کیا راج بھون آر ایس ایس کا ہیڈکوارٹر بن جائے گا ؟

   

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری
خیر اللہ بیگ

تلنگانہمیں بارش کی اتھل پتھل کے دور میں اسمبلی کا 10 روزہ سیشن بھی گرما گرم بحث و مباحث کی اتھل پتھل کے بعد غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہوگیا ۔ اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے حکومت کی خرابیوں کی جانب توجہ دلائی تو یہ سرکار چراغ پا ہوگئی کرپشن کے الزامات کو برداشت کرنا بھی ایک آرٹ ہے ۔ کے سی آر کے پاس یہ آرٹ بہت زیادہ ہے ۔ ایوان اسمبلی میں لاکھ بحث کے باوجود چیف منسٹر کی حیثیت سے کے چندر شیکھر راؤ نے کرپشن کے الزامات کی کوئی پرواہ نہیں کی ۔ عوامی خدمات کا جذبہ جب سرکاری بجٹ اور فنڈ کے باعث سرد پڑ جائے تو پھر حکومت کے لیے صورتحال دگرگوں ہوتی ہے ۔ اسپیکر اسمبلی پی سرینواس ریڈی نے اسمبلی سیشن کے آخری دن ریاست میں عوامی خدمات کے لیے تصارف بل 2019-20 ، 1.46 لاکھ کروڑ کو منظوری دی ۔ اسمبلی سیشن کے پہلے ایام میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اراضیات کی فروخت کے ذریعہ حاصل 10,000 کروڑ روپئے کی رقم کے بشمول تصارف بل کو متعارف کروایا تھا ۔ چیف منسٹر نے اپنی پالیسیوں و وعدوں کو روبہ عمل لانے کے وعدہ کو پورا کرنے کا پھر ایک بار عزم ظاہر کیا ہے ۔ ملک کی معیشت جھکولے کھا رہی ہے ۔ اس کے باوجود تلنگانہ کی حکومت اپنی بہبودی اسکیمات ، ترقیاتی کاموں اور آبپاشی اسکیمات کو جاری رکھنے کا وعدہ کررہی ہے تو اس پر یقین کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑے گا ۔ چیف منسٹر پر آئندہ پانچ سال تک کوئی آنچ آنے والی نہیں ہے ۔ آئندہ انتخابات تک وہ ریاست کی ذمہ داری بی جے پی کے سپرد کرنے کا تمام معقول بندوبست کررہے ہیں ۔ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے مطابق کام ہورہا ہے ۔ اگر اپوزیشن کو حکومت کے پراجکٹس میں بدعنوانیاں نظر آرہی ہیں اور حکومت پر الزامات عائد کئے جارہے ہیں تو اس کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوگا کیوں کہ ٹی آر ایس حکومت کو معلوم ہے کہ یہ اس کی آخری میعاد ہے اس کے بعد وہ اپنے گرو کی پیروی کرتے ہوئے بی جے پی کو قدم جمانے کا موع دیں گے ۔ ریاست میں بی جے پی کی حکومت آئے گی تو پھر کسی بھی سیاسی لیڈر کو حکومت پر تنقید کرنے کی ہمت نہیں ہوگی ۔ ریاست میں اب سے ہی آر ایس ایس اور بی جے پی نظریہ کی حامل قائدین سرگرم ہوگئے ہیں ۔ راج بھون میں بھی ایک ہی نظریہ کے حامل فرد کو دستوری عہدہ پر بٹھایا گیا ہے ۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے بھی تلنگانہ میں ہندوتوا ایجنڈہ کو پوری شدت سے روبہ عمل لانے کی ہدایت دیدی ہے ۔ تلنگانہ کے گورنر کی حیثیت سے 58 سالہ ٹی سندراجن نے عہدہ سنبھالا ہے تو اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ریاست میں ہندوتوا کو فروغ حاصل ہونے میں کوئی رکاوٹ ہوگی ۔ تلنگانہ کے عوام کو اب تک سیکولر فضاء فراہم کرنے والی دستوری اتھاریٹی خود غیر سیکولر ثابت ہوجائے تو پھر کچھ بھی تبدیلی آئے گی ۔ بہر حال تلنگانہ کے گورنر کی حیثیت سے ای ایس ایل نرسمہن نے اپنا اچھا ریکارڈ بنایا تھا ۔ انہیں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کا حقیقی دوست سمجھا جاتا تھا ۔ ای ایس ایل نرسمہن نے دونوں تلگو ریاستوں تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے گورنر کی حیثیت سے خدمت انجام دی تھی ۔ 7 ستمبر کو انہوں نے اس عہدہ سے سبکدوشی اختیار کرلی ۔ کے سی آر اس بات کے لیے مقبول ہیں کہ وہ دستوری عہدہ کی حامل شخصیتوں کو فوری اپنا بنالینے کی صلاحیت رکھتے ہیں جب کہ آندھرا پردیش کے سابق چیف منسٹر این چندرا بابو نائیڈو کو گورنر نرسمہن سے شکایات تھیں ۔ اس لیے انہوں نے گورنر نرسمہن کو خاص اہمیت نہیں دی تھی ۔ نرسمہن کی جانشین کی حیثیت سے تلنگانہ کو ایک علحدہ گورنر اور آندھرا کو علحدہ گورنر دیا گیا تو معاملہ صاف ہوگیا ۔ اب تلنگانہ کی گورنر سندراجن نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد خود کو عوامی لیڈر بنانے اور عوام کی خدمت کرنے کا اعلان کیا اب وہ ’پرجا دربار ‘ منعقد کریں گی ۔ تلنگانہ ریاست کی پہلی خاتون گورنر کی حیثیت سے جائزہ لینے والی سندراجن نے خود کو عوام کے بیچ مصروف رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ جو خوش آئند بات ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ سابق گورنر نرسمہن کی طرح نئی گورنر سے بھی کے سی آر کے تعلقات محترم طریقہ سے جاری رہیں گے کیوں کہ گورنر کے تیور سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ راج بھون پر سیاسی چاپلوسی کا سایہ گرنے نہیں دیں گی ۔ اگر ایسا مسئلہ ہے تو پھر کے سی آر کی راج بھون میں خاطر تواضع نہیں ہوگی کیوں کہ چیف منسٹر کے گورنر سے تعلقات دراصل ٹی آر ایس کے مرکز کی بی جے پی حکومت سے تعلقات پر منحصر ہیں ۔ بظاہر ٹی آر ایس نے خود کو بی جے پی کی مخالف پارٹی ہونے کا اظہار کیا ہے مگر درپردہ طور پر یہ بات سب جانتے ہیں کہ ٹی آر ایس اور بی جے پی کے درمیان گہری خفیہ یا نیم خفیہ دوستی ہے ۔ اس طرح کی دوستی سے ہی تلنگانہ کے رائے دہندوں کے خلاف توہین آمیز ناروا سلوک کی کہانیوں کو تقویت ملتی ہے ۔ ذرا تصور کیجئے تلنگانہ ریاست کا نو خیز معاشرہ جو آندھرائی تسلط سے چھٹکارا پاکر چند سال ہی ہوئے ہیں فرقہ پرستوں کی بھینٹ چڑھا دیا جائے تو پھر کیا ہوگا ۔ کے سی آر کا بی جے پی کی جانب جھکاؤ اس وقت تقویت اختیار کر گیا جب وہ اپنے وفاقی محاذ کی دوڑ میں ناکام ہوگئے یا انہیں وفاقی محاذ بنانے سے روک دیا گیا ۔ ظاہر بات ہے مرکز کی بڑی سیاسی طاقت کے حکم کو ٹھکرانے کا مطلب ریاست میں سیاسی موت کو گلے لگا لینا ہے ۔ اس لیے کے سی آر نے اپنے وفاقی محاذ کی دوڑ کو ختم کردی ہے ۔ قومی سیاست میں بڑا رول ادا کرنے کا خواب چکنا چور ہوجانے کے بعد بی جے پی کے لیے راستہ صاف ہوگیا اور اس نے تلنگانہ میں آئندہ حکومت بنانے کا اعلان بھی کردیا ہے ۔ اب اس منصوبہ کے تحت بی جے پی نے ٹی آر ایس کے کندھے کا سہارا لیا ہے ۔ جس طرح آندھرا پردیش میں چندرا بابو نائیڈو کو راستے سے ہٹانے کے لیے بی جے پی نے ٹی آر ایس کی مدد سے وائی ایس آر کانگریس کو اسمبلی انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنایا تھا اب تلنگانہ میں بی جے پی اس سیاسی منتر پر کام کرے گی ۔ کے سی آر کو کہیں کا نہیں رکھے گی اور اپنی سیاسی قوت بڑھالے گی ۔ اس کام میں گورنر سندراجن کا کتنا رول رہے گا یہ عوام کو بھی نظر آنے لگے گا ۔ تلنگانہ کے عوام مجبور بے بس ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے سیاسی چالاکیوں کا شکار ہوجائیں گے ۔ مایوس عوام وقت سے پہلے ہی کمزور پڑ جاتے ہیں ۔ کے سی آر کی حکومت نے گذشتہ 6 سال میں عوام کو اس قدر مایوس کردیا ہے کہ اب عوام بھی سیاستدانوں سے مایوس ہونے لگی ہے۔ اس لیے ان پر کونسی پارٹی مسلط ہوگی اور کونسا لیڈر قیادت کرے گا اس کی فکر بھی نہیں ہے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تلنگانہ کا حصول اسی مقصد کے لیے تھا ۔ عوام اپنی ساری امیدیں خاک میں ملا کر آنے والے ممکنہ فرقہ وارانہ خطرات کے لیے خود کو تیار کرلیں یا اپنے اندر کی سیاسی سمجھ داری کو جگاکر خود جاگ جائیں گے ۔ تلنگانہ عوام کو اس وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہئے جب فرقہ پرستوں ہندوتوا ایجنڈہ کے حامل قائدین اور ان کے یار دوست کی شکل میں حکومت کرنے والے لیڈروں کا پنجہ استبداد ان کے سکون سے جینے کے حق کو چھین لے جائے ۔ فرقہ پرستوں نے تلنگانہ عوام کو اپنی غلیظ فرقہ پرستانہ نگاہی کا نشانہ بنانے کا تہیہ کرلیا ہے تو عوام کو اس کا سامنا کرنے کی تیاری کرنی ہوگی۔٭
kbaig92@gmail.com