کورونا وائرس — تیری دوا نہ جنیوا میں ہے ، نہ لندن میں

   

محمد مبشر الدین خرم

کورونا وائرس نے دنیا میں جو دہشت مچائی ہوئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جن ممالک کی ترقی پر رشک کیا جاتاتھا اور کہا جاتا تھا کہ ان ممالک نے اپنی تیز رفتارترقی کے ذریعہ جو مقام بنایا ہے وہ قابل تقلید ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک کی ان کی اندھی تقلید کی کوشش بھی کیا کرتے تھے لیکن اب جب کہ ان ممالک کی حالات انتہائی ابتر ہوتی جا رہی ہے لیکن وہ کورونا وائرس نامی اس وباء سے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیںتودنیاان کی جانب سے کی جانے والی ان کوششوں کی بھی تقلید کرنے کے بجائے اس بات کو جاننے کی کوشش کررہی ہے کہ وباء آفات سماوی کا حصہ ہے یا انسان کی جانب سے کی جانے والی تباہی ہے۔ کورونا وائرس جسے
COVID-19
کا نام دیا گیا ہے اس وباء کو پھیلنے سے روکنے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو تمام ممالک اس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے میں مصروف ہیں اور ان احتیاطی تدابیر میں سب سے اہم معاشرتی فاصلہ بنائے رکھنے کی تاکید کی جا رہی ہے ۔ ماہ ڈسمبر میں چین کے شہر ووہان میں شروع ہونے والی اس وباء کے سلسلہ میں کئی سوالات اور شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے ‘ دنیا کی معاشی حالت کی تباہی‘ عالمی کیمیائی جنگ‘ دنیا کا سوپر پاؤر بننے کی کوشش کے علاوہ دنیا میں انسانوں کی ہلاکت کے ذریعہ خطہ زمین کے لحاظ سے انسانوں کی تعداد کو کم کرنے جیسی منطق پر بھی مباحث جاری ہیں لیکن ہماری ذمہ داری ہے کہ سب سے پہلے اس وائرس سے محفوظ رہنے کے معاملہ پر بحث کریں اور اس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کی جائیں کیونکہ عالمی ادارہ صحت نے اس وباء کو عالمی وباء قرار دے دیا ہے۔
کورونا وائرس سے بچنے کی تدابیر
کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کیلئے لازمی ہے کہ سماجی و معاشرتی فاصلہ اختیار کرتے ہوئے خود کو بھی اس وباء سے محفوظ رکھیں اور دوسروں کو بھی اس سے محفوظ رہنے میں تعاون کریں۔ پر ہجوم مقامات اور ایک دوسرے سے مس ہونے کے عمل سے محفوظ رہتے ہوئے ایسا کیا جاسکتا ہے کیونکہ اب تک کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ وباء جسم کو چھونے سے دوسرے میںمنتقل ہوتی ہے اور اس کے علاوہ متاثرہ شخص کے ساتھ 15منٹ گذارنے کی صورت میں بھی اس وباء کے منتقل ہونے کا خدشہ ہے۔ اس سلسلہ میں مذہب اسلام کی واضح ہدایات موجود ہیں جس میں صحیح البخاری کی 2احادیث کا حوالہ موجود ہے جس میں حدیث نمبر5771جو کہ حضرت ابو سلمہؓ سے مروی ہے میں حضرت ابو سلمہؓ نے روایت کیا ہے کہ انہوںنے حضرت ابوہریرہؓ سے سنا ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنے بیمار اونٹوں کو کسی کے صحت مند اونٹوں میں نہ لے جائے۔حضرت ابوہریرہؓ نے پہلے حدیث کا انکار کیا ۔ہم نے (حضرت ابوہریرہ ؓ سے ) عرض کیا کہ آپ ہی نے ہم سے یہ حدیث نہیں بیان کی ہے کہ چھوت یہ نہیں ہوتاپھروہ (غصہ میں) حبشی زبان بولنے لگے حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمنؓنے بیان کیا کہ اس حدیث کے سواء میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کو اور کوئی حدیث بھولتے نہیں دیکھا۔‘ اسی طرح ایک اور حدیث صحیح بخاری میں موجود ہے جس میں حضرت عمر ؓ کے دورۂ شام کے دوران علم ہوا تھا۔

