کیوں این ایچ آر سی جس کی قیادت ارون مشرا کررہے ہیں‘ آسام تشدد پر خاموشی کیوں ہے؟۔

,

   

مذکورہ این ایچ آر سی کی ویب سائیڈ پر لکھا ہوا ہے کہ ”انسانی حقوق کے فروغ او رتحفظ کے لئے ہندوستان کی تشویش کا ایک مجسمہ ہے“۔


ستمبر24کے روز 12سالہ شیخ فرید ایک لڑکا جس کے پاس نیا ادھار کارڈ موجود تھا اور 35سالہ معین الحق کو آسام کے دارنگ ضلع میں پولیس فائرینگ سے ہلاک ہوگئے ہیں۔

یہ دونوں متاثرین اور ایسے بے شمار دیگر افراد پر الزام ہے کہ وہ غیرقانونی تارکین وطن ہیں اور ریاست کی اراضی پر قبضہ کئے ہوئے ہیں جس کے جواب میں پولیس نے ان پر کھلی فائرینگ کی ہے۔

اس انخلاء میں ایک ریاستی فوٹوگرافر بھی شامل ہے جس کے ضلع میں انخلاء مہم کے سوال پر دستاویزی شکل دینے کے لئے خدمات حاصل کئے گئے تھے۔

ایک ویڈیو وائرل ہوا ہے جس میں مذکورہ فوٹوگرافر بیجاؤ بانیا پہلے سے زخمی معین الحق پر حملہ کررہا ہے‘ معین الحق ان لوگوں میں شامل ہیں جو پولیس کی فائیرنگ میں زخمی ہوئے ہیں۔

مذکورہ آسام پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے ایک حملہ کیاتھا جس کی وجہہ سے تصادم پیش آیا جس میں کئی لوگوں کی غیرمتوقع موت اورلوگ زخمی ہوئے ہیں مگر احتجاجیوں کا دعوی کچھ اور ہی ہے۔

درحقیقت ایسا بارہا کہاگیا ہے کہ کئی لوگ ہیں جنھیں نکالا جارہا ہے اور انہیں غیر قانونی بنگلہ دیشی قراردیا گیاہے‘ ان کے پاس درست ادھار کارڈس ہیں اور قومی رجسٹرار برائے شہریت میں ان کے ناموں کا اندراج ہے۔

سیاست ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے شہری حقوق کی جہدکار تیستاستلواد نے مانا کہ 95فیصد نکالے گئے لوگ غیر قانونیا شہری ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ”بنگالی بولنے والے ہندوؤں کے ساتھ کئی سالوں سے آسام میں رہنے والے 70لاکھ کے قریب مسلمان جو ایسی ہی تاریخ کے حامل ریاست میں ہیں۔

بدقسمتی سے ان پر بنگلہ دیشی ہونے کا شبہ کیاجارہا ہے اوران کے انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے“۔ سی پی ائی(ایم) لیڈر برندا کارت نے تاہم کہا ہے کہ نکالی جانے کی مشق خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے کی جارہی ہے۔

بے دخلی کی مہم کے متعلق بات کرتے ہوئے جس کے نتیجے میں یا تو اموات ہوئی ہیں یا پھر لوگ بے گھر ہوئے ہیں کرات نے نوٹ کیاکہ”مذکورہ انخلاف غیر ائینی تھا اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے اور اس کا مقصد ایک واحد کمیونٹی کونشانہ بنانا ہے“۔


این ایچ آر سی کی عدم کاروائی
فی الوقت تنازعہ کا اہم نکتہ حکومت او راپوزیشن قائدین کی عدم کاروائی قابل غور ہے‘ کیا قومی انسانی حقوق کمیشن(این ایچ آ رسی)اس مسلئے کو حل کرنے کے لئے قدم آگے بڑھائے گا؟۔

ستمبر26کے روز مذکورہ این ایچ آر سی کو پہلے ہی ترنمول کانگریس کی سربراہ او رمغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی کی مخالفت کا انخلاء کئے گئے لوگوں کی امداد میں مداخلت نہ کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

انہوں نے گرج کر کہا کہ”کہاں ہے این ایچ آر سی؟ کیا وہ آرہا ہے؟اگر کوئی چیزیہاں پر پیش آتی ہے تو پھرتی کے ساتھ این ایچ آرسی کو بنگال بھیجا جاتا ہے“۔

این ایچ آرسی چیرمن ارون مشرا کی کمیشن کی 28 یوم تاسیس کے موقع پر کی گئی تقریر پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کرات نے استدلال پیش کیاہے کہ انخلاء کی مہم کو دوران مرکزی قیادت کی ستائش قابل افسوس ہے۔

آسام میں پیش ائے سانحہ کے بعد بھی ارون مشرا نے اس تقریب میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی ستائش کی تھی۔

سیاست ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے این ایچ آرسی ڈائرکٹر برائے میڈیا اور رابط جامنی سریواستو نے کہاتبصرہ دیا کہ وہ مخصوص شکایتوں پر تفصیلات سے واقف نہیں ہیں اور وہ آسام انخلاء میں این ایچ آر سی کے روک پر تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں۔