کورونا کی واپسی غلطیوں کے اعادہ سے گریز ضروری

   

برکھا دت
کووڈ۔ 19 کیسیس میں اچانک اضافہ سے ہندوستان کی فضاء میں گزشتہ سال کی طرح کا خوف پایا جاتا ہے۔ لوگوں میں کورونا وائرس وباء کی تازہ لہر کو لے کر دہشت پائی جاتی ہے۔ اس بات کا بھی خطرہ لاحق ہے کہ ہم گزشتہ سال کی غلطیوں کا ارتکاب کرسکتے ہیں۔ جیسے کہ مغربی دنیا کررہی ہے۔ یعنی مغربی دنیا نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ سبق نہیں سیکھا۔ کم از کم ہمیں چاہئے کہ ماضی کی غلطی سے سبق حاصل کرتے ہوئے موجودہ حالات میں کورونا سے بچنے موثر اقدامات کریں۔ سب سے غلط قدم یہ ہوگا کہ ہم دوبارہ لاک ڈاؤن کی طرف جائیں۔ ویسے بھی ہمیں یہی محسوس ہورہا ہے کہ لاک ڈاؤن کی طرف ڈھکیلا جارہا ہے اور اسی سوچ و فکر میں غرق کیا جارہا ہے۔ جس وقت ساری دنیا میں کورونا وائرس کی وباء پھوٹ پڑی تھی، ہندوستان اس کی شدید گرفت میں آچکا تھا۔ حکومت نے قومی سطح پر لاک ڈاؤن نافذ کردیا تھا جس کے بھیانک نتائج برآمد ہوئے۔ کورونا کی وباء کے دوران سال بھر میں نے ملک بھر کا دورہ کیا۔ مختلف علاقوں میں حالات کا جائزہ لیا اور اس سلسلے میں رپورٹنگ کی۔ جس سے ایک بات میری سمجھ میں آئی کہ ہاؤزنگ سوسائٹیز، بستیوں، محلہ جات، اسکولس، دیگر تعلیمی ادارے، شہروں اور بلاآخر سرحدوں کو غیرمعینہ مدت کیلئے بند کرنا بہت مہنگا ثابت ہوا۔ یہ ایسا اقدام تھا جس نے معیشت کو بہت زیادہ تباہ کیا۔ غریب شہریوں کو سزا دی اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے کسی پائیدار حل کی پیشکش نہیں کی۔ موجودہ حالات میں یہی کہا جاسکتا ہے جیسے آپ بھوکے رہ کر بھی خود کو فٹ رکھ سکتے ہیں بجائے اس کے متوازن غذائی پرہیز کریں۔ اس سے آپ کا جسمانی وزن کچھ کم ہوسکتا ہے۔ بہرحال کورونا وائرس پر قابو پانے کیلئے فی الوقت لاک ڈاؤن کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ٹیکے دینے اور ٹیکہ اندازی مہم کو خاص طور پر کورونا سے بہت زیادہ متاثر ریاستوں اور شہروں میں تیزی سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ لاک ڈاؤن ہونا چاہئے یا نہیں یہ ایک اہم سوال ہے اور ایسا سوال جو ہمارے نگہداشت صحت سے متعلق نظام کی قلعی کھول کر رکھ دیتا ہے۔ 2020ء میں قومی سطح پر جو لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا، اس کا اولین مقصد کھیل کود کے میدانوں یعنی اسٹیڈیمس اور وسیع و عریض مقامات کو عارضی اسپتالوں میں تبدیل کرنا تھا اور ساتھ ہی کورونا کے خلاف ہراول دستہ میں شامل ارکان عملہ کو متحرک کرنا تھا، یہاں تک کہ آکسیجن کی بھی خریدی اس کا مقصد تھا۔ پولیس نے اس وقت غیرمعمولی حرکت میں آتے ہوئے لوگوں پر جرمانے عائد کرنے شروع کردیئے تھے۔ پچھلا سال بہت مشکل سے گزرا۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ کافی متاثر ہوئے۔ سب سے زیادہ تو سماج کا غریب طبقہ متاثر ہوا۔ ایک سال گذر چکا اور ہم نے وائرس کے خلاف جو کچھ بھی کیا، اس سے کہیں زیادہ جانتے ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمیں خوف و دہشت کے مارے اسپتال کی جانب نہیں دوڑنا چاہئے۔ اگر پلس آکسیمیٹر ہمارے حق میں اعداد و شمار دکھاتا ہے تو ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں آکسیجن کی ضرورت ہے، وینٹیلیٹرس کی نہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تمام تھیراپیوٹک میڈیسن دراصل آزمائش یا تجربہ کیلئے ہے اور ان میں خامیاں پائی جاتی ہیں ،ہمیں پیراسٹمال کی اہمیت کا اندازہ بھی ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں اور جاننا بھی چاہئے کہ کورونا وائرس کا ٹسٹ اگر پازیٹیو آئے تب ہمیں اس بارے میں کسی کو نہیں بتانا چاہئے۔ جیسے یہ ہماری زندگی کا خاتمہ ہے۔ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران لوگ ٹسٹ مثبت آنے پر بہت پریشان ہوگئے تھے اور اس تعلق سے کسی کو بتانے سے بھی ڈر رہے تھے۔ حالانکہ کورونا وائرس کی وباء میں شدت کے باوجود روبہ صحت ہونے والوں کی شرح 95% کے قریب ہے۔ جہاں تک 2020-21ء کے درمیان انتہائی ڈرامائی فرق کا سوال ہے، وہ یہ ہے کہ اب نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں انسداد کورونا کے ٹیکے دستیاب ہیں اور ٹیکہ اندازی مہم پر ہماری فوری توجہ ہونی چاہئے، نہ کے دوسری چیزوں پر۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ یومیہ کتنے لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ ہاں متاثرین اور روبہ صحت ہونے والوں کا جو ڈیٹا ہے، وہ ہمیں مثبت سمت کی جانب لے جانا چاہئے۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ ملک میں کورونا وائرس کے جو جملہ کیسیس ہیں، ان میں سے 85% کیسیس صرف آٹھ ریاستوں میں پائے جاتے ہیں اور ان آٹھ ریاستوں میں سے مہاراشٹرا ایسی ریاست ہے جہاں متاثرین کی تعداد 60% سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ یہ ایک طرح سے شدید متاثرہ منطقوں میں سے سب سے شدید منطقہ ہے جہاں تمام بالغ مرد و خواتین کو ٹیکے دینے کی ضرورت ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ٹیکہ اندازی کو صرف متاثرہ علاقوں تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہئے بلکہ سارے ملک میں اس پر عمل آوری کی جانی چاہئے۔ ویسے بھی بعض ریاستوں کو دوسری ریاستوں کی بہ نسبت زیادہ ٹیکوں کی ضرورت ہے اور بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم ویکسین مائتری پروگرام کو روکنے یا نہ روکنے پر بحث کرتے ہوئے وقت ضائع کررہے ہیں۔ درحقیقت ہم ٹیکوں کی تیاری کی گنجائش سے بہت کم لوگوں کو ٹیکے دے رہے ہیں۔ قومی سطح پر زائد از 6% ٹیکے ضائع ہورہے ہیں۔ کیا یہ مجرمانہ حرکت نہیں؟ ہاں یہ ایک مجرمانہ حرکت ہے۔ جبکہ ویکسین کو لازمی قرار دینے کیلئے دو نکات ہوسکتے ہیں۔ لوگوں میں زیادہ سے زیادہ شعور بیدار کرنے کیلئے ٹیکے کو معاشی اور سماجی سرگرمیوں سے مربوط کرنا ہوگا، چاہے وہ سفر ہو یا پھر پرہجوم مقامات پر کھانے پینے کی بات ہو۔ اسی طرح فلم وغیرہ دیکھنے کا عمل۔ ان تمام کو ٹیکہ سے مربوط کردینا چاہئے۔ اس طرح جب لوگ اس حقیقت سے واقف ہوجائیں گے کہ اپنی زندگیاں بچانے کیلئے ٹیکہ لینا ہی ایک واحد راستہ ہے تب وہ ٹیکہ لینے لگیں گے اور کمروں میں جو لوگ مباحث میں مصروف ہیں، وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کورونا وائرس کی وباء سے اپنی زندگی بچانے کیلئے ٹیکہ لینا ازحد ضروری ہے۔ ہاں یہ بھی صحیح ہے کہ کچھ ایسے واقعات منظر عام پر آئے جہاں ٹیکہ لینے کے چند دن بعد بھی لوگ کورونا وائرس کی گرفت میں آئے ہیں لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ ٹیکہ سنگین بیماری اور موت کے خلاف شرطیہ تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ان ٹیکوں نے ایک قابل لحاظ آبادی کو کورونا انفیکشن سے بچایا ہے۔ (70 تا 80 فیصد لوگوں کو اور وہ بھی ہندوستان میں) اس طرح ٹیکے نے اس بات کو یقینی بنایا کہ آپ شدید بیمار ہونے سے یہ پھر اسپتال میں بھرتی کئے جانے سے محفوظ رہیں۔ اسی طرح اگر ہم اپنی آبادی کے زیادہ سے زیادہ حصے کو ٹیکے دیں اور خاص طور پر ان شہروں میں جہاں کووڈ۔ 19 نے لوگوں کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے، تب خود بہ خود اسپتال کے نظام پر دباؤ میں کمی آئے گی۔ اس سلسلے میں حکومت اور سرکاری ادارے 10 شدید متاثر ہندوستانی شہروں کو اپنا ہدف بناسکتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں عالمی سطح پر تیار ہونے والے ٹیکوں میں سے 60% ٹیکے تیار کئے جاتے ہیں اور فی الوقت ہمارا ملک عوامی ٹیکہ اندازی پروگرامس کا قائد ہے۔ لیکن روایتی تانا شاہی ذہنیت ایسا لگتا ہے کہ ہمیں آگے بڑھانے کے بجائے پیچھے لے جارہی ہے۔ ہمارا ٹیکہ اندازی پروگرام چنندہ ہونا چاہئے۔ ہم اسے ’’چُن پروگرام‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں جہاں چن چن کر مختلف علاقوں میں ٹیکہ اندازی مہم چلائی جاسکتی ہے۔ کم از کم تین نئے عالمی ٹیکوں کو جن کے ہندوستانی شراکت دار ہیں، ملک میں استعمال کی اجازت دینے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر شاہد جمیل جیسے ممتاز وائرولوجسٹ نے اس بات کی ضرورت پر زور دیا ہے کہ ہمارے ملک میں جانسن اینڈ جانسن، اسپیوٹنک اور نووا ویاکس جیسے ٹیکوں کی راہ میں حائل ریگولیٹری رکاوٹوں کو فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے خیال میں ان ٹیکوں کی موثریت ، اہمیت و افادیت کی شرح یا فیصد پر بحث کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے، کیونکہ یہ ویکسین محفوظ ہیں اور شرح اموات اور سنگین بیماری کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ بہرحال کووڈ 19 کے تعلق سے ہمارے بحث و مباحث، بات چیت اور تبادلہ خیال میں انہیں نکات پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے ناکہ لاک ڈاؤن جیسے نظریات پر ہماری توجہ ہو۔ کیونکہ لاک ڈاؤن اقوام کی صحت کیلئے خطرناک ہیں۔