دنیا بھر میں معاشی تباہی
کورونا کے قہر نے دنیا میں جو عالمی معاشی بحران پیدا کیا ہے اس کے متعلق کہا جا رہاہے کہ ڈسمبر2019سے مارچ2020 تک 500بلین ڈالر کی تباہی ریکارڈ کی جاچکی اور اب بھی کسی بھی مستحکم معیشت والے ملک کے بازار میں بہتری نہیں دیکھی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود بیشتر تمام ممالک کی جانب سے سب سے اہم سیاحتی شعبہ بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے مسئلہ کی حساس نوعیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ چین‘ امریکہ‘ اٹلی‘ فرانس‘ ایران‘ سعودی عرب‘ دبئی ‘ ابو ظہبی‘ قطر‘برطانیہ کے علاوہ یوروپ کے بیشتر ممالک میں مکمل بند کے فیصلہ کے بعد جوصورتحال رونما ہوئی ہے وہ انتہائی سنگین ہے لیکن اس کے باوجود برصغیر میں ہندستان اور پاکستان کی جانب سے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں انہیں ناکافی تصور کیا جا رہاہے او رکہا جار ہاہے کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کی جانب سے مسئلہ کی حساسیت کو سمجھا نہیں جا رہاہے لیکن اگر باریکی سے جائزہ لیا جائے تو دونوں ممالک کی حکومتوں کو مسئلہ کی سنگینی کا احسا س بھی اور اس سے ہونے والے معاشی نقصانات کا بھی اندازہ کرچکے ہیں لیکن ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کو مزید ابتر بنانے کے موقف میں دونوں ہی نہیں ہیں اسی لئے عوام میں خوف پیدا نہ ہواور معمول کے مطابق کاروبار کو برقرار رکھنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور نظریہ یہ بھی کہا جا رہاہے کہ معاشی مندی کے سبب جو صورتحال بازار میں دیکھی جارہی تھی اور عوام خرچ کرنے سے اجتناب کر رہے تھے انہیں خرچ کا موقع فراہم کرنے کیلئے لیت و لعل سے کام لیا جا رہاہے تاکہ جمع پونجی باہر آئے تو بازار کی صورتحال بہتر ہو اور جو سرکاری خزانہ خالی ہونے لگا تھا اسے بھرنے کا موقع میسر آئے لیکن اس نظریہ کو قبول کرنے کے امکان کم ہی ہیں۔

آفت سماوی یا کیمیائی جنگ
کیمیائی جنگ کے امکانات کو خارج کرنے کی جتنی کوشش کی جائے کم ثابت ہورہی ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ اس وبائی مرض کا تعلق کسی کیمیائی جنگ سے نہیں ہے لیکن اب تک محققین و مبصرین نے تبصرے پیش کئے ہیں ان کو اگر درست مانا جائے تو یہ ایک کیمیائی جنگ سے کم نہیں ہے جو کہ دو تجارتیفریقوں کے درمیان شروع کی گئی تھی لیکن اب دنیا اس سے متاثر ہونے لگی ہے۔ چین سے شروع ہونے والی اس وباء اور امریکہ و چین کے تجارتی تعلقات میں پیدا شدہ خرابی کو نظر میں رکھتے ہوئے دیکھا جا رہاہے اور دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات اور تباہی کے لئے ذمہ داری عائد کی جانے لگی ہے لیکن اس کے باوجود دنیا بھر میں اس مسئلہ پر الجھنے کے بجائے اس سے بچاؤ کی تدابیر پر توجہ دی جا رہی ہے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جاری چپقلش میں شرانگیزی میں اول تصور کئے جانے والے اسرائیل کو فراموش کیا جا رہاہے جبکہ اسرائیل بھی بائیو کیمیکل ہتھیار تیار کرنے کی اہلیت سے کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا اور حالیہ عرصہ میں اسرائیل نے گریٹر اسرائیل کے منصوبہ کو قطعی شکل دینے کی حکمت عملی کے تحت امریکی تعاون کے ذریعہ یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اسرائیل دنیا کے بیشتر تمام ترقی یافتہ ممالک کو تجارتی مسابقت دینے لگا ہے اور اسرائیل کی مائیکرو‘ روبوٹک‘سائبر ‘ زرعی اورسب سے اہم دفاعی ٹکنالوجی میں ترقی نے دنیا کے کئی سخت گیر موقف رکھنے والے عرب ممالک کوبھی اسرائیل سے تجارتی تعلقات استوار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

