کیا دن دکھا رہی ہے سیاست کی دھوپ چھاؤں

   

شنڈے چیف منسٹر … شاخ نازک پہ آشیانہ
شہروں کے نام تبدیل … ادھو ٹھاکرے پر ہندوتوا کا خوف

رشید الدین
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا۔ مہاراشٹرا کی نئی حکومت کا کچھ یہی حال ہے۔ شیوسینا سے بغاوت کرنے والوں کو بی جے پی نے گلے لگالیا لیکن حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔ ہندوتوا کے نام پر دشمن کے دشمن کو بی جے پی نے اپنا دوست بنایا ہے لیکن دوست کس حد تک مضبوط اور طاقتور ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ لہذا بی جے پی نے حکومت کی قیادت کرنے کے بجائے باغی قائد ایکناتھ شنڈے کو چیف منسٹر کی کرسی پر بٹھادیا۔ اگر کل کے دن معاملہ بگڑتا ہے تو زوال حکومت کا وبال شیوسینا کے باغیوں کے سر ہوگا۔ بی جے پی نے سوچ سمجھ کر ہی چیف منسٹر کے عہدہ کو چھوڑ دیا۔ اگر باغی کمزور نکلے تو حکومت کے زوال کی ہزیمت اور پشیمانی سے بچنے کیلئے شنڈے کو اقتدار کے تخت پر بٹھادیا جو کسی بھی وقت تختہ دار بن سکتا ہے۔ شیوسینا کے باغیوں پر بی جے پی کا بھروسہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے پانی میں موجود بھینس کی سینگ پر بولی لگائی جائے۔ باغی ارکان ابھی گوا میں ہیں اور شنڈے نے اکیلے ممبئی پہنچ کر بی جے پی کے ساتھ مل کر تشکیل حکومت کا کام انجام دیا۔ ارکان کی گوا سے واپسی کے بعد اصلی کھیل شروع ہوگا۔ باغی کیمپ میں کتنے باقی رہیں گے کہا نہیں جاسکتا کیونکہ وزارت کی خواہش ہر کسی کو ہوتی ہے۔ کسی فائدہ کے بغیر بغاوت سے بہتر ادھو ٹھاکرے کے ساتھ رہنا ہے۔ شنڈے کا امتحان تو اب شروع ہوگا اور وہ کتنے ارکان کو وزارت میں شامل کرتے ہوئے خوش کرپائیں گے ۔ ادھو ٹھاکرے کا دعویٰ ہے کہ ان کے حامی ارکان یرغمال ہیں ۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو باغیوں کی ممبئی واپسی کے بعد دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ اگر باغیوں میں پھوٹ پڑتی ہے تو ایسی صورت میں حکومت زوال کا شکار ہوجائے گی۔ دیویندر فڈنویس کی محنت آخر کار کئی ماہ بعد رنگ لائی لیکن چیف منسٹر کی کرسی قریب نہ آسکی۔ بی جے پی کو یقین تھا کہ باغیوں کے دباؤ پر ادھو ٹھاکرے این سی پی اور کانگریس سے اتحاد ختم کرتے ہوئے بی جے پی کے ساتھ تشکیل حکومت کیلئے تیار ہوجائیں گے ۔ ایسی صورت میں مستحکم حکومت فڈنویس کی قیادت میں تشکیل پاسکتی تھی۔ موجودہ غیر یقینی حالات میں چیف منسٹر کی کرسی پر فائز ہونا خطرہ سے خالی نہیں ہے۔ دیویندر فڈنویس سابق میں این سی پی میں کمزور بغاوت کے سہارے چیف منسٹر بن گئے تھے لیکن تین دن میں کرسی چھن گئی۔ بی جے پی اس مرتبہ پھونک پھونک قدم رکھ رہی ہے تاکہ پھر کوئی ہزیمت نہ ہو۔ فڈنویس نے ایکناتھ شنڈے حکومت کی باہر سے تائید کا اعلان کردیا تھا لیکن بی جے پی ہائی کمان نے فڈنویس کو ڈپٹی چیف منسٹر کے طور پر حکومت میں شامل ہونے کی ترغیب دی تاکہ ریموٹ کنٹرول ہاتھ میں رہے۔ کابینہ کی تشکیل آسان اس لئے بھی نہیں ہوگی کیونکہ بی جے پی میں وزارت کے منتظرین کا باغی ارکان سے ٹکراؤ ہوسکتا ہے کیونکہ دونوں طرف وزارت کی آگ لگی ہوئی ہے۔ شنڈے کو چیف منسٹر بناکر بی جے پی نے ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں۔ ایک تو شیوسینا کے اصلی ہونے کا دعویٰ تو دوسری طرف سڑکوں پر نکل آئے شیوسینکوں کے غصہ کو کم کرنا ہے اور یہ پیام دینا ہے کہ چیف منسٹر کے عہدہ پر شیوسینک فائز ہے۔ ہندو راشٹرا کا خواب دیکھنے والی بی جے پی کو سیکولرازم سے نفرت ہے اور اس کا بس چلے تو وہ دستور سے جمہوریت اور سیکولرازم کے الفاظ کو حذف کردے۔ اپوزیشن اور خاص طور پر کانگریس پارٹی کے کمزور موقف نے بی جے پی کو بے لگام کردیا ہے۔ عوامی منتخب حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کی مثالیں سابق میں نہیں ملتیں۔ 2014 ء میں نریندر مودی حکومت کے قیام کے بعد سے انحراف کے ذریعہ اپوزیشن حکومتوں کے زوال کا آغاز ہوگیا۔ مہاراشٹرا جیسی اہم ریاست کی مخلوط حکومت بی جے پی کو کھٹک رہی تھی ۔ وہ اسلئے بھی کیونکہ اودھو ٹھاکرے نے ہندوتوا کو ترک کرتے ہوئے سیکولرازم کو اختیار کیا تھا ۔ ایک وزیر کے ساتھ 40 سے زائد باغیوں کا جمع ہونا صرف چند دن کا کھیل نہیں بلکہ کئی ماہ سے سازش کی منصوبہ بندی کی گئی جس کے اسکرپٹ رائٹر دیویندر فڈنویس تھے۔ مرکز میں برسر اقتدار جماعتوں کی جانب سے مخالفین کے خلاف سی بی آئی کے استعمال کی شکایات تھیں لیکن 2014 ء کے بعد سے انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ED) کے استعمال کا آغاز ہوا۔ مہاراشٹرا کی بغاوت میں انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کا اہم رول بتایا جاتا ہے ۔ شیوسینا کے 17 ارکان اسمبلی کے خلاف ای ڈی کارروائی کی دھمکی دی گئی تھی۔ اپنے اثاثہ جات کے تحفظ کے لالچ نے ارکان کو بغاوت پر اکسایا۔ کرناٹک اور مدھیہ پردیش کا گیم مہاراشٹرا میں کھیلا گیا۔ بی جے پی کو بظاہر کامیابی ملی لیکن شیوسینا کی وراثت کو ٹھاکرے خاندان سے چھیننا ممکن نہیں ہے۔ شنڈے شیوسینا اور بال ٹھاکرے کے نظریات پر چلنے کا لاکھ دعویٰ کریں لیکن وراثت تو ادھو ٹھاکرے کے ساتھ رہے گی۔ کوئی کرایہ دار مکان پر قابض نہیں ہوسکتا۔ مہاراشٹرا کے عوام نے راج ٹھاکرے کو بال ٹھاکرے کے حقیقی وارث کے طور پر قبول نہیں کیا اور آج تک بھی وہ سیاسی افق پر ناکام ثابت ہوئے۔ باغیوں نے شنڈے کی تائید میں دستخط نہیں بلکہ اپنے زوال کو دعوت دی ہے۔ تمام باغیوں کے سیاسی مستقبل کو گہن لگ چکا ہے اور آئندہ انتخابات میں عوام مسترد کردیں گے ۔ موجودہ حالات ادھو ٹھاکرے کی استقامت کا امتحان ہیں، وہ سیکولرازم پر قائم رہتے ہیں یا پھر باغیوں کے دباؤ کے تحت دوبارہ ہندوتوا کو اختیار کرلیں گے ، یہ ایک اہم سوال ہے ۔ بی جے پی سے علحدگی اور دوری اصولوں پر اختلاف کی بنیاد پر نہیں بلکہ اقتدار میں حصہ داری کے مسئلہ پر ہوئی تھی۔ اگر دوبارہ اقتدار کا پیشکش ہو تو ٹھاکرے کیا کریں گے ؟ ویسے بھی سیکولرازم کے اصولوں پر کاربند رہنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ سپریم کورٹ میں 16 ارکان کی معطلی کا معاملہ زیر دوران ہے۔ موجودہ صورتحال پر سپریم کورٹ کی نظر ہے اور 11 جولائی کو فیصلہ حکومت کے مستقبل کو طئے کرے گا۔ باغی ارکان کی واپسی کے بعد عوام ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے ، اس پر ہر کسی کی نظریں ہوںگی۔ ’’بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘‘
پرانی عادتیں آسانی سے ختم نہیں ہوتیں، ٹھیک اسی طرح ادھو ٹھاکرے کا چھپا ہوا ہندوتوا منظر عام پر آگیا۔ حکومت کے استعفیٰ سے قبل آخری کابینی اجلاس میں اورنگ آباد اور عثمان آباد شہروں کے نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایسے وقت جبکہ حکومت کو بچانا مشکل ہوچکا تھا، ادھو ٹھاکرے نے دونوں شہروں کا نام تبدیل کرتے ہوئے اپنی پرانی روش پر واپسی کا اشارہ دیا ہے۔ اورنگ آباد کو دھاراشیور اور عثمان آباد کو سمبھاجی نگر کہا جائے گا۔ سمبھاجی دراصل شیواجی کے بڑے فرزند تھے جو کہ دھارا شیور اورنگ آباد کے قریبی ساتھی غار ہیں۔ شہنشاہ اورنگ زیب اور سلطنت عثمانیہ کے آخری فرماں روا نواب میر عثمان علی خاں کے ناموں پر شیوسینا کو طویل عرصہ سے اعتراض تھا۔ افسوس بات یہ ہے کہ ناموں کی تبدیلی کے فیصلے میں کانگریس اور این سی پی شامل رہی۔ اس فیصلہ سے ٹھاکرے ہندوؤں کو یہ پیام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ہندوتوا پر قائم ہیں۔ ملک میں مسلم شخصیتوں سے وابستہ مقامات کے ناموں کی تبدیلی کا سلسلہ جاری ہے۔ زوال سے عین قبل ادھو ٹھاکرے کا یہ فیصلہ ان کے اندر چھپے ہندوتوا کے نظریات کی عکاسی کرتا ہے۔ اورنگ زیب ہوں کہ نواب میر عثمان علی خاں ، ان دونوں کا شمار انتہائی رعایا پرور حکمرانوں میں ہوتا ہے۔ دونوں نے کئی مندروں کو جاگیرات سے نوازا اور ہیرے جواہرات کا تحفہ پیش کیا۔ بہت کم حکمراں ایسے گزرے جو ان دونوں کی رعایا پروری کی مثال پیش کرسکیں۔ نام کی تبدیلی کے ساتھ اگر ان حکمرانوں کی جانب سے دی گئی جاگیرات اور جواہرات کو واپس کردیا جائے تو ان کے وارثین کو فائدہ ہوسکتا ہے جو ان دنوں کسمپرسی کا شکار ہیں۔ اورنگ زیب نے حقیقی معنوں میں اکھنڈ بھارت پر حکمرانی کی تھی جو طویل عرصہ تک برقرار رہی۔ نام کی تبدیلی سے تاریخی حقائق کو بدلہ نہیں جاسکتا ۔ کانگریس اور این سی پی کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ وہ کس کی تائید کر رہے ہیں۔ تینوں پارٹیوں کے درمیان جو معاہدہ طئے پایا تھا ان میں فرقہ وارانہ نوعیت کے مسائل کو پس پشت ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ادھو ٹھاکرے نے اس معاہدہ کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔ کرناٹک اوردہلی میں بھی مسلم حکمرانوں سے منسوب ناموں کو تبدیل کردیا گیا ۔ اگر بادشاہوں کے ناموں سے نفرت ہے تو ان کی جگہ مسلم مجاہدین آزادی کے نام رکھے جاسکتے تھے لیکن بی جے پی کو مسلم ناموں سے الرجی ہے۔ شاہ جہاں کا نام کسی مقام سے نکالنے سے تاج محل کے ساتھ ان کے نام کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ سیاحوں کو یہ بتانا پڑے گا کہ تاج محل شاہ جہاں نے تعمیر کیا تھا۔ ہندوستان میں جو کچھ بھی یادگاریں ہیں ، وہ مسلم حکمرانوں کی دین ہے۔ ناموں کی تبدیلی سے زیادہ ادھو ٹھاکرے کو اپنی پارٹی بچانے کی فکر کرنی چاہئے۔ راحت اندوری کا یہ شعر موجودہ حالات پر صادق آتا ہے ؎
کیا دن دکھا رہی ہے سیاست کی دھوپ چھاؤں
جو کل سپوت تھے وہ کپوتوں میں آگئے