کھرگے بمقابلہ تھرور

   

رخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر آتا ہے پروانہ
کھرگے بمقابلہ تھرور
ملک کی سب سے قدیم پارٹی کانگریس کے صدارتی انتخابات کا عمل شروع ہوچکا ہے ۔ تین امیدواروں نے پرچہ نامزدگی داخل کئے جن میں ایک کا پرچہ مسترد کردیا گیا ۔ اس طرح دو امیدوار میدان میں رہ گئے ہیں۔ ایک سینئر ترین لیڈر ملکارجن کھرگے ہیں تو دوسرے ششی تھرور ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں ہی قائدین جنوبی ہند سے تعلق رکھتے ہیں۔ کھرگے کا تعلق کرناٹک سے اور ششی تھرور کا تعلق کیرالا سے ہے ۔ کانگریس کے ذمہ دار قائدین سونیا گاندھی اور راہول گاندھی ابتداء میں خواہشمند تھے کہ چیف منسٹر راجستھان اشوک گہلوٹ کو پارٹی صدر کے عہدہ پر منتخب کروایا جائے ۔ انہیں امیدواری کیلئے قائل کرلیا گیا تھا تاہم اشوک گہلوٹ پارٹی صدارت سے زیادہ چیف منسٹر کے عہدہ کے خواہاں رہے اور انہوں نے ایک شخص ایک عہدہ کے اصول کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی ۔ انہوں نے پارٹی کی ہدایات کو نظرانداز کرتے ہوئے سی ایل پی اجلاس سے قبل ہی علیحدہ اجلاس منعقد کرکے اپنے حامی ارکان اسمبلی کو استعفی کیلئے تیار کرلیا ۔ اس طرح انہوں نے کانگریس قیادت کو باضابطہ طور پر اپنے باغیانہ تیور سے چیلنج کردیا ۔ اس عملی بغاوت کے بعد گہلوٹ کا پارٹی صدارت پر انتخاب مشکل ہوگیا تھا جس کے بعد وہ دوڑ سے ہی باہر ہوگئے ۔ گہلوٹ کے باغیانہ تیور نے پارٹی کی مرکزی قیادت کو بھی الجھن کا شکار کردیا تھا اور پارٹی کو مایوسی بھی ہوئی تھی ۔ یہی وجہ رہی کہ ششی تھرور کے مقابلہ میں پارٹی نے نہرو ۔ گاندھی خاندان کے وفاداروں میں شمار کئے جانے والے ایم ملکارجن کھرگے کو صدارتی دوڑ میں اچانک ہی شامل کیا اور یہ تاثر پیدا ہونے لگا ہے کہ ملکارجن کھرگے ہی پارٹی کے نئے صدر منتخب ہونگے ۔ ملک کے سیاسی حالات اور آئندہ عام انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا رہا تھا کہ شمالی ہند سے تعلق رکھنے والے کسی لیڈر کو کانگریس صدر بنانا بہتر ہوگا تاہم گہلوٹ کی مفاد پرستی نے اس امکان کو ختم کردیا ۔ اب ملکارجن کھرگے اور ششی تھرور میدان میں رہ گئے ہیں اور اس میں بھی ششی تھرور کے امکانات کم ہی دکھائی دیتے ہیں ۔ کانگریس حلقوں میں یہی تاثر پایا جانے لگا ہے کہ ملکارجن کھرگے کو گاندھی پریوار کی تائید حاصل ہے اور وہی کامیاب ہوسکتے ہیں۔
جہاں تک کھرگے اور ششی تھرور کا سوال ہے دونوں ہی ذمہ دار قائدین میں شمار ہوتے ہیں تاہم کھرگے گاندھی خاندان کے وفاداروں میں شامل ہیں۔ ششی تھرور کو کانگریس کے باغی 23 قائدین کے گروپ کا حصہ قرار دیا جا رہا تھا۔ وقفہ وقفہ سے ان کے بیانات بھی اس طرح کے ہوتے ہیں جن کے نتیجہ میں کانگریس کو خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ششی تھرور نے پارٹی صدارت کے انتخاب کیلئے اپنا جو منشور جاری کیا تھا اس میں بھی انہوں نے غلطی کردی۔ انہوں نے ملک کے نقشہ کو غلط انداز میں پیش کردیا ۔ حالانکہ انہوں نے اس کیلئے فوری طور پر غیرمشروط معذرت بھی کرلی ہے لیکن مخالفین کو اس طرح کی غلطیوں کی تشہیر کرتے ہوئے ان سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے ۔ ششی تھرور اکثر و بیشتر پارٹی کی موجودہ قیادت کے خلاف بھی رائے زنی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ حالانکہ وہ پاک صاف شبیہہ کے حامل قائدین میںشمار ہوتے ہیں لیکن پارٹی کی صدارت کیلئے شائد انہیںزیادہ موزوں اور مناسب نہیںسمجھا جاسکتا ۔ جہاں تک ملکارجن کھرگے کا سوال ہے تو وہ نہرو۔ گاندھی خاندان کے وفاداروں میںشمار ہوتے ہیں۔ان کا سیاسی کیرئیر بھی طویل رہا ہے ۔ وہ80 برس کے ہیں لیکن کسی طرح کے الزامات کا انہیں سامنا کرنا نہیں پڑا ہے ۔ وہ ایک پاک صاف امیج کے قائد بھی ہیں تاہم ان کے ساتھ گاندھی ۔ نہرو خاندان کے وفادار ہونے کا جو تاثر ہے وہ کانگریس صدارت پر ان کی کارکردگی پر ضرور اثر انداز ہوسکتا ہے ۔
جہاں تک کانگریس پارٹی کا سوال ہے تو پارٹی کیلئے الیکشن کے ذریعہ نئے صدر کا انتخاب زیادہ اہمیت کا حامل تھا ۔ موجودہ حالات میں گاندھی خاندان کے باہر کوئی مناسب امیدوار کی دستیابی بھی مشکل ہوگئی تھی ۔ تاہم عوام کے درمیان ایک الگ پیام دینے کیلئے نئے صدر کا انتخاب کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب راہول گاندھی بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ عوام سے ٹوٹے ہوئے رشتوں اورتعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میں نئے صدر کے انتخاب کو موثر اور شفاف انداز میںیقینی بنانے کی ضرو رت ہے تاکہ نو منتخب صدر کے کام کاج پر الزام تراشی کا کسی کو موقع ملنے نہ پائے ۔ آثار و امکانات کے برخلاف رائے دہی کے ذریعہ اس انتخاب کا جو بھی نتیجہ نکلتا ہے اس کو سبھی کو قبول کرنے کی ضرورت ہے ۔
دنیا کے بدلتے جغرافیائی حالات
دنیا میں گذرتے وقتوں کے ساتھ حالات کی تبدیلی عام بات ہے ۔ کبھی معاشی حالات میں تبدیلی آتی ہے تو کبھی سیاسی حالات بدلتے ہیں۔ جغرافیائی حالات ایسے ہیں جو کبھی کبھار ہی بدلتے ہیں تاہم اب دنیا کے جغرافیائی حالات بدلنے لگے ہیں۔ روس نے یوکرین کے چار علاقوں کو اپنے ملک میں ضم کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ ا س کے علاوہ صدر روس ولادیمیر پوٹن کے عزائم جارحانہ دکھائی دیتے ہیں۔و ہ یوکرین کے خلاف جنگ میں اپنے من مانی فیصلوں کے ذریعہ جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جنگ کو روکنے یا ختم کرنے کے تعلق سے کسی کے مشورہ کو قبول کرنے تیار نہیںہیں۔ انہوں نے جس طرح سے یوکرین کے چار علاقوںکوضم کرنے کا اعلان کیا ہے اس سے دوسرے توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے قائدین کے حوصلے بلند ہوسکتے ہیں اور دنیا میں تباہی کے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ جہاں تک بین الاقوامی اداروں کی بات ہے یا اقوام متحدہ کی بات ہے تو یوکرین کی جنگ کو ختم کرنے کیلئے اقوام متحدہ نے کوئی ذمہ دارانہ رول ادا نہیں کیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ نے اس معاملے میں بھی ہمیشہ کی طرح مغربی ممالک اور خاص طور پر امریکہ کے اشاروں پر کام کرتے ہوئے روس کو اپنے عزائم کی تکمیل کا موقع فراہم کردیا ہے ۔ اس جنگ کے دنیا بھر پر اثرات مرتب ہوتے واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ دنیا کی معیشت پر اس کے منفی اثرات ہو رہے ہیں۔ اگر جنگ کا سلسلہ جاری رہا اور ولادیمیر پوٹن اپنے منصوبوں پر عمل کرتے رہیں تو دنیا کے جغرافیائی حالات کی تبدیلی کا امکان بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ حالات کو قابو سے باہر ہونے سے بچانے کیلئے اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کو فوری حرکت میں آتے ہوئے جنگ کے خاتمہ کی کوشش کرنی چاہئے ۔