عالمی تعلیمی نظام تباہ
عالمی سطح پر تعلیمی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے کیونکہ دنیا بھر میں 73 ممالک نے مجموعی طور پر اپنے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں امریکہ‘ ہندستان‘ چین ‘ سعودی عرب‘ دبئی ‘ ابو ظہبی‘ بحرین‘ اٹلی ‘فرانس‘ برطانیہ کے علاوہ دیگر ممالک شامل ہیں۔ یونیسکو کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں موجود طلبہ میں 5طلبہ میں ایک طالبعلم کی تعلیم کورونا وائرس کے سبب متاثر ہوئی ہے ۔اس وبائی مرض نے دنیا بھر میں 451 ملین طلبہ کو گھروں میں بیٹھنے پر مجبور کردیا ہے اور بیشتر ممالک میں جہاں تعلیمی سال کا اختتام پر ہیں ان ممالک میں سالانا امتحانات بھی ملتوی کردیئے گئے ہیں۔ دنیا بھر کے کئی ممالک میں جہاں امتحانات ملتوی کردیئے گئے ہیں اور وہ ممالک جوترقی یافتہ ہیں ان ممالک میں آن لائن تعلیم و تدریس کے فروغ کے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور کہاجا رہاہے کہ آن لائن سلسلہ تعلیم جاری رکھیں حالات کے معمول پر آنے کے بعد امتحانات کے سلسلہ میں قطعی فیصلہ کیا جائے گا۔ حکومتوں کی جانب سے شہریوں میں خوف و دہشت پیدا نہ ہو اس کے لئے کئی ایک اہم اقدامات کئے جانے لگے ہیں جن میں شہروں کو بتدریج مقفل کیا جا رہاہے اور شہریوں کو اس بات کی طمانیت دی جا رہی ہے کہ اگر کسی قسم کی ناگہانی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس سے نمٹنے کے لئے حکومت تیار ہے اسی لئے اسکولوں اور تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

عالمی سیاحت بحران کاشکار
دنیابھر کے ممالک کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے اور الگ الگ ممالک کی تہذیبوں سے آشنائی کے علاوہ تعلقات استوار کرنے کے لئے سب سے اہم شعبہ سیاحت ہے لیکن اب دنیا کے بیشتر تمام ممالک اپنے شہریوں کے علاوہ کسی اور کی میزبانی کے موقف میں نہیں ہیں۔ دنیا نے گذشتہ کئی برسوں کے دوران مختلف اقسام کی سیاحت کو فروغ دیا ہے جس میں مذہبی سیاحت‘ طبی سیاحت‘ وقت گذاری سیاحت‘ ماحولیاتی سیاحت‘ تہذیبی سیاحت‘جنگلاتی سیاحت شامل ہے لیکن اب شعبہ سیاحت پوری طرح سے تباہ ہوچکا ہے اور کسی بھی ملک میں سیاحت کے فروغ کے سلسلہ میں بات تو کجا موجود سیاحوں کوواپس روانہ کرنے کے اقدامات کئے جانے لگے ہیں۔ عالمی سطح پر مذہبی سیاحت میں جن مقامات کا تذکرہ کیا جاتا ہے ان میں سب سے اہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہے جہاں ہر سال کروڑوں افراد بغرض حج و عمرہ پہنچتے ہیں اس کے علاوہ عراق‘ ایران اور فلسطین بھی مذہبی سیاحت کے لئے معروف مقامات ہیں ۔زائرین مسجد اقصی کو بھی اسرائیل نے کورونا وائرس کے سبب سیاحوں اور زائرین کے لئے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس اعتبار سے مسلمانوں کے تینوں حرم ان کے بند ہوچکے ہیں۔دنیا کے وہ ممالک جو طبی سیاحت کے فروغ کے لئے پنے دواخانوں کی تشہیر کئے کرتے تھے اور علاج کے معیاراور سہولتوں کو پیش کرتے تھے وہ طبی آفت کے اس دور میں اپنے ہی ملک کے مریضوں سے نمٹنے میں مصروف ہیں کیونکہ سیاحت بند ہوچکی ہے۔

