کیا اسی مظالم کو رام راج کہتے ہیں

,

   

نفرت کی مہم … مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
اذان بھی برداشت نہیں … 2024 کی تیاریاں

رشیدالدین
’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق ملک میں جارحانہ فرقہ پرست عناصر کی سرگرمیاں بے لگام ہوچکی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب حکومت کی سرپرستی حاصل ہوجائے تو پھر ڈر کس بات کا۔ قانون کے محافظ اور قانون کو نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو بھلادیں تو شرپسندوں کا ہاتھ کون پکڑے گا ۔ عام طور پر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد میں پولیس اور عدلیہ کا خوف ہوا کرتا تھا لیکن گزشتہ 8 برسوں میں نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے ان اداروں کی اہمیت کو ختم کرتے ہوئے فرقہ پرست عناصر اور نفرت کے سوداگروں کے حوصلوں کو بلند کردیا ہے ۔ پولیس کی جانب سے بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں کھلی چھوٹ دے دی گئی اور عدلیہ کے فیصلے بھی عمومی طور پر بی جے پی حکومتوں کے فیصلوں کے حق میں آرہے ہیں۔ ملک کے عوام کے مسائل کی کسی کو فکر نہیں۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس اور اچھے دن کا خواب دکھانے والے نریندر مودی سنگھ پریوار اور آر ایس ایس کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن چکے ہیں۔ غربت ، بیروزگاری اور بیماری کے علاوہ بھوک اور افلاس جیسے مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے عوام کے ذہنوں کو فرقہ پرستی اور نفرت سے آلودہ کردیا گیا ۔ نفرت کے ایجنڈہ پر سواری کرتے ہوئے 2024 ء میں تیسری مرتبہ اقتدار کی ہیٹ ٹرک کرنے کی تیاری ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ملک میں فرقہ پرست طاقتوں کا مقابلہ اور انہیں چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ سیکولر اور جمہوری طاقتوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زعفرانی تنظیمیں ہندو راشٹرا ایجنڈہ پر عمل پیرا ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے لئے 2024 ء میں کامیابی کے بعد یکساں سیول کوڈ اور ہندو راشٹرا کی تکمیل باقی رہے گی۔ سماج میں ہر سطح پر نفرت کا زہر کچھ اس طرح گھول دیا گیا ہے کہ نئی نسل کے علاوہ تعلیم یافتہ افراد بھی حکومت کی ناکامیوں کو فراموش کرتے ہوئے بی جے پی کو ایک اور موقع دینے کے حق میں ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے Chip میں خرابی نہیں بلکہ عوام کے ذہن اور دماغ کے Chip میں نفرت کو بھر دیا گیا ہے ۔ فرقہ پرستی کے جنون میں حکومت کی ناکامیاں بھی خوبی کی طرح دکھائی دے رہی ہیں۔ ذہن سازی صرف شہروں تک محدود نہیں رہی بلکہ دیہاتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں مختلف عنوانات سے اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن ہر مسئلہ پر تبصرہ کرنے والے نریندر مودی خاموش ہیں۔ من کی بات کرنے والے وزیراعظم نے مظالم کے واقعات کی مذمت کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اترپردیش اور تین دیگر ریاستوں میں کامیابی کے بعد بی جے پی کو الیکشن میں کامیابی کا منتر ہاتھ لگ گیا ہے ۔ 