کورونا وائرس کے بارے میں معلومات کا فقدان

   

کرن تھاپر
صحافیوں سے اکثر سوالات کئے جاتے ہیں جو درحقیقت اس غلط فہمی کا نتیجہ ہیں کہ وہ ہر چیز جانتے ہیں لیکن ہم نہیں جانتے کہ ہمیں جو معلومات معمولی سی کوشش سے حاصل ہوتی ہیں عام طور پر درست نہیں ہوتیں۔ اس لئے ہمیں اپنی ملازمت سنبھالنے کے لئے معلومات ضروری ہوتی ہیں لیکن ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مختلف معاملہ ہے، چنانچہ جب مجھ سے سوال کیا گیا کہ کورونا وائرس کے مرض پر ہندوستان کے ردعمل میں کونسی کمزوری تھی تو میں کافی مشکل میں پڑ گیا۔
اس سوال کے کئی جواب ہیں۔ لاک ڈاون سے دستبرداری حالانکہ اس کی کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ دیگر ریاستوں کے مزدور جو واپس اپنے وطن جارہے ہیں ان کی مصیبتوں کو دور کرنے میں حکومت کا تیز رفتار کارروائی کرنے سے اور اطمینان بخش کارروائی سے قاصر رہنا ایک اور کمزوری تھی۔ سماجی فاصلے کی برقراری اور بار بار ہاتھ دھونے سے پیدا ہونے والی الجھن کیونکہ بار بار ہاتھ دھونا عملی اعتبار سے جھونپڑ پٹی میں مقیم کئی افراد کے لئے ناممکن ہے اور غریب بستیوں میں رہنے والے افراد کی تعداد جملہ آبادی کا ایک تہائی حصہ ہے۔ تاہم اسے اہم نہیں سمجھا جاتا اور اس پر مستحقہ توجہ بھی مرکوز نہیں کی جاتی۔
میں ان اطلاعات کا تذکرہ کررہا ہوں جو پریس کانفرنسوں میں فراہم کی جاتی ہیں اور یہ پریس کانفرنسیں تقریباً روزانہ ہوتی ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اعداد و شمار پر زور دیا جاتا ہے تاکہ اطمینان دلایا جاسکے، آرام پہنچایا جاسکے اور نئے تیقنات دیئے جاسکیں۔ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ اگر ذرائع ابلاغ ان سے سوال کریں تو انہیں انکشاف کرنا پڑتا ہے کہ یہ پریس کانفرنسیں بے معنی ہیں۔
مثال کے طور پر اس بات پر بہت زیادہ زور دیا جارہا ہے کہ صحتیاب ہونے والے افراد کی شرح میں بہتری آئی ہے اور یہ 48 فیصد ہوچکی ہے لیکن 33,774 افراد اٹلی میں فوت ہوئے جبکہ 70 فیصد صحتیاب ہوئے تھے۔ اسپین میں 27,134 اموات واقع ہوئیں جو درحقیقت 69 فیصد ہیں۔ اس طرح صحتیاب ہونے والوں کی شرح واضح طور پر مبالغہ آرائی کے ساتھ بتائی جارہی ہے۔ کیا اسے اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ کثیر تعداد میں اموات پریشان کن ہیں یا نہیں؟ اس طرح صحتیابی کی شرح ہمیں کیسے آرام دے سکتی ہے کیونکہ اموات کی شرح ٹھوس ہے۔ اسی طرح اموات کی تعداد میں بھی ٹھوس تبدیلی کی جاسکتی ہے لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے ہمیں اطمینان کیسے ہوگا۔

غالباً سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان کے اعداد و شمار کے لحاظ سے اموات کی شرح 2.83 فیصد سے کم ہے، جبکہ سرفہرست 20 ممالک میں سے ہندوستان اموات کی شرح کے اعتبار سے 8 ویں مقام پر ہے۔ 100 ممالک کی ایک فہرست تیار کی گئی ہے۔ عالمی اوسط 6.19 فیصد ہے۔ اس طرح حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے اعداد و شمار پیش کرنے والے ایل اے وی اگروال نے کبھی اس کا تذکرہ نہیں کیا۔ حکومت اس کا اعتراف کرتی ہے لیکن اس کے بارے میں کسی صحافی نے کوئی سوال نہیں کیا۔ غالباً یہ اعداد و شمار اور وزیر صحت یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وائرس کی وباء ہندوستان میں زیادہ نہیں پھیلی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ مجھے اس کی امید تھی لیکن وزیر صحت سے اس سلسلہ میں کئی سوالات نہیں کئے گئے ہر وبائی امراض کے ماہر نے اس موقع پر یہ کہا کہ وہ وزیر صحت کے بیان کی سچائی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتے۔
20 مئی کو اگروال نے سب سے پہلے ہندوستان کا تقابل ان 15 ممالک سے کیا جو کورونا وائرس کی وباء سے بدترین متاثرہ ممالک تھے اور اس کی بنیاد آبادی پر تھی اجتماعی اعتبار سے ہمارا ملک بھی تقریباً گنجان آبادی رکھتا ہے۔ اگروال نے نشاندہی کی کہ بدترین متاثرہ ممالک میں وباء سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 34 گنا ہے اور اموات کی تعداد 83 گنا ہے۔ بعد ازاں انہوں نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اعداد و شمار اور معلومات ہمیں فراہم کی گئی ہیں۔ چنانچہ 2 جون کے مقابلہ میں صورتحال کی بہتری اطمینان بخش ہے۔ دوبارہ پریس کانفرنس میں انہوں نے یہی اعداد و شمار بتائے۔

ڈاکٹر مولی ال نے کہا کہ یہ بات کوئی مطلب نہیں رکھتی کہ ہم ہندوستان کا تقابل دیگر ممالک سے کریں۔ ڈاکٹر جیکب جان نے کہا کہ یہ ممالک آبادی کے اعتبار سے سب سے کم متاثرہ ممالک ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر تقابل کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان بدترین حالت میں ہے لیکن 15 بدترین متاثرہ ممالک میں ہندوستان بہتر نظر آتا ہے۔

اتفاق کی بات یہ ہے کہ حکومت نے اپنی پریس کانفرنسوں میں اس بہتری کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ سرکاری عہدہ داروں کی بہ نسبت سینئر وزراء نے پریس کانفرنسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری عہدہ داروں کو ان سوالات کا سامنا کرنا چاہئے تھا لیکن وہ سوالات کے درست جواب دیتے جس سے لوگ پریشان ہو جاتے۔ اگر وال نے اعداد و شمار کو عملی اعتبار سے درست قرار دیا۔ تاہم کہا کہ ان پر یقین کرنا مشکل ہے اور اکثر سمجھنے میں غلطی ہو جاتی ہے۔ سب سے اچھا اصول یہ ہے کہ ہماری فراہم کردہ معلومات کو اہمیت دی جائے۔
وزیر اعظم یہ بات جانتے ہیں ایسا اس لئے ہے کہ وہ اپنی معلومات مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پریس کانفرنس میں یا تو اس بات سے ناواقف ہیں یا پھر اسے نظرانداز کررہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے اس بحران سے نمٹنے کے سب سے کمزور پہلو میں ناکامی بھی شامل ہے۔