وبائی مرض کی حقیقت اور احتیاط
وبائی امراض کے پھیلنے کے دوران عوام کوابتداء میں احتیاط کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا کیونکہ مرض کی تحقیق اور اس کے علاج کے وقفہ کے درمیان کافی وقت لگتا ہے اور اس مدت میںبسا اوقات لاکھوں جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ دنیا نے وبائی امراض کی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا ایساکہنا درست نہیںہے کیونکہ جب کبھی وبائی امراض پھیلتے ہیں تو دنیا بھر میںاس سے نجات کے لئے سرگرمیاں تیز ہوجاتی ہیں اور ان کی تحقیق کے ساتھ فوری ٹیکہ اندازی کیلئے ٹیکہ کی تیاری پر توجہ دی جاتی ہے اور دنیا بھرمیں جن ممالک میںادویات سازی اور تحقیق کی سہولت موجود ہے وہ اس میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ان کی ان کوششوں کے باوجود مرض اور علاج کے درمیان کی مدت میں کئی قیاس آرئیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو کہ حالات پر مبنی ہوتی ہیں اور کسی حد تک درست بھی نظر آنے لگتی ہیں لیکن ان میں کس حد تک صداقت ہوتی ہے یہ اب تک کوئی ثابت نہیں کرپایا ہے ۔ وبائی امراض کی ابتداء کی وجوہات جاننے کے لئے جو کوششیں کی جاتی ہیں ان میں سب سے اہم مرض کی وجہ ہوتا ہے اور کورونا کے سلسلہ میں کہا جا رہاہے کہ اس مرض کی بنیادی وجہ چمگادڑ ہے جس کا سوپ چینی عوام استعمال کرتے ہیں۔ چمگادڑ کے استعمال اور چمگادڑوں کی موجودگی نے دنیا بھر کواس خوفزدہ کیا ہوا ہے اور ماہرین نے اس بات کی توثیق کی ہے کہ چمگادڑ کے سبب یہ مرض وجودمیں آیا ہے جو ایک انسان کے دوسرے انسان کو چھونے سے پھیل رہا ہے۔اسی لئے اس مرض کے متعلق قیاس آرائیوںسے بہتر ہے کہ مرض کا علاج دریافت ہونے تک اس مرض سے احتیاط کے لئے ممکنہ اقدامات کئے جائیں جو کہ لازمی ہیں۔عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جو احتیاطی تدابیر جاری کی گئی ہیں ان احتیاطی تدابیر کے سلسلہ میں تشہیر کا عمل جاری ہے اور ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا ناگزیر ہے تاوقتیکہ اس موذی مرض کاعلاج سامنے نہ آجائے۔

