کلمہ ادا کرنے میں ناکامی کے بعد میری پہچان ظاہر ہوئی

,

   

چندی گڑھ۔ وینگ کمانڈر ابھینندن ورتامان ‘ چہارشنبہ کے روز پاکستان فوج کے ہاتھوں پکڑے گئے ائی اے ایف کے پائلٹ کی تصویریں تقسم کی جارہی ہیں‘واقعہ پر ہر طرف سے تنقید کی جارہی تھی ‘ بہت ممکن ہے ان کے ویڈیوز ان کی زندگی بچانے میں کار آمد ثابت ہونگے۔

ائی اے ایف کمانڈر ائیر کمانڈر جے ایل بھارگواجس کا ہوائی جہاز 1971کی جنگ کے دوران پاکستان میں کراش لینڈ ہوا تھا اور ایک سال تک پاکستان میں زیر تحویل کو یادکرتے ہوئے کہاکہ ابھینندن خوش قسمت ہے جس کا ویڈیو لوگوں نے بنایاتھا۔بھارگوا نے کہاکہ ’’ اگر ویڈیو عوام نہیں پھیلاتی ‘ تو ان کے زندہ رہنے کی بات ثابت کرنا بہت مشکل کام بن جاتا۔

ہوسکتا ہے اسلام آباد ان کی گرفتاری سے ہی انکار کردے‘ پھر اس کے بعد باقی کی زندگی انہیں پاکستان کی جیل میں گذارنا پڑتا۔ ابھینندن کا معاملہ بھی ان 54سپاہیوں کی طرح ہے جو 1971کی جنگ کے دوران لاپتہ اعلان کردے گئے ہیں‘‘۔

بھارگوا ہندوستان ائیر فورس کے ان بارہ پائلٹوں میں شامل تھے جنھیں اس وقت قیدی برائے جنگ( پی او ڈبلیوس)قراردیاگیاتھا۔

فی الحال پنچکولہ میں رہنے والے 77سالہ نے کہاکہ یہ صرف فوری طورپر منظرعام پر ائے ویڈیوز کانتیجہ ہے کہ کا پاکستان نے ان کی گرفتاری کا اعلان کیا اور سرکاری طور پر فوٹیج جاری کئے۔

ان کے وقت میں بھارگوا نے کہاکہ حکومت ہند کو ایک ماہ بعد گرفتاری کی جانکاری دی گئی تھی اور بین الاقوامی ادارے بھی اس کے بعد مداخلت کرنے لگے۔بھارگوا نے کہاکہ سب سے بڑا خطرہ ہندوستانی پائلٹ کے لئے ہجوم ہ اور ابھینندن خوش قسمت ہے جس کو پاکستانی فوج بے بچالیا۔

انہو ں نے اپنے ساتھی پائلٹ لفٹنٹ حسین کی پنجاب میں 1965کی جنگ کے دوران پوسٹنگ کو یادکیا جس کا جہاز ہندوستانی علاقے میں کراش ہوا تھا۔ ایک ہجوم نے انہیں نام کی مناسبت سے پاکستان سمجھ پر اس قدر پیٹا تھا کہ ان کی موت ہی واقع ہوگئی تھی ۔

بعدازں ہجوم جالندھر کنٹونمنٹ پہنچ کر ان کے لئے خون کا عطیہ بھی دیاتھا۔مذکورہ رانجی کرکٹ بھارگوا نے کہاکہ حالانکہ پاکستانی ڈیفنس افیسر ہندوستانی سپاہیوں کے ساتھ سنجیدگی سے پیش آتے ہیں‘کسی بھی پائیلٹ پوچھ تاچھ کے دوران کشیدہ حالات کے ساتھ گذرنا پڑتا ہے۔

انہو ں نے بتایا کہ ’’ وہ سونے نہیں دیتے‘ اس وقت خاص طور پر جب اہم جانکاری کے متعلق بات پوچھی جاتی ہیں۔

ہر سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب مجھ سے میرے ساتھی پائیلٹوں کے متعلق تفصیلات پوچھی جاتی تو میں اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کا نام لیاکرتا تھا۔

میری کوشش یہی رہتی تفتیش کرنے والے دیگر لوگوں کو بھی وہی نام دہراؤں ‘ کیونکہ بہت سارے پائلٹس کو ایسی حالت میں خطرہ ہوجاتا ہے۔مجھے یا د ہے انہو ں نے استفسار کیاتھا کہ تمہاری ٹیم میں سب سے بہترین پائلٹ کون ہے تو میں نے جواب دیاتھا کہ’’ وہ اپ کے سامنے کھڑاہے‘‘۔

مذکورہ سابق پائلٹ نے کہاکہ انہیں ایسے حالات سے مقابلہ کرنے کی تربیت دی جاتی ہے او رساتھ میں بچاؤ کے ایک کٹ بھی فراہم کی جاتی ہے جس میں ایک پستول اور کچھ پاکستانی کرنسی موجود رہتی ہے۔

بھارگوا جو اس وقت فلائٹ لفٹنٹ تھے نے کہاکہ ان کا جہاز ایچ ایف۔24نو کو بارمار سے 5ڈسمبر 1971کے روز اڑان بھرنے کے بعد دشمن کے علاقے میں مارگرایاتھا۔ صبح9بجے کے قریب اب ان کے ائیرکرافٹ کو نشانہ بنائے جانے کے بعد وہ زمین پر گرے۔ ہوائی جہاز پاکستان کے ریت والے علاقے میں گرا۔

انہوں نے بچاؤ کٹ سے اپنے سامان نکالا۔ اپنی جی سوٹ بوششس میں جلادیا‘ پاکستان وقت کے مطابق اپنی گھڑی کا وقت بنایا اور ہوائی جہاز سے دور چلے گئے۔

انہو ں نے بارہ گھنٹوں تک خودکی مقامی پاکستانی پائیلٹ منصور علی کے طور پر شناخت بتاتے ہوئے بچائے رکھا‘ اور ان کے یقین کے لئے پاکستانی کرنسی بھی لوگوں کو دیکھائی۔

گاؤں کا اسکول ہیڈ ماسٹر مجھ سے متفق نہیں ہوا ‘ اور میرے آبائی مقام کے متعلق سوالات پوچھنے لگا’’ جب میں نے کہاکہ میں روالپنڈی سے ہوں ‘ تو اس کا استفسار کہاں سے تھا؟ میں نے کہاکہ مال روڈ۔ پھر اس نے کہاکہ میں ایک ہندوستانی گاؤں میں تھا۔

میں نے درخواست کی مجھے پاکستان واپس بھیجنے میں مدد کریں‘ پھر اس کے بعد ہی اس نے بتایا کہ میں پاکستان میں ہوں اور وہ میرا امتحان لے رہاتھا‘‘۔مگر وہاں پر پہنچنے والے پاکستانی رینجرس نے مجھ سے کلمہ پڑھنے کے لئے کہاکہ’’ جیسے ہی میں ناکام ہوگیا‘ میرا راز فاش ہوا۔ مجھے گرفتار کرکے پاکستانی فوج کے حوالہ کردیاگیا۔