کورونا کا علاج ادویات سے نہیں مذہبی افیون سے

   

روش کمار
آپ سے یہ درخواست کی گئی کہ آپ اپنا خیال رکھیں۔ اس مرتبہ بھی کورونا کی وبا بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے لاکھوں لوگوں کو اپنی گرفت میں لے رہی ہے۔ ان حالات میں یہی بہتر ہوگا کہ آپ اپنی سطح پر جانوں کی بقاء کے لئے مقرر کردہ اصول و ضوابط کے بارے میں سنجیدہ رویہ اختیار کریں اور ان اصولوں کو اپناکر کورونا وائرس کی وباء کا شکار ہونے سے محفوظ ہیں اور وہاں فیس ماسک استعمال کرنے سے نہ شرمائیں اسے مناسب انداز میں پہن رکھیں۔ پر ہجوم مقامات میں جانے سے گریز کریں۔ اگر آپ کو سردی اور کھانسی ہوتو برائے مہربانی گھر سے باہر جانے اور ارکان خاندان میں گھل مل جانے کی حماقت نہ کریں۔ شادی بیاہ اور دوسری کسی تقریب میں شرکت نہ کریں۔ اگر آپ اس طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کریں گے تو پھر آپ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوگا جو اپنی ناسمجھی کے باعث معاشرہ بالخصوص اپنے ہی خاندانوں میں کورونا وائرس وباء پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ خاص طور پر تقاریب کے موقع پر احتیاط برتیں ورنہ اس کا خمیازہ کسی نہ کسی شکل میں آپ کو بھگتنا پڑے گا۔
یاد رکھئے کورونا وائرس پر قابو پانے یا اس مہلک وائرس کی زد میں آنے سے بچاؤ کے لئے جو رہنمایانہ خطوط بنائے گئے ہیں ان میں فیس ماسک کا استعمال، سماجی فاصلے کے اصول پر عمل اور بار بار ہاتھ دھونا شامل ہیں تو پھر اس سلسلہ میں آپ لوگوں میں شعور بیدار کرسکتے ہیں۔ انہیں رہنمایانہ خطوط و اصول اپنانے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ غلطیوں اور مجرمانہ غفلت پر انہیں (لوگوں) کو ٹوک سکتے ہیں۔
اس طرح کے عمل کو اپنی عادت بنالیجئے کیونکہ ہمیں کورونا وائرس سے ایک طویل مدت تک مقابلہ کرنا ہے۔ آپ کو بتادوں کہ بے شمار لوگ میرے قریب بھی آتے ہیں اور سیلفی لینے کے نام پر ماسک نکال لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ کورونا وائرس گھات لگانے کے لئے چوکس بیٹھا ہے۔ ایسے میں برائے مہربانی اپنے دوست احباب کے ساتھ بھی تصاویر لیتے وقت فیس ماسک ہرگز نہ نکالیں۔
اس قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے نہ صرف آپ خود کو کورونا کے اثرات سے محفوظ رکھ پائیں گے بلکہ اسپتالوں پر پڑنے والے بوجھ اور اس میں ہونے والے اضافہ کو بھی روکنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ اب تو حال یہ ہوگیا ہیکہ مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کے معاملہ میں بدنام حکومت نے رام پر بھروسہ کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ اس ایک سال میں نظام صحت کو بہتر بنانے کے نام پر کئی چالیں چلی گئیں۔ میں تمام حکومتوں کی بات کررہاہوں صرف مودی حکومت کی نہیں۔
ہاں یہ بھی حقیقت ہیکہ کہیں کچھ اچھا کام بھی ہوا لیکن بحیثیت مجموعی نظام صحت کو بہتر سے بہتر بنانے کا موقع ہمارے ملک نے کھودیا۔ یہ بھی سچ ہیکہ انشورنس یا بیمہ کے نام پر عوام کو بیوقوف بنانا بالکل آسان ہے۔ ایک سادہ سا سوال ہے جب کوئی اسپتال نہیں بیڈ نہیں تو پھر آپ انشورنس کا کیا کرو گے؟ کورونا کے اس دور میں اسپتال، مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں اور ان میں بہت زیادہ ہجوم دیکھا جارہا ہے۔ آج حال یہ ہوگیا کہ سارا دن بیماروں کو فون کالس کرتے ہوئے ، ان کی خیریت دریافت کرتے ہوئے گزر رہا ہے۔ اس وباء پر قابو پانے کیلئے لاکھ جتن کئے جارہے ہیں لیکن کہیں بھی کسی کو بھی کامیابی نہیں مل رہی ہے۔ دوسری طرف ادویات کی قلت پائی جاتی ہے۔ اگرچہ حکومت یہ دعوے کررہی ہے کہ ادویات کی کوئی قلت نہیں ہے، اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ زندگی بچانے والی ادویات کی قلت دیکھی جارہی ہے اور عام آدمی کورونا کرفیو اور ٹیکہ اُتسو جیسی چالوں کی قیمت ادا کررہا ہے۔ اس بات کی اطلاعات ہیں کہ کورونا ویکسین کی بھی قلت پیدا ہوگئی ہے اور ہر طرف لوگ مر رہے ہیں۔ کہیں پر بھی کوئی حرکت نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا معاشرہ بے حس ہوگیا ہے؟ یہ بھی ایک سوال ہے کہ ادویات کی قلت کیوں پیدا ہوئی؟ دوسری ادویات کے بارے میں بھی یہی سننا میں آرہا ہے کہ ان کی بھی قلت پائی جاتی ہے۔ کسی بھی مہذب سماج میں اس قسم کی اطلاعات پر بے چینی کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔ ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں تو معاشرہ میں ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں ادویات نہیں بلکہ مذہبی افیون کام کررہی ہے۔ مثال کے طور پر کورونا وائرس کی تباہیوں و بربادیوں کے بارے میں جو خبریں آرہی ہیں، اسے دیکھ کر ہم نہیں سمجھتے کہ اب بھی حکومت نے خطرے کا بٹن نہیں دبایا۔
ہمارے ڈاکٹرس پر فی الوقت بہت دباؤ ہے۔ کورونا کی ٹیکہ اندازی مہم کے باعث گزشتہ کی بہ نسبت اس مرتبہ جوکھم کم نظر آتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک تشویش کی بات ہے کہ بعض ڈاکٹرس بھی ویکسین لینے کے باوجود کورونا سے متاثر ہوئے ہیں، لیکن وہ سنگین صورتحال کا سامنا نہیں کررہے ہیں۔ اس کے بعد بھی ڈاکٹرس دن رات کام کررہے ہیں، وہ بھی تو انسان ہیں۔ وہ بھی تھک جاتے ہیں اور دماغ کام کرنا بند کردیتا ہے۔ جہاں تک ڈاکٹروں کا سوال ہے، کورونا پر قابو پانے کیلئے ان لوگوں نے دن رات محنت کی اور جب پہلے مرحلے میں کورونا تھم سا گیا تب ڈاکٹروں کو اپنی تنخواہیں حاصل کرنے کیلئے سڑکوں پر آنا پڑا۔ شاید وہ کورونا کے ماحول میں کام کرنے کا صلہ تھا۔
ایک سال بعد پھر ایسا لگتا ہے کہ ہم اسی موڑ پر پہنچ گئے ہیں۔ اسپتالوں کے باہر مریضوں کا ہجوم ہے جبکہ علاج پر آنے والے مصارف بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔ مذہبی افیون کے عادی اس سیاسی معاشرہ کا ایک حصہ بنا رہنا مشکل ہے۔ اس لئے آپ کو خود اپنا خیال رکھنا چاہئے اور یہ دعا کرنی چاہئے کہ تمام لوگ محفوظ رہیں اور جو ہسپتال گئے ہیں، وہ بحفاظت واپس آئیں۔ کئی لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ امیت شاہ آخر فیس ماسک کیوں نہیں پہنتے۔ کولکتہ میں منعقدہ ریالی کے دوران امیت شاہ ماسک پہنے ہوئے تھے۔ کم از کم وزیر داخلہ کو کورونا پروٹوکول کی پابندی کرنی چاہئے، تبھی وہ دوسروں کو یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ فیس ماسک کا استعمال کیجئے۔ اکثر سیاست دانوں کو انتخابی جلسوں کے دوران فیس ماسک کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ یاد رکھئے! لاک آؤٹ سے کچھ بھی تباہ نہیں ہوگا۔ حکومت تو چھوڑیئے، سیاسی جماعتوں کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں۔ ان انتخابات میں آپ کو خبروں کی تحقیق کرنی چاہئے۔ ہر ریاست میں پیسہ پانی کی طرح بہے گا۔ ویسے بھی سارے ملک نے دیکھا کہ پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے لیکن افسوس! ایک عام ہندوستانی دوا خریدنے کا متحمل نہیں بلکہ اسے زندہ رہنے کیلئے ادویات کے بدلے مذہب کا فخر دیا جائے گا اور وہ اسی میں خوش ہوگا۔