کون سمجھے قرض ، ترقی ، جی ڈی پی اور فیصد ہم تو جانتے ہیں بچا کیا ہے اور لُٹا کیا !

   

محمد مبشرالدین خرم

ہندستانی معیشت کے استحکام کیلئے ماہرین معاشیات کی نہیں بلکہ سیاسی اغراض و مقاصد کی ضرورت ہے اور ملک کی معیشت کے بگاڑ اور سدھار کا انحصار ملک میں ہونے والے انتخابات کے علاوہ برسراقتدار طبقہ کی ضرورتوں پر منحصر ہوچکا ہے۔ملک کے سیاسی شیرازے کو مستحکم بنائے رکھنے کیلئے حکومتوں کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کے لئے برسر اقتدار طبقہ کی جانب سے اب تک اس شعبہ کے ماہرین کی رائے حاصل کی جاتی تھی جس شعبہ کو بحران کا سامنا ہوتا تھا لیکن اب جو صورتحال پیدا ہوچکی ہے اس کے مطابق ملک میں ہر شعبہ کے بحران کے لئے ایک شخص ذمہ دار قرار دیا جا رہاہے اور وہی ایک شخص اپنے فیصلے مسلط کرتے ہوئے ملک کو بحران سے باہر نکالنے کے چمپئن کے طور پر خود کو پیش کر رہا ہے اور یہ تمام فیصلے سیاسی نوعیت کے حامل ثابت ہونے لگے ہیں لیکن اس کے باوجود ملک کے عوام‘ سیاسی قائدین اور تجارتی طبقہ کی جانب سے کوئی منفی ردعمل ظاہر نہیں کیا جا رہا ہے جو کہ برسراقتدار طبقہ کی کامیابی کی ضمانت ثابت ہورہا ہے اور برسراقتدار طبقہ کے نگران ’’ پردھان سیوک‘‘ پر اپوزیشن کی جانب سے مؤثر تنقید برائے تعمیر بھی نہیں کی جا رہی ہے بلکہ برسراقتدار طبقہ کی سیاسی حکمت عملی اس حد تک مستحکم ہوچکی ہے کہ اگر ان کی جانب سے مسلط کئے جانے والے فیصلہ پر تنقید کی جاتی ہے تو یہ عوام میں منفی ذہن پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ہندستانی سیاست نے گذشتہ 6برسوں کے دوران جو کروٹ لی ہے اور اس کے جو اثرات معاشرہ پر مرتب ہوئے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہندستانی شہری ہندستان کی سرحددو ںمیں خود کو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں اس کے باجود حکومت کی عالمی سطح پر پذیرائی کی جارہی ہے جو کہ برسراقتدار طبقہ کی کامیاب سیاسی حکمت عملی کی مثال ہے۔
2014 میں نریندر مودی کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے ملک میں جوحالات پیدا ہوئے اورمودی حکومت کی جانب سے جب کبھی کوئی سخت فیصلہ کیا گیا اور عوامی مخالفت کا سامنا رہا اس وقت مودی حکومت کی جانب سے ایک ایسا فیصلہ کیا گیا کہ ملک کے عوام حکومت کے غلط فیصلوں پر تنقید کے بجائے اس اقدام کی ستائش میں مصروف ہوگئے جو توجہ ہٹانے کیلئے کیا گیا تھا۔ پاکستان میں اچانک طیارے اتارتے ہوئے نواز شریف سے ملاقات اور ان کی دعوت میں شرکت ہو یا کرنسی تنسیخ کا فیصلہ ‘ کشمیر سے آرٹیکل 370کی برخواستگی کا فیصلہ ہو یا ملک کی معیشت کے استحکام کے نام پر جی ایس ٹی کے نفاذ کا فیصلہ‘ عوامی شعبہ کے بینکوں کے انضمام کا فیصلہ ہویا جی ایس ٹی کی شرحوں میں ترمیم ‘ رفائیل معاہدہ ہو یا کالے دہن کی واپسی ‘ وجئے ملیا کی فراری ہو یا نیرو مودی کی فراری یا پھر ذاکر نائک کی عدم واپسی ‘نریندر مودی حکومت کی کامیاب سیاسی حکمت عملی صرف یہی نہیں بلکہ حقیقی بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کی جو کوشش ہے اس میں بھی بڑی حد تک کامیابی حاصل ہورہی ہے۔ہندستان کے بنیادی مسائل میں سب سے اہم معاشی بحران کی صورتحال ہے اور ان حالات میں ملک کے کٹر پسند اکثریتی طبقہ کی جانب سے ملک کو فرقہ پرستی کی کھائی میں دھکیلنے کی کوشش نے حالات کو مزید ابتر بنایا ہوا تھا لیکن اب جبکہ ’’پردھان سیوک‘‘ کو ضرورت پیش آئی ہے اور وہ دنیا کو منہ دکھانے جا رہے ہیں تو انہیں ملک کی عدالت عظمی کے تقدس کا بھی احساس ہوا اور وہ عدالت پر یقین کے علاوہ کشمیر کو نئی جنت بنانے کا اعلان کرتے ہوئے ہتھیلی میں جنت دکھانے لگ گئے اور اگلے ہی دن انہوں نے کارپوریٹ ٹیکس میں تخفیف کا اعلان کرتے ہوئے بیرونی راست سرمایاکاری کی راہیں ہموار کرنے کے اعلانات کئے جس کے نتیجہ میں اسٹاک مارکٹ میں 10 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ اچھال ریکارڈ کیا گیا۔
