کہکشاں کے سب سے بڑے بلیک ہول Black Holeکی دریافت

   

سب سے پراسرار و حیرت انگیز فلکیاتی مظہر کا قران میں ذکر

ڈاکٹر راسے نعیم ہاشمی
اسی ہفتہ ماہرین فلکیات نے حادثاتی طور پر ہماری کہکشاں Milky Way) میں موجود سب سے بڑے سیاہ شگاف Black Holeکو دریافت کیا ہے۔ یورپی اسپیس ایجنسی گایا کے ٹیلیسکوپ
کے ذریعے گایا بی ایچ تھری Gaia BH3 سے بلیک ہول کی دریافت ممکن ہوئی ہے۔ گایا بی ایچ تھری ایک غیر فعال یعنی dormant بلیک ہول ہے۔ سائنسی اصطلاح میں اسے سٹلر stellar بلیک ہول کہا جاتا ہے. جب کوئی ستارہ اپنی طبعی عمر کی تکمیل کر لیتا ہے تو اسٹیلر بلیک ہول وجود میں اتا ہے۔ ہماری کہکشاں میں100 ملین سے زیادہ اسٹلر بلیک ہولز موجود ہیں لیکن انہیں دیکھ پانا ناممکن ہے کیونکہ وہ نظر نہیں آتے۔ صرف ایک ہی طریقہ ہے جس سے بلیک ہول کی موجودگی کا پتہ لگایا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی ستارہ اس کے اطراف گردش کرے تو سمجھا جاتا ہے کہ اس کے قریب بلیک ہول موجود ہے۔ یورپی ایجنسی کے ڈیٹا کلیکشن کے دوران سائنس دانوں نے گایا بی ایچ تھری کے اطراف ایک ساتھی ستارے کو موجود پایا جو لڑکھڑاہٹ کے انداز میں اس کے اطراف گردش کر رہا تھا۔ اس طرح انہوں نے ہماری کہکشاں کے سب سے بڑے بلیک ہول کو حادثاتی طور پر دریافت کر لیا جو کہ ایک عظیم دریافت ہے۔
انھوں نے سب سے پراسرار اور حیرت انگیز فلکیاتی مظہر بلیک ہول کو دریافت کیا ہے۔ یہ سلیپنگ جائنٹ جو گیا بی ایچ تھری کے نام سے جانا جاتا ہے اس کے اندر سورج کے مقابلے 33 گنا زیادہ مادہ پایا جاتا ہے۔ یہ بلیک ہول زمین سے 1926 نوری سال یعنی light years کی دوری پر ایکویلا کانسٹیلیشن میں موجود ہے۔ اسے زمین سے دوسرا سب سے قریب ترین بلیک ہول مانا گیا ہے۔ اس کی دریافت حادثاتی طور پر ہوئی ہے۔ گایا بی ایس تھری کو براہ راست نہیں دیکھا گیا بلکہ یوروپی سپیس ایجنسی کا گایا ٹیلیسکوپ جو ستاروں کی چال چلن کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے اس نے دیکھا کہ ایک اکلوتا قدیم قوی ہیکل ستارہ آسمان پر اپنی مخصوص جگہ پر ہے۔ اسی دوران اس نے محسوس کیا کہ وہ ستارہ لڑکھڑانے کے انداز میں گردش کر رہا ہے جس سے ماہرین فلکیات نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ کچھ اور نہیں بلکہ اس کے قریب بلیک ہول کی موجودگی کا نتیجہ ہے۔ ستارہ کے کسی ان دیکھی شہ کے اطراف لڑکھڑانے کے انداز میں گردش کرنے کو دیکھ کر سائنس دانوں نے اندازہ لگایا کہ ہو نہ ہو یہ بلیک ہول ہے جو روشنی کے سبب نظر نہیں آرہا لیکن اس ستارے کا اس کے اطراف لڑکھڑاہٹ کے انداز میں گردش کرنا یہ واضح کرتا ہے کہ یہ بلیک ہول کے اطراف گردش کر رہا ہے۔
بیک ہول کیا ہے؟
بلیک ہول کائنات کے پراسرار اور حیرت انگیز مظاہر میں شمار کیے جاتے ہیں۔ سائنس کی دریافت کے مطابق بلیک ہولز کائنات میں وہ اندھیرے غار ہیں جن میں بڑی بڑی کہکشائیں یعنی گیلیکسیز گم ہو جاتی ہیں۔ سورج سے بھی بڑے ستارے اس میں گم ہو کر اپنا نام و نشان کھو دیتے ہیں۔ کوئی بھی شے اس کے قریب سے گزر جائے تو بلیک ہول اپنی کشش ثقل کے نتیجے میں اسے اپنے اندر کھینچ لیتا ہے۔ بلیک ہولز کی کشش ثقل اتنی شدید ہے کہ روشنی بھی اس سے بچ نہیں سکتی اور وہ اس کو بھی اپنے اندر کھینچ لیتا ہے۔ بلیک ہول کی دریافت سائنسی دریافتوں میں ایک بہت بڑی دریافت ہے۔ بلیک ہول کے اندر کا منظر کیسا ہوتا ہے یہ کوئی نہیں دیکھ سکتا۔
