کشمیر میں پابندیاں قانون نے مایوس کیا!

   

پی چدمبرم

جموں و کشمیر میں 4 اگست 2019ء کو پابندیاں عائد کرتے ہوئے ریاست کا بقیہ ملک سے تعلق عملاً منقطع کردیا گیا تھا۔ اُسی رات انسانی حقوق پر حملہ شروع ہوا۔ نظم و نسق کی باگ ڈور سنبھالنے والی نئی ٹیم گورنر، مشیران، چیف سکریٹری، ڈائریکٹر جنرل آف پولیس وغیرہ کو دستورِ ہند کی پاسداری کرنا شاید ہی عزیز رہا۔ 4 اگست 2019ء کو وادیٔ کشمیر میں موبائل فون نٹ ورکس، انٹرنٹ سرویسیس اور لینڈلائن کنکٹیویٹی منقطع کردیئے گئے۔ نقل و حرکت پر تحدیدات عائد کردی گئیں۔ 5 اگست 2019ء کو دستوری حکمنامہ 272 صدرجمہوریہ نے جاری کرتے ہوئے جے اینڈ کے کو اس کے خصوصی درجہ سے محروم کردیا اور ہندوستان کے دستور کی تمام دفعات کو مجوزہ مرکزی علاقوں کیلئے قابل اطلاق کیا۔ اُسی روز ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس نے دفعہ 144 ضابطہ فوجداری لاگو کیا اور نقل و حرکت اور عوامی اجتماع پر تحدیدات عائد کئے۔ سینکڑوں سیاسی قائدین اور کارکنان حراست میں لئے گئے۔ تین سابق چیف منسٹرس کوئی الزامات کے بغیر محروس کئے گئے اور ہنوز تحویل میں ہیں۔
انورادھا بھاسین ایگزیکٹیو ایڈیٹر ’کشمیر ٹائمز‘، غلام نبی آزاد ایم پی اور دیگر نے ان تحدیدات کے جواز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ اس دلیل کے علاوہ کہ درخواست گزاروں کے بنیادی حقوق توڑے گئے، انورادھا بھاسین نے استدلال پیش کیا کہ وہ اپنا اخبار شائع سے قاصر ہیں اور صحافت کی آزادی میں رکاوٹ آئی ہے۔ 16 ستمبر 2019ء کو سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ’’ریاستی حکومت قومی مفاد اور داخلی سلامتی کو ذہن میں رکھتے ہوئے تمام تر کوششوںکے ساتھ یقینی بنائے گی کہ کشمیر میں نارمل زندگی بحال ہوجائے‘‘۔ جیسا کہ اندیشہ تھا، نارمل لائف بحال نہ ہوئی۔ 10 اکٹوبر 2019ء کو عدالت نے مرکزی حکومت کا بیان قلمبند کیا کہ بعض تحدیدات میں ’’نرمی لائی گئی ‘‘ ہے۔ تاہم، عملاً کوئی عبوری حکمنامہ جاری نہیں ہوا کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں اس کی تعمیل کی پابند ہوں، اور جے اینڈ کے میں بالخصوص وادیٔ کشمیر کے حالات یونہی برقرار ہیں۔کیسوں کی سماعت کئی دنوں تک ہوئی، فیصلہ 27 نومبر 2019ء کو محفوظ کیا گیا اور 10 جنوری 2020ء کو سنایا گیا۔ عدالت نے پانچ مسائل کا احاطہ کیا ہے۔ میں آپ کو ان مسائل اور عدالت کے دیئے گئے جوابات کا مختصر خاکہ پیش کرتا ہوں:
1۔ کیا حکومت سیکشن 144 سی آر پی سی کے تحت احکام جاری کرنے سے استثنا کا دعویٰ کرسکتی ہے؟ جواب: نہیں۔
2۔ کیا اظہار خیال کی آزادی اور انٹرنٹ پر بزنس انجام دینے کی آزادی بنیادی حقوق ہیں؟ جواب: ہاں، ترتیب وار بہ تحت آرٹیکل 19(1)(a) اور (g) ، اور انٹرنٹ کو معطل کرنے والے ہر آرڈر پر اندرون 7 یوم نظرثانی کی جائے گی (اور سابقہ نظرثانی کے بعد وقفہ وقفہ سے اندرون 7 یوم )۔
3۔ کیا انٹرنٹ سے استفادہ کرنا بنیادی حق ہے؟ جواب نہیں دیا گیا۔
