کولکتہ ریلی ‘ بی جے پی متفکر

   

گرد اڑتی پھرتی ہے دوش پر ہواؤں کے
تھم گئی جو آندھی تو خاک پر ہی سوتی ہے
کولکتہ ریلی ‘ بی جے پی متفکر
کولکتہ میں ترنمول کانگریس کی جانب سے اپوزیشن اتحاد اور طاقت کے مظاہرہ کیلئے ایک زبردست ریلی کے ذریعہ بی جے پی کے خلاف اعلان جنگ کردیا گیا ہے ۔ اس ریلی نے اپوزیشن کی صفوں میں ایک شاذ و نادر نظر آنے والے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے اور چند دنوں کے اندر بی جے پی کیلئے یہ دوسرا بڑا جھٹکا کہا جا رہا ہے ۔ ایک ہفتے قبل ہی اترپردیش میں دو کٹر حریف سمجھی جانے والی جماعتوں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے کچھ دوسری علاقائی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے بی جے پی کے خیمے میں پریشانی کی لہر دوڑا دی تھی اور اب ترنمول کانگریس نے ایک زبردست ریلی منعقد کرتے ہوئے اپوزیشن کے متحد ہونے کا ملک کے عوام کو پیغام دینے کی کوشش کی ہے ۔ جن جماعتوں کے تعلق سے کل تک بھی یہ واضح نہیں تھا کہ وہ آئندہ انتخابات میں کس کے ساتھ ہونگی ان جماعتوں نے بھی کولکتہ کی ریلی میں شرکت کرتے ہوئے بی جے پی کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے ۔ اترپردیش میں ایس پی ۔ بی ایس پی اتحاد کے بعد کہا جا رہا تھا کہ بی جے پی اجیت سنگھ کی راشٹریہ لوک دل سے قربت بڑھانے کی کوشش کررہی ہے تاہم کولکتہ ریلی میں اجیت سنگھ نے بھی شرکت کرتے ہوئے ایسی تمام قیاس آرائیوں کو ختم کردیا ہے ۔ ٹاملناڈو سے ایم کے اسٹالن کی شرکت بھی اہمیت کی حامل ہے اور انہوں نے بی جے پی کے خلاف سخت تقریر کی ۔ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو اب کٹر بی جے پی مخالفین میں شمار کئے جا رہے ہیں۔ جموں و کشمیر سے ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کی شرکت بھی اہمیت کی حامل رہی ۔ گجرات کے نوجوان ابھرتے قائدین ہاردک پٹیل اور جگنیش میوانی کی شرکت بھی غیر اہم بات نہیں ہے ۔ اکھیلیش یادو اور بی ایس پی کے نمائندے کی شرکت نے جلی پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے تو بہار سے تیجسوی یادو کی شرکت نے اس ریلی کے پیام کو اور بھی واضح کردیا تھا ۔ شرد یادو اور شرد پوار کی شرکت نے بی جے پی کی نئے حلیفوں کی تلاش کو مشکل کردیا ہے ۔ شتروگھن سنہا ‘ یشونت سنہا اور ارون شوری کی شرکت نے اپوزیشن کے خیمے میں مزید جوش و خروش پیدا کیا ہے ۔
بہار میں گذشتہ اسمبلی انتخابات سے قبل لالو پرساد یادو کی قیادت میں ایک سوابھیمان ریلی منعقد کی گئی تھی جس نے سارے بہار میں جشن کا ماحول پیدا کردیا تھا ۔ اس میں لالو یادو ‘ سونیا گاندھی اور نتیش کمار نے حصہ لیا تھا ۔ اسی طرح اب اس لڑائی کا بنگال سے آغاز ہوا ہے جسے انقلاب کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے ۔ کولکتہ کی ریلی کو یونائیٹیڈ انڈیا کی ریلی بھی کہا جا رہا ہے اور یہ واضح ہے کہ اس کے نتیجہ میں بی جے پی کی پریشانیوں اور مشکلات میں اضافہ ہوگا ۔ اس کا ثبوت اس بات سے بھی مل رہا ہے کہ اس ریلی کے انعقاد کے بعد سے بی جے پی کے تقریبا ہر لیڈر اور حکومت کے ہر ذمہ دار کی جانب سے اسی پر نشانہ لگایا جا رہا ہے ۔ اب تو خود نریند رمودی بھی ا س پر تنقید کرنے کیلئے میدان میں آگئے ہیں اور اسے وہ موقع پرستوں اور عدم استحکام والی جماعتوں کا اتحاد قرار دے رہے ہیں۔ بی جے پی کے حلقوں میں اس بات پر خاص طور پر فکرمندی ظاہر کی جا رہی ہے کہ اگر واقعی یہ تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہوجاتی ہیں تو بی جے پی کیلئے 2019 کا سفر دشوار سے مزید دشوار ہوجائیگا اور اسے کراری شکست کا سامنا کرنا بھی پڑسکتا ہے ۔ بنگال میں ممتابنرجی کی مقبولیت پر کوئی سوال نہیں اٹھایاجاسکتا لیکن انہوں نے اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کیلئے جو پہل کی ہے وہ قابل ستائش ضرور کہی جاسکتی ہے کیونکہ اس اتحاد سے ملک کا مستقبل طئے کیا جاسکتا ہے ۔
جیسے جیسے انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ بہار میں اس کی حلیفوں میں اطمینان نہیں ہے اور ایک جماعت نے این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کرلی ہے ۔ جنوب میں اس کی حالت بہت ہی ابتر ہے ۔ شمالی ہند کے رائے دہندے اس سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ شمال مشرق میں اس کی حالت مستحکم نہیں رہ گئی ہے ۔ نوجوانوں میں روزگار کے تعلق سے فکرمندی ہے اور وہ بی جے پی سے مایوس ہو رہے ہیں۔ تاجر برادری پہلے ہی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے بی جے پی سے نالاں ہے ۔ خواتین الگ اپنی سلامتی کے مسئلہ پر فکرمند ہیں۔ ایسے میں اپوزیشن میں اتحاد کیلئے ترنمول کی کوششوں نے بی جے پی کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے ۔