حکومت ہند کئی برسو ںسے ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے کے علاوہ ملک کو معاشی بحران سے بچانے کے نام پر اسے عارضی انرجی ڈرنک کا سہارا دے رہی ہے اور اس بات کی کوشش کر رہی ہے کہ بحران کے اثرات ملک کے عوام پر مرتب نہ ہونے پائے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے عالمی معاشی انحطاط کے دور میں جب امریکی معیشت بھی انحطاط کا شکار رہی ہندستانی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچنے سے بچانے کے اقدامات کئے تھے اور اس کے مثبت نتائج کے سبب ہندستانی معیشت مستحکم انداز میں این ڈی اے حکومت کو حاصل ہوئی جس نے کالے دھن کی واپسی اور بدعنوانیوں کے نام پر اقتدار حاصل کیا تھا اور نریندر مودی نے کرنسی تنسیخ کے فیصلہ کے ساتھ ملک کی معاشی نظام میں ہلچل پیدا کردی تھی اور یہ کہا گیا تھا کہ ماہرین معاشیات کی جانب سے مشورہ اور ان کی سفارشات کی بنیاد پر ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہے لیکن اس اقدام کے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے بلکہ اب تک بھی انہیں کرنسی تنسیخ کے لئے تنقید کا نشانہ بنایاجارہا ہے اور کہا جار ہاہے کہ ملک کی معیشت میں پیدا ہونے والے بحران کی وجہ ’’انسان کی جانب سے مچائی گئی تباہی ‘‘ قرار دی جا رہی ہے ان حالات کے بعد یہ کہا جارہا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مقبولیت میں کمی واقع ہوگی لیکن اس میں کمی تو نہیں بلکہ عوام کے ذہنوں میں رمضان اور دیوالی میں سربراہ کی جانے والی برقی کا سہارا لیتے ہوئے اترپردیش میں زبردست کامیابی حاصل کرلی گئی ۔
عالمی سطح پر ہندستان کی بدنامی اور ملک کو سنگین حالات کا سامنا ہونے کا خوف پیدا کرنے والی اپوزیشن انسانیت دوستی کے نعرے لگانے والے ممالک کے سربراہان پر اثر انداز ہونے میں ناکام ہونے کی بنیادی وجہ کے متعلق کہا جارہا ہے کہ ہندستانی سفارتی پالیسی اورہندستان میں موجود تجارتی مواقع کے علاوہ سرمایہ کاری کو محفوظ رکھنے کی ضمانت کے باعث عالمی سطح پر ’پردھان سیوک‘ کو اتنی اہمیت حاصل ہورہی ہے کہ انہیں مسلم ممالک میں اعلی ترین اعزازات حوالہ کئے جارہے ہیں۔کشمیر کے مسئلہ پر مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے جو انکشافات کئے گئے اور جو صورتحال وادی میں ہے وہ حقوق انسانی کو پامال کرنے اور موجودہ دور میں انسانوں کی آزادی پر کاری ضرب کے مترادف ہیں لیکن اس کے باوجود عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی جانب سے ہندستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کی بنیادی وجہ کے متعلق کہا جا رہاہے کہ ہندستان میں سرمایہ کاری کی صورت میں سرمایہ محفوظ رہنے کے علاوہ تجارتی فائدہ بھی دیگر ممالک کی بہ نسبت زیادہ حاصل ہوسکتا ہے کیونکہ حکومت ہند کی جانب سے عوام اور ان کی ضروریات سے زیادہ کارپوریٹ اداروں کے مفادات کے تحفظ اور ان کی بقاء کے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور تاثر یہ دیا جا رہاہے کہ اس کے بالراست فوائد ملک کے عوام کو حاصل ہوں گے اور معصوم ہندستانیوں کو بھی اس بات کا یقین ہوتا جا رہاہے کہ حکومت جو کر رہی ہے وہ صحیح ہے اور ایسے سخت فیصلہ لینے کا وقت آگیا ہے جو ملک کے مفاد میں ہیں جبکہ جو فیصلہ ملک کے مفاد میں نظر آرہے ہیں وہ درحقیقت ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں کیونکہ ان امور پر عوام کی توجہ مرکوز نہ ہواس کے لئے انہیں فرقہ پرستی کی ’افیون‘ بھی فراہم کی جارہی ہے اور وہ اس نشہ میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصرہوچکے ہیں کہ عوامی مفادکس میں مضمر ہے۔
