کشمیر میں مسلمانوں کی دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاکتیں

   

روش کمار
وہ مجھ سے کشمیری پنڈتوں اور مقامی شہریوں کے قتل سے متعلق سوال پوچھتے ہیں۔ ان (امیت شاہ یا مودی )سے نہیں آپ کشمیر میں شہریوں کے قتل کو کیسے دیکھتے ہیں۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ انہیں کیسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسے دیکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو دیکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ دہشت گرد کسی کو قتل کرنے سے پہلے مذہب کا تعین نہیں کرتے لیکن قتل کی سیاست کو مذہب کی بنیاد پر بانٹا جارہا ہے۔ کشمیر میں جب بھی کچھ ہوتا ہے تو اترپردیش اور بہار کی سیاست کو آگے بڑھانے کیلئے مصالحہ تیار کئے جاتے ہیں۔ تمام کو یہ دریافت کرنا چاہئے کہ اس نوٹ بندی کا کیا ہوا جو دہشت گردی کو ختم کرنے والی تھی ۔دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے نام پر کئے گئے دعوؤں کا کیا ہوا۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ آرٹیکل 370 کے منسوخ ہونے کے بعد دہشت گردی اور انتہا پسندی ختم ہوجائے گی۔ یہی دعویٰ 2016ء میں نوٹ بندی کے وقت بھی کیا گیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دہشت گردی ختم ہوگئی ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جو آپ امیت شاہ سے پوچھیں گے یا مجھ (روش کمار) سے پوچھیں گے۔ کشمیر میں گزشتہ ایک سال میں دہشت گردوں نے 28 شہریوں کا قتل کیا ہے، ان میں عام شہری اساتذہ اور پنچایت کے ارکان شامل ہیں۔ ان 28 لوگوں میں سے 21 مسلمان اور 7 غیرمسلم ہیں۔ گزشتہ ہفتہ 7 افراد کا قتل کیا گیا، ان میں سے 3 مسلمان ہیں۔ ایک کشمیری پنڈت، ایک سکھ ، 2 دلت ہیں جو کشمیر کے باہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ پچھلے ہفتہ دہشت گردوں کے ایک نئے گروپ ٹی آر ایف نے سرینگر میں مجید احمد اور محمد شفیع لون کو قتل کیا تھا۔ دونوں کے گھروں پر وادی کا کوئی لیڈر نہیں گیا۔ کیا آئی ٹی سیل انہیں ملک کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے طور پر یاد کرتا ہے؟ دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے شہریوں کا اس کی نظر میں کوئی مقام نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ اچھی طرح بات ہے کہ سبھی قتل ہوئے کشمیری پنڈت اور ایک سکھ ٹیچر کے غم زدہ خاندانوں کے تئیں اظہار غم و تعزیت کیلئے آگے بڑھے۔ سوپندر کور اور ان کے ساتھی دیپک چند کا قتل کردیا گیا۔ موقر انگریزی روزنامہ ’’دی ہندو‘‘ نے بتایا کہ اس اسکول میں کام کرنے والے مسلم ساتھیوں نے انہیں ان کے گھر چھوڑ دیا۔

مقامی لوگ نے بڑی تعداد میں مکھن لال بندرو کے مکان پہنچے اور غم زدہ ارکان خاندان سے اظہار تعزیت کیا۔ چونکہ بندرو ایک کیمسٹ تھے، اس لئے ان کے کسٹمرس یا صارفین بھی ان کے خاندان سے ملنے آیا کرتے تھے۔ سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی ان کے مکان پہنچے ۔ اس موقع پر فاروق عبداللہ نے شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بندرو کو شیطانوں نے قتل کیا ہے۔ بندرو کی بیٹی کا کہنا تھا کہ وہ وادی کشمیر چھوڑنے والی نہیں ہے۔ دہشت گرد اس کے باپ کو قتل کرسکتے ہیں، اس کی سوچ و فکر کو نہیں۔ کئی کشمیری پنڈتوں کے خیال میں بندرو کا قتل دراصل ان پر حملہ کے مترادف ہے۔ بندرو کے میڈیکل ہال سے ان کی تین نسلیں ادویات حاصل کرتی رہی ہیں۔ قتل کے اس واقعہ میں کوئی بھی دہشت گردوں کے ساتھ نہیں۔ دوسری جانب جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس دلباغ سنگھ نے اپنے بیان میں جو مختلف اخبارات میں شائع ہوا کہا کہ وادی کے تمام طبقات نے اس قتل کی مذمت کی۔

