کچھ اس طرح سے ہم پہ ستم کر رہے ہو تم

   

کورونا… وباء سے زیادہ اسکام
دوائی سے زیادہ ویکسین پر توجہ
مخالف آوازوںپر حکومت چراغ پا

رشیدالدین
لاشوں پر سیاست کا کھیل ہندوستان میں معیوب نہیں بلکہ سیاسی مجبوری اور ضرورت بن چکا ہے ۔ فسادات ہوں یا پھر آفات سماوی ، سیاستداں سیاسی روٹیاں سیکھنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آج کے سیاستدانوں کو زندوں سے زیادہ لاشوں پر سیاست کرنے میں مہارت حاصل ہے۔ دراصل زندہ لوگوں پر سیاست کرنا آسان کام نہیں ۔ عوام کو ہر الیکشن میں نت نئے وعدوں کے ذریعہ گمراہ کرنا پڑتا ہے اور بہت کم مواقع پر عوام سیاستدانوں کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ برخلاف اس کے لاشوں پر سیاست کے ذریعہ عوامی ہمدردی اور تائید کا حصول بہ نسبت آسان ہوتا ہے۔ ملک میں کورونا وباء کے داخلہ کو ایک سال تین ماہ مکمل ہوچکے ہیں لیکن آج تک عوام کو وباء سے بچانے میں کامیابی نہیں ملی ۔ وباء سے لاکھوں افراد لقمۂ اجل بن گئے لیکن حکومتیں موت کا تماشہ دیکھتی رہ گئیں اور ویکسین کے نام پر سیاست کی جارہی ہے۔ آج ویکسین کے بجائے اگر دوائی اور علاج پر توجہ دی جاتی تو شائد اس قدر اموات واقع نہ ہوتیں۔ دنیا کے دیگر ممالک جن میں سری لنکا ، نیپال اور مالدیپ جیسے چھوٹے ممالک نے بھی کورونا پر قابو پالیا لیکن ہندوستان میں آج بھی لاشوں کی گنتی کا کام جاری ہے اور تیسری لہر کے سرخ قالین استقبال کی تیاریاں ہیں۔ لاشوں پر سیاست اور اسکامس کے لئے شہرت رکھنے والے ملک کے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے کورونا وباء کو اسکام میں تبدیل کردیا ہے ۔ ہمیں تو بس محض بہانہ چاہئے۔ کورونا جو گزشتہ سال مارچ میں وباء کی صورت میں ہندوستان میں داخل ہوا ، اسے حکمراں طبقہ نے اسکام کا رنگ دے دیا ۔ علاج پر توجہ سے زیادہ دوائی ، ویکسین حتیٰ کہ آکسیجن کو بھی فائدہ کا ذریعہ بنادیا گیا۔ انجکشن اور ادویات کی ذخیرہ اندوزی کا اسکام ، ویکسین کی مثنوی قلت حتیٰ کہ آکسیجن کی سربراہی کو بزنس کی شکل دے دی گئی ۔ یہ تمام سرکاری اسکام ہیں۔ وباء کے آغاز کے ساتھ ہی کارپوریٹ ہاسپٹلس کی لوٹ کھسوٹ شروع ہوگئی۔ علاج کے لئے درکار ادویات اور انجکشن کی دستیابی میں حکومت ناکام ہوگئی جس کا فائدہ بلیک مارکیٹرس کو ہوا۔ پہلی لہر کے تجربات کی روشنی میں حکومت آکسیجن اور انجکشن کا اسٹاک کرنے میں تساہل اور تغافل کا شکار رہی جس کے نتیجہ میں ہزاروں اموات واقع ہوئیں۔ حد تو یہ ہوگئی کہ کورونا سے نمٹنے کیلئے جو فنڈس اکھٹا کئے گئے، ان میں بھی لوٹ مار کی اطلاعات ہیں۔ جب ارباب اقتدار کو عوام کی زندگی سے زیادہ سیاسی مفادات عزیز ہوجائیں تو پھر موت کے اس کھیل کو کوئی بھی روک نہیں پائے گا۔ پہلی لہر سے نمٹنے میں ناکامی کے بعد نریندر مودی حکومت نے دوسری لہر کے آغاز کے ساتھ ہی اپنے ہاتھ اٹھالئے اور ریاستوں پر چھوڑ دیا کہ وہ ویکسین ، آکسیجن ، انجکشن اور دوائی کے انتظامات کرلیں۔ جب مرکزی حکومت کوئی ذمہ داری قبول کرنے تیار نہیں تو پھر کرسی پر برقراری کا اخلاقی حق باقی کہاں رہے گا۔ آکسیجن کی قلت سے بے شمار اموات واقع ہوئیں لیکن الہ آباد ایک ہاسپٹل نے آکسیجن کی سربراہی بند کرنے کا تجربہ کرتے ہوئے تقریباً 22 مریضوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا ۔ بی جے پی زیر اقتدار اور مودی کے شاگرد یوگی کی ریاست میں یہ ہلاکت خیز تجربہ کیا گیا لیکن گودی میڈیا کو جیسے سانپ سونگھ گیا ۔ کسی نے تشہیر نہیں کی، اگر یہی واقعہ کسی غیر بی جے پی ریاست اور خاص طور پر مغربی بنگال میں پیش آتا تو آسمان سر پر اٹھالیتے۔ تجربہ کے نام پر جان بوجھ کر آکسیجن کی سربراہی روکنا قتل عمد نہیں تو اور کیا ہے۔ ویکسین کے آرڈر کے لئے حکومت کے جاگنے تک کمپنیوں کے پاس آرڈرس کی بھرمار تھی اور ہندوستان کو مایوسی ہاتھ لگی۔ کئی ریاستوں نے گلوبل ٹنڈرس طلب کئے لیکن کسی بھی بیرونی ویکسین تیاری کمپنی نے دلچسپی نہیں دکھائی۔ اب جبکہ تیسری لہر کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے ، احتیاطی تدابیر اور تیاریوں کے بارے میں حکومت خواب غفلت کا شکار ہے۔ ان دنوں نریندر مودی اور ان کی حکومت کے اعصاب پر ویکسین سوار ہے۔ صبح شام مودی کی زبان پر صرف ویکسین کا راگ جاری ہے۔ ساری توجہ اب حکومت کی تمام تر پبلسٹی صرف ویکسین پر مرکوز ہے ۔ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ کورونا سے زیادہ ویکسین اہمیت اور توجہ کی محتاج ہے حالانکہ ویکسین صرف احتیاط ہے ، علاج نہیں۔ ویکسین کی دو خوراک لینے کے باوجود کوئی گیارنٹی نہیں کہ کورونا سے بچ جائیں گے ۔ اپولو گروپ آف ہاسپٹلس کے سربراہ کو دو خوراک لینے کے بعد کورونا نے اپنا شکار بنایا۔ ملک میں ضرورت علاج پر توجہ کی ہے۔ آکسیجن ، انجکشن اور دوائی کا وافر مقدار میں اسٹاک رکھا جائے تاکہ تیسری لہر کو بے اثر کرتے ہوئے عوام کی جانوں کا تحفظ کیا جاسکے۔ ویکسین کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ لیکن مریضوں کیلئے ویکسین علاج اور دوائی نہیں بن سکتی۔ یہ تاثر دینا سراسر دھوکہ ہے کہ ویکسین میں نجات ہے۔ ملک کی آبادی نریندر مودی کے مطابق 130 کروڑ ہے جبکہ ان کے گرو رام دیو نے 140 کروڑ کا دعویٰ کیا ہے۔ رام دیو نے 10 کروڑ کا اضافہ شائد سی اے اے قانون کے تحت دی جانے والی ہندوستانی شہریت کی بنیاد پر کیا ہے۔ خیر تعداد بھلے ہی کچھ ہو لیکن ابھی تک صرف 26 کروڑ عوام کو ویکسین دی گئی۔ باقی 100 کروڑ کی ٹیکہ اندازی کے لئے کتنے سال درکار ہوں گے ، اس کا حساب حکومت کو پیش کرنا ہوگا ۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے نریندر مودی ویکسین کا راگ الاپ رہے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران وزیراعظم کے بیانات کا جائزہ لیں تو علاج سے زیادہ ویکسین کا تذکرہ شامل ہیں۔ حکومت کو دراصل علاج سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ سرکاری دواخانوں کی صورتحال انتہائی ابتر ہے ۔ بنیادی انفراسٹرکچر میں اضافہ کیلئے کوئی توجہ نہیں دی گئی ، لہذا حکومت چاہتی ہے کہ عوام اپنا علاج کارپوریٹ دواخانوں سے کرائیں۔ علاج کے علاوہ روزی روٹی کے مسائل سے عوام بدحال ہیں۔ مہنگائی نے غریب اور متوسط طبقات کی کمر توڑدی ہے ۔ حکومت کو ویکسین سے زیادہ روزگار کی فراہمی اور مہنگائی میں کمی پر توجہ دینی چاہئے۔ نریندر مودی کی تقاریر اور من کی بات میں مہنگائی اور بیروزگاری کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔ جہاں تک ویکسین کا سوال ہے ملک کی بڑی آبادی آج بھی ویکسین کے بغیر کورونا سے محفوظ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ویکسین کا نشانہ پورا کرنے تک مودی حکومت کی میعاد ختم ہوجائے گی۔ ماہرین کے مطابق وباء کا ویکسین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے اور مقررہ وقت تک اپنا اثر دکھانے کے بعد وباء از خود ختم ہوجاتی ہے لیکن وباء کو سیاسی مفادات اور اغراض کی تکمیل کے لئے استعمال کرنا انسانیت کی بدخدمتی ہوگی۔ دوسری طرف سرکاری سطح پر عدم رواداری اور عدم برداشت کے معاملات منظر عام پر آئے ہیں۔ حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ تاکہ آئندہ انتخابات میں مودی کیلئے کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ عوام نے عدم رواداری کے بارے میں تو سنا ہوگا لیکن ملک کی تاریخ میں پہلا موقع ہے جب سرکاری سطح پر اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا ہے۔ انگریزوں کے دور میں جب کبھی آزادی کے متوالے آواز اٹھاتے تو انہیں جیل پہنچادیا جاتا تھا ، آج انگریزوں کے دور کا احیاء ہوچکا ہے۔ مودی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے ہر شخص کو سنگین دفعات کے تحت جیل بھیجا جارہا ہے تاکہ جیل کی سلاخیں اور صعوبتیں حوصلوں کو پست کردیں۔ حالیہ دنوں میں کئی نامور صحافیوں اور جہد کاروں کو نشانہ بنایا گیا ۔ گزشتہ دنوں غازی آباد میں ایک مسلم ضعیف شخص پر حملہ کا معاملہ سوشیل میڈیا میں وائرل ہوا۔ پولیس نے تحقیقات کے بعد اگرچہ اسے ذاتی مخاصمت کا نتیجہ قرار دیا ہے لیکن اس واقعہ پر تبصرہ کرنے والے 6 صحافیوں اور جہد کاروں کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج کئے گئے ۔ جو لوگ خود فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے دشمن اور جارحانہ فرقہ پرستی کے مظاہرہ میں پیش پیش رہے ہیں، آج انہیں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فکر ستانے لگی ہے۔ نریندر مودی ، امیت شاہ اور یوگی ادتیہ ناتھ کے کارسیاہ سے کون واقف نہیں ہے لیکن آج وہی لوگ پارسائی کا لبادہ اوڑھ کر امن کا درس دے رہے ہیں۔ یو پی انتخابات میں شکست کے خوف سے مسلمانوں پر حملوں کے واقعات کو دوسرا رنگ دیا جارہا ہے۔ گزشتہ سال دہلی فسادات کے سازشی مقدمہ میں طلبہ قائدین کو گرفتار کیا گیا تھا جن کی ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہائی عمل میں آئی ۔ آصف اقبال ، نتاشا نروال اور دیوانگنا کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے مخالف سی اے اے احتجاج میں سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔ حکومت نے انہیں دہلی فسادات میں سازشی کے طور پر ماخوذ کردیا ۔ ایک سال بعد رہائی نے عدالتوں میں محروس دیگر جہد کاروں اور طلبہ قائدین میں امید کی کرن پیدا کی ہے کہ عدالتوں سے انصاف ضرور ملے گا۔ نئی دہلی کی مختلف یونیورسٹیز کے طلبہ قائدین اور جہد کاروںکے خلاف مقدمات کی ایک طویل فہرست ہے ۔ عالمی سطح پر بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیلئے ہندوستان کی مذمت کی جارہی ہے۔ منظر بھوپالی نے کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
کچھ اس طرح سے ہم پہ ستم کر رہے ہو تم
دنیا سمجھ رہی ہے کرم کر رہے ہو تم