کشمیر پر اپوزیشن کی تشویش

   

قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیںحکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
کشمیر پر اپوزیشن کی تشویش
کشمیر پر اپوزیشن جماعتوںمیں تشویش میںمسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی کو کل سرینگر ائرپورٹ سے واپس بھیج دیا گیا ہے ۔ انہیں وہاں کا دورہ کرنے اور حالات سے واقفیت حاصل کرنے کی اجازت نہیںدی گئی ۔ اس سے قبل قائد اپوزیشن راجیہ سبھا غلام نبی آزاد کو دو مرتبہ سرینگرا ئرپورٹ سے واپس بھیج دیا گیا ۔ کمیونسٹ قائدین بھی پہلے وہاں کا دورہ کرنے کی ناکام کوشش کر چکے ہیں۔ راہول گاندھی کو ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے خود ریاست کا دورہ کرنے اور اس کیلئے طیارہ روانہ کرنے کی دعوت بھی دی تھی ۔ اس کے باوجود انہیں ائرپورٹ سے واپس بھیج دیا گیا ۔ جس وقت سے کشمیر میں دفعہ 370 کو ختم کیا گیا ہے اس وقت سے وہاں پابندیاں عائد ہیں۔ ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میںبانٹ دیا گیا ہے اور احتیاطی اقدامات کے طور پر وہاں پابندیاں اور تحدیدات نافذ کردی گئی ہیں۔ کچھ وقت کیلئے لینڈ لائین فون سرویس کو بحال کیا گیاتھا ۔ انہیںپھر بند کردیا گیا تاہم اب دوبارہ یہ فون خدمات بحال کردی گئی ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں جموں و کشمیر اور لداخ کی صورتحال کا خود جائزہ لینا چاہتی ہیں۔ وہ وہاں کے حالات سے واقفیت حاصل کرتے ہوئے عوام سے ملاقاتیں کرنا چاہتی ہیں۔ اپوزیشن کے قائدین بارہا یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ مقامی حالات سے واقفیت حاصل کرنے دورہ کرنا چاہتے ہیں۔ غلام نبی آزاد خود کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں اور دو مرتبہ ریاست کے چیف منسٹر رہ چکے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے ۔ اپوزیشن قائدین کا الزام ہے کہ حکومت اسطرح کی پابندیوں اور خود عوامی نمائندوں کو دورہ کی اجازت نہیں دیتے ہوئے حقائق کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ حکومت کا استدلال دوسرا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ احتیاطی اقدامات تشدد کو ٹالنے اور خاص طور پر پاکستان کو اشتعال انگیزی سے روکنے کیلئے کئے گئے ہیں۔ حکومت نے گذشتہ ہفتے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ آئندہ ہفتے تک وہاںحالات معمول پر آجائیں گے ۔ تاہم فی الحال ایسے کوئی آثار واضح طور پر دکھائی تو نہیں دے رہے ہیں۔
حکومت کو یقینی طور پر تمام تر احتیاطی اقدامات کرنے کا حق ہے تاکہ عوام کے جان و مال کا تحفظ ہوسکے اور امن متاثر نہ ہونے پائے ۔ تاہم ملک کی اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میںلینا بھی حکومت کا کام ہے ۔ حکومت اس مسئلہ پر اگر کسی کو بھی کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت نہیںدیتی ہے تو ملک کے وزیر داخلہ یا پھر راست وزیر اعظم کو ایک کل جماعتی اجلاس طلب کرتے ہوئے وہاںکی صورتحال ‘ حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات ‘ عوام کی حالت اور جو صورتحال وہاںپیدا ہوئی ہے اس سے انہیں واقف کرواتے ہوئے اطمینان دلانا چاہئے ۔ جمہوریت میںحکومت کو اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر کام کرنا ضروری ہوتا ہے اور اپوزیشن کو اہمیت کے حامل مسائل پر حکومت کا ساتھ دینا بھی پڑتا ہے ۔ کشمیر کے تعلق سے حکومت کا فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا اور حکومت نے جو کچھ ضروری سمجھا کیا ہے لیکن اس کیلئے ریاست کے عوام کو اعتماد میںنہیںلیا گیا اور اب حکومت اپنے فیصلے پر عمل آوری کرنے کے دو ہفتوں کے بعد بھی اپوزیشن جماعتوں کو تک تفصیلات سے واقف کروانے سے گریزاںہے ۔ اس پر اپوزیشن جماعتوںکو تشویش لاحق ہو رہی ہے اور کانگریس کی لیڈر پرینکا گاندھی نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ در اصل کشمیر میںجو پابندیاں اور تحدیدات عائد کی گی ہیں اورکسی کو بھی دورہ کرنے سے روکا جار ہا ہے وہی سیاسی حکمت عملی اور قوم مخالف اقدام ہے ۔
کشمیر میں تشددکو ختم کرنے ‘ دہشت گردی پر قابو پانے اور وہاں کی ترقی کیلئے حکومت کی جانب سے جو مناسب سمجھے گئے وہ اقدامات کئے گئے ہیں۔ تاہم اب حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ مقامی عوام اس سے متاثر نہ ہونے پائیں۔طویل وقت تک پابندیوںکی وجہ سے عوام کو الجھن ہے ۔ عوام خود کو محروس سمجھنے لگے ہیں۔ ساتھ ہی اپوزیشن جماعتیں بھی اس سارے مسئلہ میںبے چینی محسوس کر رہی ہیں تو حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نہ صرف ریاست کے عوام کو بلکہ ملک کی اپوزیشن جماعتوں کو مقامی صورتحال سے اور حکومت کے اقدامات و منصوبوں سے واقف کروائے ۔ عوام میںاعتماد پیدا کرنے کی کوشش کرے جس سے خود ان میں بھی اعتماد پیدا ہوگا اور امن کو استحکام بخشنے میںمدد ملے گی ۔