کشمیری پنڈتوں کے قتل دراصل اس کی اپنی تاریخی اور سیاسی اہمیت رکھتی ہے۔ یقینا دہشت گردوں نے 21 مسلمانوں کی جانیں لیں کیونکہ وہ دہشت اور دہشت گردی کے خلاف حکومت کے ساتھ تھے لیکن کشمیری پنڈتوں کے قتل کو نمبروں سے الگ دیکھا جانا چاہئے۔ ایک کشمیری پنڈت کا قتل ہزاروں کشمیری پنڈتوں کے قتل کے مترادف ہے کیونکہ 1990ء کے دہے کی خوفناک صورتحال پھر سے سامنے آگئی ہے۔ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ یہ پھر سے شروع ہوسکتا ہے۔ وادی میں رہنے والے کشمیری پنڈتوں اور سکھوں میں عدم سلامتی کا احساس پایا جاتا ہے۔ سکھ اور کشمیری پنڈت ملازمین ایک ہفتہ سے کام پر نہیں گئے، وہ اپنے گھروں کو چھوڑنے کے قابل نہیں، اس لئے مکھن لال بندرو اور سکھ ٹیچر سوپندر کے قتل کو نمبرات میں اور الگ تھلگ نہیں دیکھ سکتے۔ انہیں محفوظ محسوس کرانا مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کشمیر میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، اس کے بارے میں اطلاعات تو آرہی ہیں لیکن وہ محدود ہیں یا پھر توڑ مروڑ کر پیش کی گئی ہیں۔ قومی میڈیا کا تو وہاں اب وجود ہی نہیں رہا جبکہ خبروں کے نام پر حکومت کا پروپگنڈہ چلایا جارہا ہے۔ اس کے باوجود وہاں کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ جب بی جے پی لیڈر اور پنچایت کے رکن راکیش پنڈت کو قتل کیا گیا تب ان کے خاندان کو 45 لاکھ رو پئے معاوضہ کے طور پر پیش کئے گئے لیکن جب بی جے پی کے مسلم رکن پنچایت کو مارا گیا تب ان کے خاندان کو صرف 5 لاکھ روپئے معاوضہ ادا کیا گیا۔

کیا اسی طرح کا دوہرا معیار اختیار کرنا درست ہے؟ دیکھنے کس طرح حکومت معاوضہ کی سیاست کرتے ہوئے معاشرہ کو تقسیم کررہی ہے۔ دہشت گردوں نے کشمیر کے باہر سے تعلق رکھنے والے دو دلتوں کو بھی قتل کیا جب بھاولپور کے رہنے والے وریندر پاسوان کو قتل کیا گیا، ان کی نعش خاندان کے حوالے نہیں کی گئی۔ حد تو یہ ہے کہ ان کے خاندان کو آخری رسومات کی ادائیگی کا موقع تک نہیں دیا گیا۔ کشمیر میں ہی ان کی آخری رسومات انجام دی گئی ۔ وریندر پاسوان کو نہ صرف دہشت گردوں کے ظلم و جبر کا سامنا کرنا پڑا بلکہ حکومت نے بھی اس دلت ورکر کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ کسی نے بھی روش کمار سے اس دلت ورکر کے ساتھ کی گئی ناانصافی کے بارے میں نہیں پوچھا۔ حکومت نے وریندر پاسوان کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ منصفانہ ہے؟
حکومت اس کی نعش بھاولپور نہیں لی جاسکتی تھی جو لوگ میری خاموشی کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، وہ یہ سوال کیا حکومت سے نہیں پوچھ سکتے۔
ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ مقامی انتظامیہ لوگوں میں کس طرح اعتماد کی تعمیر کررہا ہے یا عدم اعتماد کے نئے خطوط کھینچ رہا ہے۔
بہرحال یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا، یہ بھی وعدہ کیا گیا کہ بیروزگاروں کو روزگار فراہم کئے جائیں گے لیکن آج تک ان وعدوں پر عمل نہیں کیا گیا جبکہ 50 ہزار ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ ہوا میں لٹک رہا ہے۔ حالیہ قتلوں کے بعد تو بے شمار نوجوانوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کس طرح کام کررہی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ خود حکومت خوف کے سایہ میں کام کررہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت وادی میں لا اینڈ آرڈر کی برقراری میں پوری طرح ناکام رہی۔ ایک طرف اترپردیش میں پولیس کو ایک وزیر کے ملزم بیٹے کی گرفتاری کیلئے کئی دن انتظار کرنا پڑا اور یہ سب کچھ برہمن سیاست کے فروغ کیلئے کیا گیا اور دوسری طرف کشمیر میں قتلوں کے ضمن میں بیک وقت بے شمار لوگوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ کشمیر میں جو واقعات پیش آرہے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ آج وہاں کے عوام اور جوان (فوج) دونوں محفوظ نہیں ہیں۔ پونچھ میں دہشت گردانہ حملہ میں کئی سپاہی شہید ہوئے۔ وادی میں عام لوگ دہشت گردوں اور حکومت دونوں کے ظلم کا شکار ہیں۔ حکومت لوگوں کو دہشت گردوں کا ہمدرد اور دہشت گرد عام لوگوں کو حکومت کے مخبر سمجھ رہی ہے۔ وادی میں اعتماد سازی کی باتیں کی جارہی ہیں لیکن اعتماد کہیں نہیں دکھائی دیتا۔ کیا مودی حکومت کا کام نہیں کہ وہ وادی میں کشمیری پنڈتوں اور مقامی لوگوں میں سلامتی کا احساس پیدا کرے لیکن مودی نے کبھی بھی اپنی زبان نہیں کھولی، خود یوپی میں چار کسان، دو بی جے پی ورکرس ایک ڈرائیور اور ایک صحافی مارے گئے مودی نے ایک لفظ بھی نہیں کہا جبکہ آئی ٹی سیل سوال کررہا ہے کہ روش کمار کیوں خاموش ہے۔ دراصل لوگ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں سے برہم ہیں۔ ان حالات میں وہ جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہیں۔