کیا ٹی آر ایس ارکان اسمبلی بغاوت کریں گے ! ؟

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
اِدھر کے سی آر کو دوبارہ اقتدار مل چکا ہے ۔ اُدھر مودی کو بھی دوبارہ راج مل جائے تو پھر عوام پکوڑے اور انڈے بیچنے پر مجبور ہوں گے ۔ کیوں کہ دونوں حکمرانوں نے عوام سے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کئے ۔ کوئی انہیں یہ سمجھانے والانہیں کہ جناب ملک اور ریاستوں میں کاروباری افراد پریشان ہیں پڑھے لکھے نوجوان بیروزگاری کا شکار ہیں ۔ رکن اسمبلی بننے کے باوجود ٹی آر ایس کے قائدین بھی دو ماہ سے بیروزگار ہیں ۔ موسم کی تبدیلی سردی کی رخصتی اور گرمی کی آمد کا دستک ہورہی ہے ۔ مگر کے سی آر کابینہ میں تبدیلی کے صرف قیاس آرائیاں ہورہی ہیں ۔ اب یہ کابینہ کل تشکیل پائے گی ۔ بظاہر مودی سے دوری کا ناٹک کرنے والے کے سی آر کی اندر ہی اندر مودی سے خوب جم رہی ہے ۔ اس جمع جمائی کے باعث ہی کے سی آر کے اندر اتنی قوت آگئی ہے کہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں اور نہ ہی کوئی ان کے خلاف اُف کرنے تیار ہے لیکن بغیر کابینہ کے یہ حکومت کب تک چلے گی ۔ کابینہ بنتی ہے اور اس میں شامل نہ کئے جانے والے قائدین مایوس ہوں گے ۔ اگر خدانخواستہ نو منتخب ٹی آر ایس ارکان اسمبلی کے اندر باغیانہ سرگرمیاں شروع ہوجائیں تو کے سی آر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی ہمت کی جائے گی ۔ مگر سوال یہ کہ ٹی آر ایس قائدین میں کے سی آر کے خلاف بغاوت کرنے کا حوصلہ ہے ؟ ذرا غور کیجئے اگر ٹی آر ایس میں بغاوت ہوجائے تو کے سی آر کے خلاف کون کون اُٹھ کھڑے ہوگا ۔ گرما گرمی پیدا ہوجائے تو ٹی آر ایس حکومت کے لیے مشکل وقت آئے گا ۔ حکمراں پارٹی کے خاص گوشوں میں یہ کھچڑی پک رہی ہے کہ اگر کابینہ کی تشکیل میں تاخیر ہوجائے تو نو منتخب ارکان بغاوت پر اتر آئیں گے ۔ ٹی آر ایس میں گروپ بندیاں ہونے لگیں تو ہریش راؤ کی صف مضبوط ہوجائے گی ۔ 80 رکنی ٹی آر ایس کو دھکہ پہونچ جائے تو اس سے زیادہ برا کیا ہوسکے گا کہ 80 کے منجملہ 60 ارکان اسمبلی کے سی آر سے منحرف ہو کر اپنا الگ گروپ بنالیں گے اور ہریش راؤ کو اس گروپ کی قیادت کا موقع دیا جائے گا تو پھر باپ بیٹے کیا کریں گے ۔ کسی بھی رونما ہونے والے سیاسی واقعہ کے لیے صرف ایک بہانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سیاسی پیشن گوئیاں بہت ہوسکتی ہیں لیکن کے سی آر کا سیاسی ماسٹر پلان کوئی نہیں جانتا ۔ تلنگانہ میں پارلیمانی انتخابات کے لیے انہوں نے جو ماسٹر پلان بنایا ہے ۔ اس میں تلنگانہ کابینہ کی عدم تشکیل کا معاملہ بھی شامل ہے ۔ لوک سبھا انتخابات کے لیے اس ماہ کے آواخر میں تاریخوں کا اعلان کیا جائے گا ۔ اس لیے کابینہ کی تشکیل سے متعلق کے سی آر نے مون برت رکھا ہے ۔ ان کی خاموشی کے اندر ایک ایسا ماسٹر پلان ہوگا جو ریاست میں اپوزیشن پارٹیوں اور ان کے مخالفین پر بھاری پڑے گا ۔ کے سی آر نے اسمبلی انتخابات کے دوران جس طرح کی جارحانہ انتخابی مہم چلائی تھی اب لوک سبھا انتخابات میں بھی اس سے زیادہ جارحیت کے ساتھ انتخابی مہم چلائیں گے ۔ تمام اسمبلی حلقوں کا احاطہ کیا جائے گا ۔ تلنگانہ کے تمام پارلیمانی حلقوں میں کم از کم 80 جلسہ عام منعقد کئے جائیں گے ۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے لیے حکمت عملی تیار کرنے ایک کور ٹیم بھی تشکیل دی ہے جو کے سی آر کے جلسوں کا روٹ میاپ بنا رہی ہے ۔ اگر کے سی آر اپنی کابینہ کی توسیع کا ارادہ کرچکے ہیں تو وہ بہ یک وقت دو کام بھی کرسکتے ہیں یعنی ایک طرف کابینی افراد کا انتخاب اور دوسری جانب لوک سبھا انتخابات کے لیے انتخابی حکمت عملی کو تیار کرلیں گے ۔ ٹی آر ایس کا مقابلہ کرتے ہوئے اسمبلی انتخابات میں شکست کھانے والی اپوزیشن کانگریس کو بھی لوک سبھا انتخابات میں اپنی کامیابی کے لیے پہلے سے زیادہ محنت کرنی ہے ۔ اس لیے کانگریس قائدین اپنی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی سے تلنگانہ میں انتخابی مہم چلانے کی اپیل کریں گے ۔ اپیل اس لیے کریں گے کیوں کہ تلنگانہ پردیش کانگریس قائدین کا موقف اتنا کمزور ہے کہ وہ ہائی کمان سے آنکھ سے آنکھ ملا نہیں سکتے ۔ پرینکا گاندھی سے منت سماجت کرتے ہوئے تلنگانہ میں لوک سبھا انتخابات کے لیے انتخابی مہم کے لیے راضی کرانے کی کوشش کریں گے ۔ اسمبلی انتخابات کے لیے صدر کانگریس راہول گاندھی نے انتخابی مہم تو چلائی تھی مگر ان کے لیے انتخابی مہم کا جو شیڈول بنایا گیا تھا وہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں تھا ۔ لوک سبھا انتخابات کے لیے پردیش کانگریس کو اپنی سابق غلطیوں سے سبق لے کر اچھی محنت کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ پرینکا گاندھی کے ایک یا دو جلسوں سے خطاب کرنے پارٹی کی ابتر حالت بہتر تو نہیں ہوگی تاہم کچھ نہ کچھ تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے ۔ کانگریس کے بعد تلنگانہ میں ایک اور قومی بلکہ مرکز کی حکمراں پارٹی بی جے پی کا برا حال ہے ۔ اس نے اسمبلی انتخابات میں اپنے امیدواروں کی ضمانت بھی نہیں بچا پائی ۔ صرف ایک لیڈر راجہ سنگھ ہی کامیاب ہوسکا ہے ۔ عام انتخابات کے لیے بھی بی جے پی کے کوئی امکانات نہیں ہیں ۔ بی جے پی کو تو دو تلگو ریاستوں تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں اپنی بقا یا اپنے وجود کا احساس ستا رہا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کا سحر ان ریاستوں میں نہیں چل سکا ہے ۔ اس سے بی جے پی کے لیے یہ بری خبر ہے کہ وہ دونوں ریاستوں میں کھاتہ نہیں کھول سکے گی ۔ اگرچیکہ بی جے پی نے 2014 انتخابات میں ملک بھر میں 282 لوک سبھا حلقوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ایک منقسم نئی ریاستوں تلنگانہ اور آندھرا میں بی جے پی کا وزن صفر کے برابر ہے ۔ حالانکہ بی جے پی کو اپنی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کی بھر پور مدد حاصل تھی ۔ آر ایس ایس کے پسندیدہ قائدین اور بی جے پی کی حکمت عملی بنانے والے اعلیٰ قائدین رام مادھو اور مرلیدھر راؤ کا تعلق ان ریاستوں سے ہی ہے لیکن یہ دونوں بھی پارٹی کو مضبوط نہیں بنا سکے ۔ بی جے پی کو اندازہ ہے کہ وہ ان دو تلگو ریاستوں میں لوک سبھا کی ایک بھی نشست حاصل نہیں کرسکے گی لیکن ایک قومی پارٹی اتنا جلدی میدان چھوڑ نہیں سکتی ، ناکامی کا یقین ہونے کے باوجود اسے میدان سیاست میں ٹہرنا لازمی ہے ۔ تیزی سے گرتی اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے بی جے پی کو ان قیمتی لمحات سے خوشیاں کشید کرنے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ گذرا ہوا لمحہ پھر کبھی واپس نہیں آئے گا ۔ گذشتہ ناکامیوں سے رنجیدہ بی جے پی کے حق میں رنجیدہ ماحول ہی نصیب ہے تو اس کی درپردہ دوست پارٹی ٹی آر ایس اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کرے گی ۔ بی جے پی ، ٹی آر ایس کی خفیہ دوستی کے پس منظر میں تلنگانہ کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو احساس ہوگا کہ ان سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ہی اپنے سیاسی مفادات کی خاطر فرقہ پرستوں کو گلے لگایا ہے ۔ مختصر یہ کہ کے سی آر نے اپنی کابینہ کو جلد سے جلد تشکیل نہیں دیا تو ان کے خلاف بغاوت کے آثار نمایاں ہوں گے ۔ اقتدار ملنے کے 60 دن بعد بھی مایوسی کا عالم ہے تو ارکان اسمبلی کی یہ مایوسی بغاوت کا