ایک کہکشاں کے وسط میں موجود بلیک ہول کا گریویٹیشنل فورس کشش ثقل اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ وہ بڑی مقدار میں مادہ نگل رہا ہوتا ہے۔سائنسی تحقیق کے مطابق ستاروں کی جب طبعی عمر پوری ہو جاتی ہے تو بلیک ہول انہیں نگل لیتے ہیں۔ بلیک ہول اپنے اطراف پائی جانے والی ہر شے کو ہڑپ لیتے ہیں اور ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بلیک ہول فلکیاتی ویکیوم کلینر کا کام سرانجام دیتے ہیں جو اپنے قریب آنے والے اجزاء کو اپنی کشش ثقل کے ذریعے اپنے اندر کھینچ لیتا ہے۔ تاہم یہ بات بھی زیر غور رہے کہ وہ صرف انہی مادوں کو ہڑپ کرتے ہیں جو ان کے نزدیک آتے ہیں نہ کہ فلک میں موجود دور دور کے تمام اجزاء کو … اگر ایسا ہوتا تو فلکیاتی نظام درہم برہم ہو جاتا۔ ایک اندازے کے مطابق بلیک ہول انہی مادوں کو نگل لیتا ہے جو اس سے دس میل کے فاصلے پر موجود ہوں۔ موجودہ تھیوری کے مطابق بلیک ہول کا سارا مادہ مرکز کے ایک نقطے پر جمع ہوتا ہے۔ بلیک ہول کی خوراک مادہ اور توانائی ہے جو وہ وقتا فوقتا نگلتا رہتا ہے۔
بلیک ہول کیسے وجود میں آتے ہیں؟
سائنسی تحقیقات کے مطابق ایک بہت بڑا ستارہ جس کو ریڈ جاینٹ Red Giant کہتے ہیں جب اپنی طبعی عمر گزارنے کے بعد مرنے کے قریب ہوتا ہے تب اس کا حجم تیزی سے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور اس کے اندرتہہ بہ تہہ مختلف عناصر پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو ایک بڑے دھماکے سے پھٹ کر کائنات میں بکھر جاتے ہیں۔اس کے مرکز میں شدید ترین کشش ثقل کے نتیجے میں ایک ایسا کالا بھنور وجود میں آ جاتا ہے جو بعد میں بلیک ہول بن جاتا ہے۔ یہ نہایت کثیف ہوتے ہیں اور اتنی کشش رکھتے ہیں کہ پورے کا پورا ستارہ نگل جاتے ہیں۔ بڑی بڑی کہکشائیں اس کی شدید کشش کی بنا پر اس کے گرد گھومنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ بلیک ہول کے گرد مقناطیسی میدان ایک روشنی کے فوارے کو جنم دیتا ہے۔ بلیک ہول میں وہ عظیم روشنی کچھ اس طرح خارج ہوتی ہے کہ وہ دودھ کی دھار کی مانند نظر آتی ہے ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ بلیک ہول ایک اسمان سے دوسرے آسمان تک جانے کے لیے پل کا کام بھی سرانجام دیتے ہیں۔
قران اور بلیک ہول
کم و بیش 15 سو سال قبل نازل ہونے والی اسمانی کتاب قران میں بلیک ہول کا ذکر پایا گیا ہے۔ قران کے سورہ واقعہ کی ایت نمبر 75 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں ۔ترجمہ : پس نہیں! قسم ہے مجھے ان مقامات کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں۔ بعض قدیم مفسرین نے مواقع نجوم کی وضاحت شہاب ثاقب کے حوالے سے کی ہے ، لیکن جدید مفسرین جن میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب بھی ہیں ان کا ماننا ہے کہ مواقع النجوم سے مراد بلیک ہولز ہیں۔