کورونا بحران میں ہندوستانی ناقل ہیلت سسٹم بے نقاب

   

یوگی کی اقتدار سے بے دخلی یقینی ، ڈاکٹر کفیل خان کی جرات اور جدوجہد کو خراج تحسین

حیدرآباد /30 جنوری ( پریس نوٹ ) گورکھپور ٹریجڈی کے دوران مشہور ڈاکٹر کفیل خان نے اس یقین کا اظہار کیا کہ اگر تعلیم یافتہ سیکولر طبقہ متحد ہوجائیں تو فرقہ پرست طاقتوں کا صفایا ہوجائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ آدتیہ ناتھ یوگی کی اقتدار پر واپسی ناممکن ہے کیونکہ پانچ سال میں یوگی نے عوامی فلاح و بہبود کا کوئی بھی کام نہیں کیا بلکہ ہندو مسلم ، علی بجرنگ بلی ، اباجان ، بھائی جان کرتے رہے ۔ اترپردیش کے عوام کی اکثریت انہیں اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتی ہے ۔ ڈاکٹر کفیل خان میڈیا پلس اور گواہ کے زیر اہتمام ایک مذاکراتی اجلاس سے مخاطب تھے ۔ ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عامر اللہ خان نے صدارت کی ۔ شہ نشین پر جناب جلیل انصاری چیرمین ویژن این آئی آر فورم سعودی عرب ، ڈاکٹر عبدالستار خان میڈیکل سرویس سنٹر ، ڈاکٹر خضر حسین جنیدی اور سید خالد شہباز موجود تھے ۔ ڈاکٹر کفیل خان نے کہا کہ حالیہ کوویڈ بحران نے ہندوستان کے ہیلت سسٹم کی ناکامی کو بری طرح سے بے نقاب کیا ۔ اس لئے وہ ہیلتھ فار آل مہم چلا رہے ہیں۔ اس کے تحت ان کی کوشش ہے کہ شمالی ہند میں جہاں عوام کو طبی سہولتیں میسر نہیں ہیں انہیں دو تین کلیومیٹر کے حدود میں یہ سہولتیں فراہم کی جاسکیں ۔ ڈاکٹر کفیل خان جنہیں آدتیہ ناتھ نے گورکھپور کے ایک ہاسپٹل میں آکسیجن کی سپلائی ختم ہوجانے سے پیداشدہ بحران میں انسانیت کی خدمت کے صلہ میں 500 دن جیل میں رکھا تھا ۔ اپنے پر ڈھائے گئے مظالم کی داستان انہوں نے کتابی شکل میں پیش کی ۔ جس میں انہوں نے عدلیہ ، پولیس ، میڈیا اور آدتیہ ناتھ کے تعصب پر بڑی بے باکی اور جرات کے ساتھ قلم اٹھایاہے ۔ ڈاکٹر کفیل خان نے جب پولیس کے مظالم کا ذکر کیا تو میڈیا پلس آڈیٹوریم میں موجود سامعین اشکبار ہوگئے تھے ۔ ڈاکٹر خان نے بتایا کہ انہیں پانچ پانچ دن تک کھانا پانی نہیں دیا گیا ۔ مکمل برہنہ کرکے کئی کئی پولیس جوان مسلسل مارپیٹ کیا کرتے تھے ، وہ بے ہوش ہوجاتے ، چیختے چلاتے ، بھوک کی تاب نہ لاکر انہوں نے اپنے قمیض کے آستین کو کھالیا تھا ۔ اور گھانس اور پتوں کو چبالیا کرتے تھے ۔ پولیس ان سے اصرار کرتی کہ یوگی کے خلاف اپنی زبان بند رکھیں مگر کفیل خان نے تمام ظلم سہے مگر ہمت نہیں ہاری، انہوں نے کہا کہ وہ اس لحاظ سے بہت خوش نصیب ہیں کہ اتنے مظالم سہہ کر بھی وہ زندہ بچ گئے ۔ ان کے بھائی کو چار گولیاں ماری گئیں وہ بھی بچ گئے ۔ کووڈ میں ضعیف افراد کو باہر نکلنے سے منع کیا گیا تھا ان کی ضعیف والدہ علی گڑھ پولیس اسٹیشن سے الہ آباد ہائی کورٹ اور پھر دہلی کی سپریم کورٹ تک دوڑ دھوپ کرتی رہیں ۔ ان کے خلاف 8 مرتبہ انکوائری بٹھائی گئیں ۔ سب نے انہیں بے قصور قرار دیا ۔ اس کے باوجود ان سے نوکری چھین لی گئی ۔ ان کے پاس زمینات ہیں مگر یوگی کے ڈر سے کوئی اسے خریدنے کو تیار نہیں ۔ جب انہوں نے کتاب لکھی تو کوئی چھاپنے کو تیار نہیں تھے ۔ مگر ایک برٹش پبلشر نے اسے چھایا اور یہ کتاب Best Seller قرار دی گئی ۔ ڈاکٹر کفیل خان نے میڈیا چیانلس کی جانبداری پر افسوس کا اظہار کیا اور بتایا کہ انہیں ہیرو سے ویلن بنانے میں حکومت اترپردیش کی ایماء پر نیشنل میڈیا نے نگیٹیو رول ادا کیا ۔ انہو ںنے سیاست میں حصہ لینے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر انہیں دلچسپی ہوتی تو وہ ہندوستان کے مختلف شہروں کے دوروں پر نہ ہوتے ۔ جناب عامر اللہ خان نے ڈاکٹر کفیل خان کی ہمت اور جرات کو خراج تحسین پیش کیا۔ اور ان کے مشن میں ساتھ ہونے کا تیقن دیا ۔ ڈاکٹر ستار خان نے ڈاکٹر کفیل خان کی جدوجہد کو مثالی قرار دیا اور کہا کہ وہ آج کے فرعون کا مقابلہ کر رہے ہیں جو سب سے بڑا جہاد ہے ۔ جناب محمد رفیق احمد ، جناب مصطفی علی سروری اسوسی ایٹ پروفیسر، ڈاکٹر محمد سلیم ریٹائرڈ اسوسی ایٹ پروفیسر نظامیہ طبی کالج نے بھی مخاطب کیا ۔ سید خالد شہباز نے نظامت کے فرائض انجام دئے اور ڈاکٹر کفیل خان کی جدوجہد سے بھرپور زندگی پر بائیوپک بنانے کی تجویز پید کی ۔