حکومت کے 5ٹریلین پر مشتمل معیشت کا خواب موجودہ دور میں کوئی بڑا ہدف نہیں ہے لیکن یہ تاثر دیا جا رہاہے کہ حکومت نے بہت بڑا نشانہ رکھا ہے ۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک امریکہ ‘ جاپان‘ چین ‘ جرمنی ‘ برطانیہ اور دیگر کی معیشت کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات درست ثابت ہوگی کہ ان کی معیشت کا انحصار ان کے اپنے داخلی قرض اور بیرونی قرض پر ہی ہے اور عالمی معاشی اداروں کے مطابق جاریہ مالی سال کے دوران ہندستان کی معیشت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن سکتی ہے ۔ ہندستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ بیرونی قرض کا بوجھ مارچ 1992 میں رہا جو کہ شرح پیداوار کا 38.2 فیصد رہا اور سب سے کم بیرونی قرض کا بوجھ ملک کی تاریخ میں مارچ1980میں ریکارڈ کیا گیا جو کہ شرح پیداوار کا 10.9 فیصد حصہ رہا۔ ہندستان کا موجودہ بیرونی قرض شرح پیداوار کے حصہ کے طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ 19.7 فیصد تک پہنچ چکا ہے اور سال گذشتہ سے اس مرتبہ 2.63 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ قومی قرض کا شرح پیداوار کے اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو یہ 69 فیصد تک پہنچ چکا ہے ۔دنیا کے دیگر ترقی یافتہ معیشت اور ممالک میں امریکہ ‘ جرمنی ‘ برطانیہ ‘ جاپان اور چین کا جائزہ لیا جائے تو ان کے داخلی اور قومی قرض کا تناسب ان کی اپنی شرح پیداوار سے تین گنا زیادہ ہے اس اعتبار سے دنیا مقروض مملکتوں کو معاشی طور پر مستحکم تصور کر رہی ہے اور ان ممالک کو ترقی یافتہ تصور کیا جا رہاہے جہاں بیرونی راست سرمایہ کاری کے ذریعہ قرض کی فراہمی کی سہولتیں فراہم ہونے لگی ہیں۔ملک کی ترقی کا انحصار اعداد و شمار پر نہیں بلکہ عوام کو ہونے والی بچت سے کیا جاتا ہے لیکن موجودہ دور میں راست عوام کی بچت کے بجائے سرمایہ داروں کو سہولت کی فراہمی کے ذریعہ عوام کو فائدہ پہنچانے کی پالیسی اختیار کی جا رہی ہے جو کہ دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کو حکمرانی فراہم کر رہی ہے۔
’پردھان سیوک‘ نے اپنے دور اقتدار میں امریکہ کے متعدد دورے کئے ہیں لیکن ایک دورہ کے دوران اپنے خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کا تعلق گجرات سے ہے اور ان کے خون میں بیوپارہے۔ ان کا یہ جملہ ملک کی معاشی ساکھ کے لئے کافی ہے ۔ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کی حکمرانی کا جو خواب دیکھا گیا تھا اور سرمایہ داروں کی حکمرانی کے ذریعہ غریبوں کو کچلنے کی حکمت عملی تیار کی گئی تھی وہ تو کامیاب ہے کیونکہ امریکہ میں تجارتی ادارہ کے سربراہ حکمراں ہیں اور یہی صورتحال یہاں بھی ہے۔تاجر کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور حکمراں کے مفادات قومی مفاد ہوتے ہیں مگر موجودہ دور میں سرمایہ دارانہ نظام کی حکمرانی عروج پر ہے لیکن جب کبھی ایسی صورتحال پیدا ہوئی اس کے خلاف ایک مؤثر جدوجہد کی ضرورت پیش آئی اوریہ جدوجہد عوامی رہی اور کسی قائد نے اس جدوجہد کی قیادت میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا کیونکہ یہ جدوجہد عوامی اور قومی مفادات کے لئے رہی اورجب قیادت برائے منصب رہتی ہے تو وہ عوام کو گمراہ کرتے ہوئے اپنے مقصد کو پورا کرہی لیتی ہے اور یہ جدوجہد جب شروع ہوتی ہے تو ’کاخ امراء کے در و دیوار دہلنے لگتے ہیں‘۔حکومت کا یہ انتہائی اہم فیصلہ بھی ممکن ہے عارضی معاشی راحت ثابت ہوگا اسی لئے جدوجہد ترک نہیں کی جانی چاہئے۔٭