4۔ کیا سیکشن 144 کے تحت عائد تحدیدات درست رہے؟ جواب: یہ بیان کرتے ہوئے کہ اختیار کا استعمال بطور احتیاط اور اصلاح ہے، کہا گیا کہ آرڈر کو ضرور اُصول تناسب کے مطابق حقوق اور تحدیدات میں توازن قائم رکھنا چاہئے، اور یہ کہ بار بار احکام جاری نہیں کئے جاسکتے۔ عدالت نے ریاست؍ حکام کو ہدایت دی کہ ’’احکام کی برقراری کی ضرورت کا فوری جائزہ لیا جائے‘‘۔
5۔ کیا صحافت کی آزادی کی خلاف ورزی ہوئی؟ جواب: نظریہ ’’ذیلی اثر‘‘ کا جائزہ لینے اور غور کرنے کے بعد کہ اخبار کی اشاعت کا احیاء ہوگیا، عدالت نے کہا، ’’ہم اس مسئلہ پر مزید غور مناسب نہیں سمجھتے ہیں بلکہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ذمہ دار حکومتوں سے ہمہ اوقات صحافت کی آزادی کا احترام کرنے کی توقع رہتی ہے‘‘۔
عدالت کے تاثرات اور بعض مسائل پر تاثر پیش کرنے میں ہچکچاہٹ پر کچھ تعجب نہیں ہے۔ فیصلہ کی شروعات میں ہی عدالت نے اپنا رویہ واضح کردیا تھا: ’’ہمارا محدود اختیار آزادی اور سکیورٹی کی فکرمندی کے درمیان توازن قائم کرنا ہے۔ ہم یہاں صرف یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ شہریوں کو دستیاب حالات میں حتی المقدور تمام حقوق اور آزادی فراہم کئے جائیں اور ساتھ ہی سکیورٹی کو بھی یقینی بنایا جائے۔‘‘
4 اگست 2019ء سے 13 جنوری 2020ء تک کی مدت کے دوران جب حکومت نے نام نہاد ’معمول کی صورتحال‘ برقرار رکھی تھی، 20 عام شہری اور 36 عسکریت پسند ہلاک ہوئے اور 8 سکیورٹی پرسونل نے اپنی جانیں گنوائیں۔ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، انٹرنٹ پر، نقل و حرکت پر، عوام کے اجتماعات پر، سیاسی سرگرمیوں پر، بولنے اور لکھنے پر، اور وادیٔ کشمیر کو آنے والوں پر تحدیدات بدستور جاری ہیں۔ سیاسی قائدین ہنوز کوئی الزامات کے بغیر تحویل میں ہیں۔ لہٰذا، کیا فیصلہ کے بعد واقعی کچھ تبدیلی آئی ہے؟ بنجامن فرینکلن نے کہا ہے، ’’وہ جو لازمی آزادی کو ترک کردیں، تاکہ تھوڑی سی عارضی تحفظ حاصل کرلیں، وہ آزادی کے مستحق ہیں نہ تحفظ کے‘‘۔ تب پس منظر مختلف تھا، اس کے باوجود یہ قول مثالی بن گیا جب کبھی آزادی اور سلامتی کے درمیان ٹکراؤ ہوتا ہے۔ اگر عدالت نے بنجامن فرینکلن کے قول کو رہنما اُصول کے طور پر ملحوظ رکھا ہوتا تو کیا فیصلہ مختلف ہوا ہوتا؟
عدالت کا فیصلہ حکومت کو راہ فراہم کرتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے تئیں اپنے آمرانہ اور فوجی طرزعمل سے باز آجائیں، لیکن مجھے شبہ ہے کہ حکومت اس راہ کو اپنائے گی۔ عدالتی فیصلہ وادیٔ کشمیر کے 7 ملین (70 لاکھ) لوگوں کیلئے امید بھی پیدا کرتا ہے کہ اُن کی آزادیاں بحال کی جائیں گی، یہ اور بات ہے کہ فیصلہ کے 7 روز بعد بھی ایسا ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
مدعا علیہان (مرکزی اور یو ٹی حکومتیں) ناخوش ہیں کہ اُن کے اقدامات کو لگاتار عدالت سے رجوع کیا جارہا ہے۔ درخواست گزاروں کو بے اطمینانی ہے کہ انھیں قانون کی باتوں کے سواء کوئی حقیقی راحت نہیں ملی۔ عدالت کی جانب سے مزید کچھ کیا جاسکتا تھا، جیسا کہ پرائیویسی کیس (جسٹس پٹاسوامی) میں ہوا۔ ایک موقع گنوا دیا گیا۔ شاید اس کیس کی اگلی سماعت میں مزید کچھ کیا جائے گا (آپ شرط لگائیں تحقیر کی بابت کارروائی ہوگی) یا اگلے کیس کی سماعت میںہوگا۔ بعض اوقات قانون مایوس کرسکتا ہے۔