بیان قران میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے لکھا ہے ۔بعض مفسرین نے مواقع النجوم کی شناخت شہاب ثاقب کے حوالے سے کی ہے حالانکہ شہاب ثاقب بالکل مختلف چیز ہے اور قران میں موجود لامحدود مقامات پر انہیں شیاطین کو عالم بالا سے مار بھگانے کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ موجودہ دور میں سائنس کی فراہم کردہ معلومات کی مدد سے اس ایت کو نسبتا بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ابھی بھی اس کا مفہوم پوری طرح واضح نہیں ہے۔وہ مزید لکھتے ہیں موجودہ دور میں سائنس دانوں نے کائنات کے اندر بے شمار بڑے بڑے اندھے غاروں کا کھوج لگایا ہے جو اپنے پاس سے گزرنے والی ہر چیز کو نگل جاتے ہیں۔ سائنس دانوں نے ان غاروں کو بلیک ہولز کا نام دیا ہے۔ سائنسی تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کائنات کے اندر مسلسل نئے نئے ستارے جنم لے رہے ہیں اور نئی نئی کہکشائیں وجود میں آ رہی ہیں جبکہ ساتھ ہی ساتھ بے شمار کہکشائیں اپنے ان گنت ستاروں کے ساتھ مسلسل بلیک ہول کی نظر ہو کر معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ اگرچہ کائنات کے اسرار و رموز سے متعلق اج بھی انسان کی معلومات بہت محدود ہیں لیکن پھر بھی بلیک ہولز کے متعلق اب تک حاصل ہونے والی معلومات بہت ہوشربا ہیں۔
اب اگر ہم اپنی زمین کی جسامت اور وسعت کا نقشہ ذہن میں رکھیں پھر اس کے مقابلے میں سورج کی جسامت کا اندازہ کریں پھر یہ تصور کریں کہ کائنات میں ہمارے سورج سے کروڑوں گنا بڑے اربوں کھربوں ستارے بھی موجود ہیں اور ان ستاروں کے درمیان اربوں نوری سالوں کے فاصلے ہیں پھر یہ تصور کریں کہ ایسے ان گنت ستاروں پر مشتمل ان گنت کہکشائیں ہیں اور ان کہکشاؤں کے درمیانی فاصلے بھی اسی تناسب سے ہیں، کہکشاؤں اور ستاروں سے متعلق یہ تمام معلومات ذہن میں رکھ کر اگر ہم کائنات کے طول و عرض میں موجود لا تعداد بلیک ہولز کا تصور کریں اور پھر یہ نقشہ ذہن میں لائیں کہ ان میں سے ایک ایک بلیک ہول اتنا بڑا ہے کہ وہ اپنے پاس سے گزرنے والی کسی بڑی سے بڑی کہکشاں کو ان واحد میں نگل جاتا ہے کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا اور پھر ان بلیک ہولز کا اطلاق مواقع النجوم پر کریں تو شاید ہمیں کچھ کچھ اندازہ ہو جائے کہ اس آیت میں جس قسم کا ذکر ہوا ہے وہ کتنی بڑی قسم ہے۔ہیں اور ان کہکشاؤں کے درمیانی فاصلے بھی اسی تناسب سے ہیں، کہکشاؤں اور ستاروں سے متعلق یہ تمام معلومات ذہن میں رکھ کر اگر ہم کائنات کے طول و عرض میں موجود لا تعداد بلیک ہولز کا تصور کریں اور پھر یہ نقشہ ذہن میں لائیں کہ ان میں سے ایک ایک بلیک ہول اتنا بڑا ہے کہ وہ اپنے پاس سے گزرنے والی کسی بڑی سے بڑی کہکشاں کو ان واحد میں نگل جاتا ہے کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا اور پھر ان بلیک ہولز کا اطلاق مواقع النجوم پر کریں تو شاید ہمیں کچھ کچھ اندازہ ہو جائے کہ اس ایت میں جس قسم کا ذکر ہوا ہے وہ کتنی بڑی قسم ہے۔ بہرحال کائنات کے دریافت شدہ حیرت انگیز مظاہر اور قران میں موجود انکشافات کی ان سے مطابقت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے … وہی خدا ہے!