انگریزی فلم ـContagian
فلمساز اکثر تخیلات کی دنیا پر فلمسازی کرتے ہیں لیکن ہالی ووڈکو ہی یہ اعزاز حاصل ہے اور بالی ووڈ میں اکثر فلمسازی کیلئے کوئی بڑے واقعہ یا خبر اور سماجی حالات پرمبنی کہانیوں کو اختیار کیا جاتا ہے لیکن انگریزی فلم Contagianجو کہ2011میں ریلیز ہوئی تھی شائد اس وقت اس فلم کو اتنی تشہیر نہیں ملی تھی جو کورونا کے مرض کے منظر عام پر آنے کے بعد ملی ہے۔ کوروناوائرس کی خبروں کے دوران اسٹیون سودربرگ کی تیار کردہ اس فلم کے تذکرہ نے بھونچال مچا دیا ہے کیونکہ دنیا جن حالات کا سامنا کر رہی ہے وہ حالات اس فلم میں دکھائے جاچکے ہیں اور فلم کی تشہیر کے ساتھ ہی آن لائن جن پلیٹ فارمس پر یہ فلم موجود تھی اسے ہٹا دیا گیا ہے کیونکہ انتہائی وحشت ناک حالات اس فلم میں دکھائے گئے ہیں اور فلم کے کلائمکس میں ٹیکہ کی تیاری اور بیماری کی وجہ بھی بتائی گئی ہے ۔ فلم کے مطابق اس بیماری کا آغاز چمگادڑ کے کھائے ہوئے کسی شئے کو خنزیر کے استعمال کرلینے اور اس خنزیر کو کاٹنے والے قصائی کے ایک خاتون سے ہاتھ ملانے کی وجہ سے یہ مرض پھیلا اور مسافرین کے ذریعہ کئی ممالک تک رسائی حاصل کرگیا۔ دنیاکورونا وائرس کوسال2019میں جان پائی ہے جبکہ فلم

Contagian میںیہ منظر 2011سے قبل فلمائے جاچکے ہیںاس کے علاوہ فلم کی کہانی
Scott Z.Burns
نے اس سے بھی پہلی تحریر کی ہے اور ان کا دعوی ہے کہ وہ وبائی امراض Sars
وائرس سے تحریک حاصل کرتے ہوئے اس کہانی کو تیار کئے ہیں لیکن ا س کے باوجود کوروناوائرس کے منظر عام پر آنے کے بعد اس فلم کو کافی تشہیر حاصل ہورہی تھی اس فلم میںخوف کے حالات میں عوامی خریداری اور از خود مکانوں میں قید ہوجانے کے عمل کو بھی فلمایا گیا ہے جس کے سبب یہ کہا جار ہاہے کہ برسوں قبل ان حالات کا قیاس کس طرح کیا گیا ہے اور فلمساز نے ایسی فلم کیسے تیار کرلی حالات 10سال بعد پیدا ہونے والے ہیں!اس فلم کو کوروناوائرس کی دہشت کو دیکھتے ہوئے بند تو کردیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس فلم کے چرچے ہورہے ہیں جو کہ عوام میں مزید حوف و دہشت کا سبب بنتے جا رہے ہیں۔

The Eyes of Darkness

امریکی مصنف
Dean Koontz
کی ناول
The Eyes of Darkness
نے بھی کورنا وائرس کے منظر عام پر آنے کے بعد عوامی توجہ حاصل کرنی شروع کردی ہے جو کہ 1981 میں شائع ہوئی تھی۔ اس ناول میںمصنف نے قیاس پر مبنی کہانی میں Wuhan-400 وائرس کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے بائیو کیمیکل ہتھیار قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ چین کے شہر ووہان میں تیار کردہ ایک وائرس ہے جو کہ 100 فیصد مہلک ہے۔ کورونا وائرس کے منظر عام پر آنے کے بعداس کتاب کا بھی چرچہ زور و شور سے ہونے لگا اور کہا جانے لگا کہ مصنف نے 40 سال قبل کس طرح سے اس وائرس کے متعلق اپنی ناول میں تحریر کیا جو کہ 40سال بعد منظر عام پر آیا ہے !مصنفین اور کئی گوشوں سے ان کے اس قیاس کو محض قیاس قرار دیا جارہا ہے لیکن کچھ گوشوں نے اس بات کو تسلیم بھی کرنا شروع کردیا ہے کہ مصنف نے محض قیاس کی بنیاد پر نہیں بلکہ اطلاع کی بنیاد پر اسے افسانہ کا حصہ بنایا ہے ۔
End of Days
امریکی مصنفہ سائیلویا براؤن کی کتاب
End of Days
میں بھی اسی طرح کی پیش قیاسی کی گئی تھی اور یہ دعوی کیا گیا تھا کہ سال 2020میں ایک ایسا وبائی مرض پھیلے گا جو کہ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے انسانی جانوں کے اتلاف کا سبب بنے گا۔دنیا کے خاتمہ پر کی گئی پیش قیاسیوں پر مبنی اس کتاب میں مصنفہ نے دعوی کیا ہے کہ سال 2020 میں عارضہ تنفس سے متعلق ایک وباء پھیلے گی جو دنیابھر میں پھیلتی چلی جائے گی اور اس وباء کے دوران انسانوں کے پھپھڑے متاثر ہوں گے اور انہیں سانس لینے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کے دعوے کے مطابق یہ وباء تیزی کے ساتھ پھیلے گی اور اچانک غائب ہوجائے گی لیکن 10 سال بعددوبارہ یہ وباء نظر آنے لگے گی۔ ان کی اس کتاب میں انہوں نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ اس وبائی مرض پر دنیا میں موجود کوئی دوا جو وبائی امراض پر قابو پانے کے لئے تیار کی گئی ہے اثر انداز نہیں ہوگااور موجودہ کورونا وائرس کی صورتحال بھی ایسی ہی کچھ ہے کیونکہ اس مرض کی صورت میں پھیپڑے متاثر ہونے کے علاوہ سانس لینے میں دشواریوں کی بھی شکایات منظر عام پر آرہی ہیں۔

