!کیا مسلمان کمزور ہیں

   

موت سے پہلے کئی بار وہ مر جاتا ہے
آدمی جب کبھی حالات سے ڈر جاتا ہے
ہندوستان میں مسلمانوں کو دستوری جمہوری اور قانونی حقوق حاصل ہیں۔ سماجی سطح پر تو وہ اس ملک کی رگ و جان ہیں مگر حالیہ برسوں میں ہندوستانی مسلمانوں کو جسمانی و ذہنی معاشی طور پر تیسرے درجہ کا شہری ہونے کا احساس دلانے والے واقعات کو اس شدت سے سامنے لایا جارہا ہے کہ عام مسلمان خوف کے سایہ میں سانس لینے لگا ہے۔ اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر میں مبتلاء ہوکر فرقہ پرستوں کے مظالم کو خاموشی سے برداشت کررہا ہے جبکہ یہ ایک مجرمانہ حرکتیں ہیں۔ سماج کے اندر اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو تنگ کرتا ہے اس کے شہری حقوق سے محروم کرتے ہوئے اس کو زدوکوب کرتا ہے تو یہ خلاف قانون ہے۔ اس طرح کی کارروائیوں کے خلاف آواز اٹھانے کا بھی مکمل حق حاصل ہے مگر حالیہ ہجومی تشدد کے واقعات ہوں یا فسادات میں مسلمانوں کی جانوں اور املاک، عزت و وقار کو تباہ کرنے والے سانحات پر ایک مرحلہ پر مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی خاموشی نے انہیں دیگر ابنائے وطن کے سامنے ایک مظلوم طبقہ بنادیا ہے۔ ہجومی تشدد ہو یا جئے شری رام کا نعرہ لگانے، گائے کے گوشت کا استعمال کرنے، دہشت گردی، قوم دشمنی، غداری جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑے ہر موضوع پر مسلمانوں کی ہی خاموشی نے فرقہ پرستوں، انسان دشمنوں، سماج دشمنوں، قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے حوصلے بڑھا دیئے ہیں۔ ہندوستان میں رہنے والے تمام طبقات کے باشندوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ بنیادی حقوق یہ ہیں کہ مسلمان اپنے لئے اس قابل بنائے کہ وہ ہر خراب حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرے جبکہ افسوس اس بات کا ہیکہ نہ ہی عام مسلمان اور نہ ہی خاص و نمائندہ مسلمان ہندوستان میں دستوری، جمہوری اور قانونی حقوق کیلئے خود کو تیار رکھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ ہندوستانی شہری کے جان و مال کی حفاظت کرنا قانون اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جب کسی شہری کی بنیادی ضرورتوں کو پورا نہیں کیا جاتا تو شہری محسوس کرتا ہیکہ وہ اس قابل نہیں ہے یا وہ بے بس ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے واقعات پر صرف آہ و بکا کی جاتی ہے۔ مدد کی دہائی دی جاتی ہے۔ کسی گوشے سے ہمدردی اور امداد راحت کی آس میں وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ اپنے ہی طبقہ کے طاقتور گروپ سے ابتدائی انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن خود اس سلسلہ میں بروقت قدم اٹھانے سے قاصر ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بلاشبہ ریاستی مرکزی حکومتیں اور اس کا قانون ہر طبقہ کے فرد کو سلامتی و سکون کی ذمہ داری پوری کرنے کا اختیار رکھتی ہے لیکن حالیہ برسوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات نے سماج کے صرف ایک طبقہ کو دیگر طبقات خاص کر مسلمانوں کے خلاف نفرت، تشدد، مارپیٹ، موت کے گھاٹ اتاردینے کے واقعات کو اندھادھند طریقہ سے انجام دینے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ اگر اس ملک کا قانون اپنی تھوڑی سی ذمہ داری پوری کرے تو کسی بھی طاقت یا ادنیٰ انسان کی کوئی مجال نہیں ہوتی کہ وہ کسی دوسرے شہری کے ساتھ خراب برتاؤ کرے۔ تشدد، حملے، زدوکوبی تو دور کی بات ہے قانون و نظم و نسق اپنے فرائض کو دیانتدارانہ طریقہ سے انجام دینے لگے تو کوئی بھی شہری کسی کو نشانہ بنانے کی جرأت نہیں کرے گا۔ تشویشناک بات تو یہ ہیکہ جب سے ملک پر فرقہ پرستوں، ہندوتوا نظریہ کے حامل افراد کو حکمرانی کا اختیار حاصل ہوا ہے ہندوستان کے دیگر طبقات خاص کر مسلمانوں کو ہر محاذ پر ہراساں کیا جانا ان کا حق بن گیا ہے۔ جب تشدد پسند، فرقہ پرست طبقہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کو اپنا حق سمجھتا ہے تو اس کے جواب میں مسلمانوں نے اپنے دستوری جمہوری قانونی حقوق سے دست کش اختیار کیوں کیا ہے۔ اب تک جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں ان میں سے کسی ایک واقعہ کو قانون کی عدالتوں میں چیلنج کرتے ہوئے متعلقہ حکومتوں، نظم و نسق کے دستوری ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لاتے ہوئے خاطیوں کو سزاء دلانے کی منظم کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ تشدد سے کام لینے والوں کو قانون اور دستوری حقوق کے دائرہ میں لاکر سبق سکھانے کی کبھی بھی کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی ہمت دکھائی گئی نتیجہ میں مسلمان ایک تیسرے درجہ کا شہری بن کر رہ گیا۔ اپنے بنیادی حقوق کی شناخت سے محرومی کا نتیجہ ہیکہ مسلمانوں پر چند مٹھی بھر فرقہ پرست طاقتیں کمزور کرتے ہوئے احساس کمتری میں مبتلاء کرنے میں کامیاب ہورہی ہیں جبکہ ہندوستان ایک وسیع ملک ہے یہاں کا کثیر الوجود معاشرہ مسلمانوں کے حق میں ہے تو ابنائے وطن کو ساتھ لیکر اپنے حقوق کے حصول کیلئے حکومت وقت اور قانون نظم و نسق کے رکھوالوں اور ذمہ داروں کی نیندیں حرام کرسکتے ہیں مگر افسوس اس سلسلہ میں نہ تو عام مسلمان کو فکر ہے اور نہ ہی خاص مسلم نمائندوں کو اس ذمہ داری کا احساس ہے۔
ہندوستانی مالیاتی نظام کو خطرات لاحق
ریزرو بینک آف انڈیا نے ملک میں بڑے نان بینکنگ مالیاتی کمپنی یا قرض دہندہ اداروں کی وجہ سے ہندوستان کا مالیاتی نظام درہم برہم ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ آر بی آئی نے اپنی تازہ مالیاتی استحکام کی رپورٹ میں یہ وارننگ دی ہیکہ جو نان بنکنگ قرض دہندے سرگرم ہیں وہ ملک کے تجارتی بنکوں کیلئے بوجھ بن رہے ہیں۔ ایک مالیاتی ادارے نے بنکوں سے حاصل کردہ قرصوں کو وقت پر روانہ کرکے مالیاتی خدمات کو دھکہ پہنچایا ہے۔ بنکوں کی طرز پر رول ادا کرنے والے یہ شائیڈو بنکس اپنی قرض کی رقم ضرورت سے زیادہ منجمد کررہے ہیں۔ اس طرح کے قرض دہندہ بنکوں کے علاوہ ہاؤزنگ فینانس والے بھی بنکوں سے حاصل کردہ بھاری رقومات پر سود کی ادائیگی میں ناکام ہورہے ہیں۔ آر بی آئی نے این بی ایف سیز اور ایچ ایف سیز میں پیدا ہونے والے بحران کو ہندوستانی مارکٹس کیلئے سب سے بڑا خطرہ ظاہر کیا ہے تو حکومت کو اس خصوص میں فوری توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ رہن کا کاروبار کرنے والے فرمس کے بارے میں بھی آر بی آئی نے تشویش ظاہر کی ہے۔ عالمی سطح پر ہندوستان کو ایک طرف تجارتی جنگ کا سامنا ہے تو دوسری طرف تجارت کے معاملہ میں امریکی کارروائیوں سے مارکٹس کو خطرات پیدا کردی ہیں۔ آر بی آئی نے غیر بنک کاری اداروں کے داخلی بحران کے باوجود ہندوستان کے قومیائے گئے بنکوں میں استحکام ہونے کا بھی یقین ظاہر کیا ہے لیکن اس کی مالیاتی استحکام کی رپورٹ میں ملک کے غیر بنکنگ شعبہ کے بارے میں جس طرح کے اندیشے ظاہر کئے گئے ہیں وہ مجموعی اعتبار سے تشویشناک ہیں۔ آر بی آئی نے اگرچیکہ اس طرح کے بنکوں کے مزید رجسٹریشن کو روک دیا ہے لیکن جو قومی بنکنگ ادارے ہیں ان کی کارکردگی کا فوری جائزہ لیتے ہوئے مالیاتی احتیاطی اقدامات کرنا ضروری ہے۔