر ہے ان اقدامات سے فرار کی راہ کوئی اچھی علامت ہرگز نہیں ہوسکتی۔
کشمیر کے افسوسناک اور تباہ کن حالات ہر دردمند دل کو بے چین کئے ہوئے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ دو سیول سرویسیس سے متعلق افراد نے استعفیٰ دے دیا، لیکن ملک بھر کے علماء، قائدین اور مختلف جماعتوں، اداروں اور انجمنوں کے سربراہوں پر لگتا ہے کہ کشمیر کے حالات کا کچھ اثر نہیں ہوا ہے۔ کشمیری عوام کی مصیبتوں، تکالیف اور مصائب کی ان کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ حکومت کی نظر میں ’قوم دشمن‘ نہ بن جائیں اور اظہارِ حق کی پاداش میں حکومت کے غیض و غضب کا شکار نہ ہوجائیں۔ کسی نے ایک مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کردی اور کسی نے حکومت کے اقدامات کی ستائش کردی اور یہ سمجھنے لگے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کا حق ادا کردیا ہے:
حق پرستی بھی ہے باطل سے رہ و رسم بھی ہے
پست کس درجہ مقام اپنا بنا رکھا ہے
رسول اللہؐ نے سارے اہل ایمان کو ’ایک جسم‘ قرار دیا اور دیگر اہل ایمان کی تکلیف، مصیبت اور پریشانی کو دُور کرنے کی کوششوں کو ’انتہائی مقبول و مقدس‘ قرار دیا لیکن ہائے افسوس یہ جانتے ہوئے بھی کہ کشمیر میں اہل ایمان پر ظلم و ستم بپا ہے۔ اس وسیع ملک کے قائدین، علماء اور تنظیموں کے سربراہ رسمی بیان بازی پر اکتفا کئے ہوئے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ میڈیا کے ذریعہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بحالی کا مطالبہ نہیں کیا جاتا، جنتر منتر پر لاکھوں انصاف پسند عوام کو جمع کرکے حکومت پر انصاف کے لئے دباؤ نہیں بنایا جاتا، عام حالات کی بحالی اور جبر و ظلم کے خاتمہ کیلئے سپریم کورٹ سے اپیل کیوں نہیں کی جاتی۔ صدرجمہوریہ سے نمائندگی کرنے سے کس نے روکا ہے۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو حکومت کے ناعاقبت اندیش اقدامات سے باز رہنے کی طرف کیوں متوجہ نہیں کیا جاتا؟ امام غزالیؒ نے ایک موقع پر فرمایا تھا: ’’طمع دُنیا نے علماء کی زبانیں گُنگ کردی ہیں اور وہ خاموش ہوتے ہیں، اگر بولتے بھی ہیں تو ان کے قول اور عمل میں مطابقت نہیں ہوتی، اس لئے اُن کی بات کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور علماء کی خرابی کی وجہ دولت اور جاہ کی محبت کا غلبہ ہے اور جس پر دُنیا کی محبت غالب آجائے، وہ سلاطین کا احتساب تو کیا کرے ، ادنیٰ درجہ کے لوگوں کا محاسبہ اور روک ٹوک بھی نہیں کرسکتا‘‘۔ اُمت کی عمومی کیفیت کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ اُمت کا بڑا طبقہ دنیا کی چمک دمک اور چکاچوند کا رسیا ہوچکا ہے۔ اپنی آرزوؤں اور خواہشات کی تکمیل کیلئے دوڑ دھوپ میں لگا ہوا ہے۔ بے راہ روی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش افرادِ ملت کا طرۂ امتیاز بنتا جارہا ہے اور خرافات میں دولت لٹاکر فخر کیا جارہا ہے، دوسری طرف سیاست کے نام پر اُمت کی سودے بازی عام ہوتی جارہی ہے۔ دین اور مذہب کے نام پر بعض تنظیموں، اِداروں اور مدارس کے سربراہ اور منتظمین زکوٰۃ، صدقات اور عطیات کو اپنی عیش پرستی کی تکمیل کا ذریعہ بنا بیٹھے ہیں۔ شام، فلسطین، عراق، افغانستان، مصر اور سعودی عرب کے اُمور پر تو زبردست بیان بازی، جلسے اور جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن کشمیر میں ناقابل اظہار مصائب اور زیادتیوں پر معنی خیز خاموشی ناقابل فہم ہے۔ شاید ایسے ہی حالات سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشن گوئی فرمائی تھی، صحابہ کرامؓ کو خطاب کرتے ہوئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میری اُمت پر عنقریب وہ وقت آئے گا جب دوسری قومیں اس پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح دستر خوان پر کھانے والے گرتے ہیں‘‘، کسی نے عرض کیا: ’’ائے اللہ کے رسولؐ جس دور کا حال آپ بیان فرمارہے ہیں کیا اُس دور میں ہم مسلمان اتنی کم تعداد میں ہوں گے کہ ہمیں نگل جانے کیلئے دیگر قومیں متحد ہوکر ٹوٹ پڑیں گی؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں !اس زمانے میں تمہاری تعداد کم نہیں ہوگی بلکہ تم بہت بڑی تعداد میں ہوں گے لیکن تم سیلابی جھاگ (بے وزن، بے قیمت ) کی طرح ہوجاؤ گے، تمہارے دشمنوں کے سینوں سے تمہاری ہیبت نکل جائے گی اور تمہارے دِلوں میں پست ہمتی گھر کرلے گی‘‘۔ ایک شخص نے پوچھا: ’’یہ پست ہمتی کس وجہ سے آجائے گی ائے اللہ کے رسولؐ؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’یہ اس وجہ سے ہوگی کہ لوگ دُنیا سے ’محبت‘ کرنے لگیں گے اور موت سے ’نفرت و کراہیت‘ ‘‘۔ (ابو داؤدؒ)
اب بھی وقت ہے کہ ملت بیداری کا ثبوت دے اور مرکزی حکومت پر دباؤ ڈالے کہ وہ کشمیر میں جبر و ظلم کی راہ کو ترک کرتے ہوئے پرامن طریقے سے گفت و شنید کے ذریعہ عام حالات زندگی کو بحال کرے۔ ظلم و جبر کے اس سلسلے پر روک نہیں لگائی تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ سلسلہ مزید دراز ہوگا اور نت نئے عنوانات اور موضوعات کی آڑ میں دیگر علاقوں میں بھی ایسی ہی صورتحال پیدا کی جائے گی اور جمہوریت، آزادی اور دستور کو ختم کردیا جائے گا:
’شاہین‘ ہے تُو زمین کی پستی نہ کر کبھی قبول
اپنے بلند عزم کو تاروں سے ہمکنار کر