وبائی امراض کی تاریخ
1918 میں شروع ہوئے ہسپانوی بخار سے اگر وبائی امراض کی تاریخ کا مشاہدہ کیا جائے تو کورنا وائرس کے منظر عام پر آنے تک 5 ایسے مرض ہیں جنہیں عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے مہلک اور وبائی قرار دیا ہے ۔ ہسپانوی بخار جو کہ جنوری1918سے شروع ہوا تھا وہ ڈسمبر 1920تک جاری رہا اس وبائی بخار سے دنیابھرمیں5کروڑ اموات واقع ہوئی ہیں۔ اسی طرح 1957-58 کے دوران H2N2کو وبائی مرض قرارد یا گیا جس کی مماثلت روسی بخارسے کی گئی تھی اس وبائی مرض میں 20 لاکھ افراد دنیا بھر میں فوت ہوئے تھے اور امریکہ میں 70ہزار افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔1968-69 میں ہانک کانگ فلو کو وبائی مرض قرار دیا گیا تھا جس میں دنیا بھر میں 10لاکھ افراد فوت ہوئے تھے ۔اس فلو کے بعد دنیا میں سوائن فلو نے 2009 سے دہشت مچانی شروع کی تھی اور اس کی دوا تیار ہونے تک سوائن فلو سے فوت ہونے والوں کی تعداد 5لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی۔دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد 2.5لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور ابتدائی ایک لاکھ تک متاثرین کی تعداد پہنچنے تک اس مرض کو 97 دن لگے اور 1لاکھ سے 2لاکھ ہونے کے لئے کورونا وائرس کومحض 12یوم لگے ہیں اس سے اس مرض کے پھیلنے کی رفتار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ 1918 سے2020کے دوران Ebola‘Zika Virus جیسے وبائی امراض بھی منظر عام پر آئے تھے لیکن ان پر قابو پالیا گیا۔

