کولکاتا ریلی: ملک کا مزاج بدل گیا، مودی کی خبر نہیں!

   

ظفر آغا
ابھی جب کہ یہ کالم لکھا جا رہا ہے، اس وقت کولکاتا میں ممتا بنرجی کی جانب سے اپوزیشن پارٹیوں کی ایک منظم ریلی جاری ہے۔ اس ریلی کی دو خاص باتیں ہیں… اول اس میں شرکت کے لیے لاکھوں افراد کا ہجوم اکٹھا ہوا ہے جو مودی مخالف جذبہ سے سرشار ہے، دوم کولکاتا ریلی میں ہندوستان کی کوئی ایسی چھوٹی-بڑی اپوزیشن پارٹی نہیں ہے جو اس میں شرکت نہیں کر رہی۔ محض نریندر مودی کے دو خفیہ حلیف بیجو پٹنایک اور تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤایسے دو لیڈر ہیں جن کی پارٹیاں کولکاتا میں مودی مخالف مورچے میں شرکت نہیں کر رہی ہیں۔ ان دونوں باتوں کے سیاسی معنی کیا ہیں! اگر ایک جملے میں کہا جائے تو کولکاتا ریلی سے واضح ہے کہ نریندر مودی سنہ 2019 میں ہندوستان کے وزیر اعظم دوبارہ بننے والے نہیں ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جب اگلے لوک سبھا انتخابات کے نتائج آئیں گے تو بی جے پی کو ایک ایسی شکست کا سامنا ہوگا کہ جس کا اندازہ پارٹی نے خواب و خیال میں بھی نہیں لگایا ہوگا۔

جی ہاں، نریندر مودی کی کہانی ختم ہو چکی ہے۔ آپ یہ فرمائیں گے کہ خاکسار اس نتیجے پر پہنچنے میں کچھ جلدی کر رہا ہے۔ لیکن میں یہ بات ہوا میں نہیں کہہ رہا ہوں۔ دراصل ہندوستانی سیاست کا مزاج بدل چکا ہے۔ وہ ہندوستان جو سنہ 2014 کے پارلیمانی چناؤ کے وقت نریندر مودی کا عاشق ہو رہا تھا وہی ہندوستان اب نریندر مودی سے پناہ مانگ رہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عام ہندوستانی کا پچھلے ساڑھے چار سالوں کا تجربہ اتنا تلخ رہا ہے کہ اب وہ مودی کو دوبارہ جھیلنے کو تیار نہیں ہے۔ کسان رو رہا ہے، دیہاتوں میں خاک اڑ رہی ہے۔ جتنا خرچ ہو رہا ہے اس سے کہیں کم فصلوں کی قیمت ہے۔ اوپر سے ستم کہ گائیں فصلوں کو کھائے جاتی ہیں۔ دکاندار دکان تو کھولتا ہے لیکن خریدار غائب ہے۔ چھوٹا کاریگر اور کارخانہ دار ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے کیونکہ نوٹ بندی نے تجارت پر تالا لگا دیا۔ نوجوان نوکریوں کے لیے جوتے رگڑ رہا ہے۔ ارے نئی نوکریاں تو چھوڑیے، خود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق محض مرکزی حکومت میں سنہ 2014 سے اب تک 75000 نوکریاں ختم ہو چکی ہیں اور اس کی جگہ نئی تقرری نہیں ہوئی ہے۔

ملک زبردست معاشی بحران کا شکار ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ نریندر مودی پوری طرح ناکام وزیر اعظم ثابت ہوئے ہیں۔ انھوں نے ملک کو سبز باغ تو دکھائے لیکن ان کے پاس حکومت چلانے کی بصیرت قطعاً نہیں تھی۔ مودی ایک آر ایس ایس پرچارک تھے اور وہ سنگھ کی نیکر کے باہر کبھی نہیں نکل سکے۔ سنگھ اپنے پرچارکوں کو دو باتوں کا پاٹھ پڑھاتی ہے۔ اول، مسلم منافرت اور دوئم غریب دشمنی۔ نریندر مودی حکومت انہی دو اصولوں پر ٹکی ہوئی تھی۔ تب ہی تو مٹھی بھر کارپوریٹ گھرانوں کے علاوہ ہندوستان کا باقی طبقہ اس وقت سر پر ہاتھ رکھ کر رو رہا ہے۔ مسلم دشمنی کا یہ عالم ہے کہ آر ایس ایس کے کاندھوں پر سوار مودی حکومت کبھی موب لنچنگ تو کبھی مسلم ناموں والے شہروں کے نام بدلنے کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں جانتی ہے۔ پھر سنگھ کا ہندوتوا ایجنڈا سماجی سطح پر اس قدر تنگ نظر ہے کہ اس میں سوائے اعلیٰ ذاتوں کے کسی اور سماجی گروہ کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔ تب ہی تو دلت، پسماندہ ذاتیں اور مسلم سمیت باقی تمام اقلیتیں اب مودی کے خلاف ووٹ دینے کو تیار بیٹھی ہیں۔

بس یوں سمجھیے کہ ملک میں نریندر مودی کے خلاف ایک سیاسی طوفان کروٹ لے رہا ہے۔ ممتا بنرجی کی کولکاتا ریلی اس طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ ملک کی چھوٹی بڑی تمام اپوزیشن پارٹیاں یوں ہی کولکاتا بریگیڈ پریڈ گراؤنڈ میں جمع نہیں ہو گئیں۔ اتنی پارٹیوں کا ایک جگہ اکٹھا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تمام پارٹیاں اپنے تمام اختلافات بھول کر یہ طے کر چکی ہیں کہ سنہ 2019 میں مل جل کر مودی راج کا خاتمہ کر دیں گے۔ دراصل ان تمام پارٹیوں کے لیڈروں پر عوام کا دباؤ ہے کہ وہ اکٹھا ہوں اور ہر حال میں اگلے لوک سبھا انتخابات میں کسی طرح مودی حکومت کا خاتمہ کریں۔
آپ جب یہ مضمون پڑھ رہے ہوں گے اس وقت تک کولکاتا کی ریلی ختم ہوئے کم از کم چوبیس گھنٹہ گزر چکا ہوگا۔ لیکن کولکاتا پریڈ گراؤنڈ پر ہونے والی ریلی نے دو باتیں طے کر دی ہیں، اولاً ہندوستان نریندر مودی سے نجات مانگ رہا ہے، دوئم ملک کی چھوٹی بڑی اپوزیشن پارٹیاں سنہ 2019 کا لوک سبھا انتخاب آپس میں مل جل کر ہی لڑیں گی۔ یہ ممکن ہے کہ کچھ صوبوں مثلاً اتر پردیش میں اپوزیشن پارٹیوں کے دو گروہ ہوں لیکن ان جگہوں پر بھی آپس میں ایک ان کہی مفاہمت ہوگی کیونکہ ہندوستان کی عوام اور ملک کی تمام اپوزیشن پارٹیوں کا اب ’وَن پوائنٹ ایجنڈا‘ مودی ہٹاؤ بن چکا ہے اور جو اس لہر کے ساتھ نہیں ہوگا وہ سنہ 2019 کے انتخابی طوفان میں ایسے ہی غرق ہو جائے گا جیسے کہ نریندر مودی اور ان کی پارٹی غرق ہونے جا رہی ہے۔