کیا ہم اُلُّو ہیں ؟

   

پیارے بچو! آج کل انسان کو اُلوؤںسے بہت محبت اور لگاؤ ہوگیا ہے، اس لئے وقت کے ساتھ ساتھ انسانوں میں اُلوؤںکی عادتیں پیدا ہوگئی ہیں چنانچہ موجودہ دور کے بچوں اور نوجوانوں کو راتوں کو جاگنے کی عادت پڑچکی ہے۔گھر پر ہوں تو موبائل دیکھتے ہوئے جاگتے رہتے ہیں،گھر سے باہر ہوں تب بھی موبائل فون دیکھتے رہتے ہیں۔ ہوٹلس، مارکٹس ، پارکس اور دیگر مقامات پر بھی موبائل فون ہی دیکھتے رہتے ہیں۔ہوٹلس میں تو ہمارے نوجوان چائے پی پی کر ہوٹل کے مالک کی کمائی بڑھاتے ہیں۔کوئی اُن سے پوچھے: ’’بیٹا! رات میں کب سوتے ہو؟‘‘ تو معصومیت سے کہتے ہیں: ’’سونے کیلئے تو ساری رات پڑی ہے، جب موبائل سے بور ہوجائیں تو سوجاتے ہیں؟‘‘ اب اُن کو کوئی بتائے کہ اِنسان تو رات میں سوتے ہیں، ہاں! اُلّو دن میں سوتے اور رات میں جاگتے ہیں۔ جب دیکھو تو سب کے ہاتھوں میں اسمارٹ فونس ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے غافل و پرواہ لیکن انہیں دنیا کی بڑی فکرہوتی ہے۔ صحیح انسان انسانی سماج کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے جبکہ اُلوؤںکو ویرانی اور سناٹوں میں رہنا پسند ہے۔ آج کل نوجوان سوسائٹی و سماج میں رہتے ہوئے بھی اکیلے اور تنہا رہتے ہیں، لیکن ان کی زندگی کا ہمیشہ کا ساتھی اگر کوئی ہے تو وہ کوئی اور نہیں ان کا اسمارٹ فون ہے۔ وہ ہر حال میں ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اُلّو بے چارہ معصوم سا پرندہ ہے، ویرانوں میں رہتا ہے، لیکن وہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا۔ اُس کو بلاوجہ ’’منحوس‘‘ پرندہ کہہ دیا گیا۔ اب اُلّو منحوس ہے یا نہیں، یہ تو ہمیں نہیں معلوم لیکن آج کل کے بچے اور نوجوان، اپنے گھروالوں کو اسی اسمارٹ فون کے چکر میں اتنا ستاتے ہیں کہ اکثر اُن کے والدین اُن سے عاجز آجاتے ہیں لیکن وہ اپنی ضد نہیں چھوڑتے اور نئے نئے اور مہنگے مہنگے فونس اپنے والدین سے خریدنے لگواتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کے گھر والے پریشان رہتے ہیں،اُلّو تو بے چارہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا لیکن یہ بگڑے ہوئے انسان، اُلّوؤں کی طرح جاگتے ہوئے کوئی کام وقت پر اور صحیح ڈھنگ سے نہیں کرتے، اور بعض والدین تو اپنے ہی بچوں کی فون کی لت کو دیکھ کر انہیں منحوس کہہ رہے ہیں۔ اُلّو کے بارے میں انسان نے مشہور کر رکھا ہے کہ اس کے خون سے لکھا جادو منتر اثر کرتا ہے،اس میں اُلّو کا کیا قصور ہے، اصل مجرم تو بگڑے ہوئے اِنسان ہیں لہٰذا پیارے بچو! ایسے بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ تم ہرگز مت رہنا، بھلے ہی تمہیں اُلّو کی طرح تنہا رہنا پڑے لیکن ایسے بگڑے ہوئے دوستو یا رشتہ داروں کے ساتھ کبھی بھی نہیں رہنا جنہیں نہ اپنے مستقبل کی فکر، نہ ماں باپ کی فکر ، بس دیکھا دیکھی، نئے نئے اسمارٹ فونس لے کر، کانوں یا گلے میں بلو ٹوتھ لگائے بائیکس پر بے مقصد پھرتے رہتے ہیں اور اپنے والدین کی گاڑھے خون کی کمائی برباد کرتے رہتے ہیں، اور اکثر ایسے بچے آگے چل کر ماں باپ پر بوجھ ثابت ہوتے ہیں۔ہمیں پڑھائی کی عمر میں پڑھائی کرنی ہے اور اپنے والدین کا نام ہر حال میں روشن کرنا ہے۔