کورونا وائرس !
کورونا وائرس دنیا میں معاشی ‘ سیاسی ‘ سماجی بحران کا سبب بنتا جا رہا ہے اور نت نئی تبدیلیوں کے باعث عوام میں پھیلنے والے خوف نے عوام کو اس وباء پر مذاکرات کے لئے مجبور کردیا ہے لیکن فطرت انسانی کے عین بر خلاف عوام اپنی احتیاط کے معاملہ میں اب بھی سنجیدہ نظر نہیں آرہے ہیں جبکہ اس وبائی مرض کے پھیلنے کی رفتار کافی تیز ہے۔وبائی امراض کے سلسلہ میں دینی تعلیمات بھی واضح ہیںاور صحیح البخاری میں حدیث نمبر5729 میں حضرت عمرؓ کے سفر شام کا تفصیلی واقعہ موجود ہے۔’’ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو اماممالک نے خبر دی ، انہیں ابن شہاب نے ، انہیں عبدالحمید بن عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب نے، انہیں عبداللہ بن عبداللہ بن حارث بن نوفل نے اور انہیں حضرت ابن عباس رضی للہ عنہما نے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ شام تشریف لے جا رہے تھے جب آپ مقام سرغ پر پہنچے تو آپ کی ملاقات فوجوں کے امراء حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓ اور آپ کے ساتھیوں سے ہوئی۔ ان لوگوں نے امیرالمؤمنین کو بتایا کہ طاعون کی وباء ملک شام میں پھوٹ پڑی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ اس پر حضرت عمر ؓ نے کہا کہ میرے پاس مہاجرین اولین کو بلا لاؤ۔ آپ انہیں بلا لائے تو حضرت عمرؓ نے ان سے مشورہ کیا اور انہیں بتایا کہ شام میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے ، مہاجرین اولین کی رائیں مختلف ہو گئیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی باقی ماندہ جماعت آپ کے ساتھ ہے اور یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ انہیں اس وبا ء میں ڈال دیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ اچھا اب آپ لوگ تشریف لے جائیں پھر فرمایا کہ انصار کو بلاؤ۔ میں انصار کو بلا لایا آپ نے ان سے بھی مشورہ کیا اور انہوں نے بھی مہاجرین کی طرح اختلاف کیا کوئی کہنے لگا چلو ، کوئی کہنے لگا لوٹ جاؤ۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ اب آپ لوگ بھی تشریف لے جائیں پھر فرمایا کہ یہاں پر جو قریش کے بڑے بوڑھے ہیں جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کر کے مدینہ آئے تھے انہیں بلا لاؤ ، میں انہیں بلا کر لایا۔ ان لوگوں میں کوئی اختلاف رائے پیدا نہیں ہوا سب نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ چلیں اور وبائی ملک میں لوگوں کو نہ لے کر جائیں۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر ؓ نے لوگوں میں اعلان کروا دیا کہ میں صبح اونٹ پر سوار ہو کر واپس مدینہ منورہ لوٹ جاؤں گا تم لوگ بھی واپس چلو۔ صبح کو ایسا ہی ہوا حضرت ابوعبیدہ ابن جراحؓ نے کہا کیا اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کیا جائے گا۔ حضرت عمرؓ نے کہا کاش ! یہ بات کسی اورنے کہی ہوتی ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کر رہے ہیں لیکن اللہ ہی کی تقدیر کی طرف۔ کیا تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم انہیں لے کر کسی ایسی وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں ایک سرسبز شاداب اور دوسرا خشک۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اگر تم سرسبز کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہو گا۔ اور خشک کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہی ہوگا۔ بیان کیا کہ پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ آ گئے وہ اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس وقت موجود نہیں تھے انہوں نے بتایا کہ میرے پاس مسئلہ سے متعلق ایک ’’ علم ‘‘ ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ ؐنے فرمایا کہ جب تم کسی سرزمین میں ( وبا ء کے متعلق ) سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب ایسی جگہ وباء آ جائے جہاں تم خود موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ راوی نے بیان کیا کہ اس پر عمرؓ نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور پھر واپس ہو گئے۔‘‘
اس حدیث نے وباء کی طرف جانے سے واضح طور پر منع کردیا ہے اور اس کے علاوہ کورونا وائرس سے بچنے کی احتیاطی تدابیر میں جو کہا جا رہاہے کہ منہ اور ناک کے علاوہ ہاتھ باربار دھوتے رہیں تو اس سلسلہ میں بھی اسلام کی واضح تعلیمات موجود ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ ’’ پاکی آدھا ایمان ہے‘‘اگر صفائی اور نفاست اختیار کرتے ہوئے وباء میں مبتلاء مقامات سے گریز کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس وبائی مرض سے ہم جلد نجات حاصل کرسکتے ہیں۔اسی لئے ابتداء میں یہ عرض کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس لیاب میں تیار کردہ وباء ہے یا آفت سماوی ہے اس پر بحث کرنے کے بجائے اس سے بچنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وباء سے نجات کے بعد اس پر تحقیقی مقالہ شائع کئے جاسکتے ہیں ۔
@infomubashir