8 سال کے اقتدار میں سنگھ پریوار بے قابو ہوچکا ہے اور اس تصور میں ہے کہ اقتدار دائمی رہے گا ۔ ہلاکو ، چنگیز خاں اور ہٹلر کا اقتدار باقی نہیں رہا ، اسی طرح بی جے پی ملک میں زوال سے دوچار ہوگی۔ چند برسوں کی حکومت میں مسلمانوں کو مٹانے اور ہندو راشٹرا کے قیام کا خواب دیکھے جارہے ہیں۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ حکومت کفر سے باقی رہ سکتی ہے ظلم سے نہیں۔ نفرت کے پرچارک یہ بھول رہے ہیں کہ مسلمانوں نے ایک ہزار برس تک ہندوستان پر حکمرانی کی لیکن دیگر مذاہب کے ساتھ رواداری کو برقرار رکھا۔ مسلم حکمرانوں کے پاس ہندوؤں کو اہم عہدوں پر فائز کیا گیا۔ اگر مسلم حکمراں بھی ظلم اور جبر کو اختیار کرتے تو شائد آج کے زعفرانی پرچارکوں کے آبا و اجداد مسلمان ہوتے اور ہندوستان مسلم اکثریتی ملک ہوتا۔ مسلم حکمرانوں نے کبھی بھی اپنے مذہب کو رعایا پر مسلط نہیں کیا۔ یوں تو بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں نفرت کے ایجنڈہ پر عمل آوری جاری ہے لیکن ان میں اترپردیش اور کرناٹک میں مسابقت کی دوڑ ہے۔ یو پی میں نفرت کا ایجنڈہ الیکشن میں کامیاب ہوگیا جبکہ کرناٹک میں اسی تجربہ کو دہرانے کی تیاری ہے ۔ مہاراشٹرا میں شیوسینا ، این سی پی اور کانگریس مخلوط حکومت کو غیر مستحکم کرنے بی جے پی اور راج ٹھاکرے متحرک ہوچکے ہیں۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں منادر کے اطراف مسلم تاجروں کو بے دخل کرنے کا کام شروع ہوچکا ہے۔ راجستھان میں مسلمانوں کی دکانات کو نذر آتش کرنے کے واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔ مسلمانوں کی معیشت پر ضرب لگانے کے لئے تجارت کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ کرناٹک میں حجاب اور پھر حلال کے بعد اب مساجد سے اذان کی آواز بھی برداشت نہیں ہورہی ہے۔ سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیموں کو متحرک کرتے ہوئے مساجد کے لاؤڈ اسپیکرس کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کی گئی ۔ نماز کے اوقات کے وقت مساجد کے باہر ہنومان چالیسا اور اشتعال انگیز نعرے لگائے جارہے ہیں۔ مساجد پر زعفرانی پرچم لہرانے کے واقعات منظر عام پر آئے لیکن نظم و نسق نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ لاؤڈ اسپیکر کے خلاف کرناٹک کی 250 سے زائد مساجدکو نوٹس جاری کی گئی اور آواز پر کنٹرول کرنے آلات نصب کئے جارہے ہیں۔ صوتی آلودگی کے نام پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا سہارا لیا جارہا ہے۔ عدالت کا فیصلہ صرف مساجدکے لاؤڈ اسپیکر تک محدود نہیں ۔ دیگر مذاہب کی عبادتگاہوں سے بھی لاؤڈ اسپیکرس کو اتارنا ہوگا۔ مذہبی جلوسوں اور تہواروں کے موقع پر شہروں اور دیہاتوں میں کئی دن تک لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر کرناٹک حکومت خاموش کیوں ہے ؟ مساجد کو نشانہ بنانا دراصل اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کی مہم کا حصہ ہے۔ ایک انگلی کسی کو دکھائی جائے تو چار انگلیاں اپنی جانب اشارہ کرتی ہے۔ پولیس کی یکطرفہ کارروائیاں اور وہ بھی عین رمضان المبارک کے موقع پر ، دراصل عبادات کو روکنے کی منصوبہ بندی ہے۔ اسلام میں عبادات کبھی بھی لاؤڈ اسپیکر کی محتاج نہیں رہیں اور وقت مقررہ پر نمازی مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ اس طرح کارروائیاں دراصل حوصلوںکو پست کرنے کی کوشش ہے۔ اگر لاؤڈ اسپیکر کے مسئلہ پر خاموشی اختیار کرلی گئی تو پھر جمعہ اور عیدین کو سڑکوں پر نماز کی ادائیگی پر پابندی عائدکی جائے گی۔ ہریانہ کے گرگاؤں میں نماز ادائیگی کے مقامات کے اجازت ناموں میں بڑی حد تک کمی کردی گئی ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کے جن امور کو نشانہ بنا رہی ہے ، وہ تمام دستورمیں ہر شہری کو دیئے گئے حقوق کا حصہ ہے۔ اپنی پسند کا لباس ، غذا اور مذہب کو اختیار کرنا ہر ہندوستانی کا دستوری حق ہے۔
کرناٹک میں حجاب کے مسئلہ کو زندہ رکھنے کے لئے القاعدہ کے نام نہاد سربراہ ایمن الظواہری کا پیام وائرل کیا جارہا ہے جس میں حجاب کی تائید میں احتجاج کرنے والی مسکان خاں کی ستائش کی گئی۔ ایمن الظواہری کے وجودکے بارے میں آج تک سوالیہ نشان ہے۔ ایک عرصہ قبل امریکہ نے حملہ میں ظواہری کی موت کا دعویٰ کیا تھا جبکہ بعض دیگر گوشوں میں طبعی موت کی بات کہی۔ وہ شخص دنیا میں موجود نہیں ، اس کے نام سے ویڈیو وائرل کرتے ہوئے اکثریتی طبقہ کو مشتعل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ اس سازش کے پس پردہ سنگھ پریوار کارفرما ہو تاکہ حجاب کے مسئلہ کو زندہ رکھا جائے ۔ اپنے ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے ایمن الظواہری کا سہارا لینا انتہائی افسوسناک اور ملک کے ساتھ بدخدمتی ہے۔ ہوسکتا ہے آنے والے دنوںمیں طالبان اور دیگردہشت گرد تنظیموں کے ناموں سے حجاب اور حلال کے حق میں بیانات جاری کئے جائیں گے تاکہ ملک میں نفرت کا ماحول برقرار رہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے کسی بیرونی ادارے کی مدد یا پھر ہمدردی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمان اپنے حقوق کا تحفظ کرنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایمن الظواہری ہو کہ پاکستانی حکومت کسی کو ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں اور نہ ہی ہندوستانی مسلمان ان کی مداخلت سے خوش ہں گے ۔ فلسطین جیسے حساس مسئلہ پر مسلم اور عرب دنیا کی بے حسی سے ہر کوئی واقف ہے۔ دوسری طرف حلال گوشت کے خلاف مہم چلانے والوں کیلئے حال ہی میں ایک رپورٹ منظر عام پر آئی جس میں پتہ چلا کہ حلال کے نام پر کاروبار کرنے والے دراصل اڈانی ، امبانی اور حکومت سے قربت رکھنے والے دیگر ادارے ہیں۔ اڈانی اور امبانی کی کمپنیوں کو حلال سرٹیفکٹ جاری کیا گیا جو مسلم اداروں سے حاصل کردہ ہے۔ مختلف اشیاء پر حلال کا ٹیاگ لگاکر اڈانی اور امبانی دنیا بھر میں اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ اسی طرح بابا رام دیو نے بھی مسلمانوں سے تجارت کیلئے حلال کے نام سے اپنے پراڈکٹس کی فروخت شروع کردی ہے۔ سنگھ پریوار کیا اڈانی ، امبانی اور بابا رام دیو کے کاروبار پر پابندی عائد کرسکتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ یہ حکومت کے پروردہ ہیں تو پھر غریب مسلم تاجروںکو نشانہ بنانا کہاں کی انسانیت ہے۔ منظر بھوپالی نے موجودہ حالات کی کیا خوب ترجمانی کی ہے ؎
کیا اسی مظالم کو رام راج کہتے ہیں
سارے شہر کو تم نے اک چتا بنا ڈالا