کی محمدؐ سے وفاتو نے تو ہم تیرے ہیں

   

محمد مبشر الدین خرم

ہندستان میں شان رسالتﷺ میں ہونے والی گستاخی پر عالم اسلام اور عرب دنیا کا رد عمل کسی معجزہ سے کم نہیں ہے کیونکہ ملک کے موجودہ ماحول میں اللہ رب العزت نے عالم اسلام کے مسلمانوں اور حکمرانوں کے ذریعہ عالم انسانیت کو یہ پیغام دیا ہے کہ عالم اسلام میں خواہ کتنے ہی فکری اختلافات ہوں یا مسلمان سرحدوں میں منقسم ہوں لیکن ان تمام کے لئے اللہ نے جو رہنماء و رہبر عطاء کیا ہے اور جسے اپنا محبوب بنایا ہے اس نبیﷺ کی عزت و ناموس پر وہ سرحدوں سے پار ‘مسلکی‘ فکری‘ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔رسول اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن مسلمانان عالم نے کسی بھی مقام پر اس مذموم حرکت کو برداشت نہیں کیا اور نہ ہی برداشت کریں گے اور اگر مسلمان شان رسالتﷺ میں گستاخی کے باوجود خاموش رہنے لگ جائیں تو تباہی ان کا مقدر ہوجائے گی اور یہاں مسجدقرطبہ کی ویرانی اور اسپین میں اقتدار سے محرومی کے واقعات کا تذکرہ امت کے زوال کے اسباب کی حد تک کافی ہے لیکن گذشتہ چند برسوں کے دوران امت مسلمہ نے گستاخی پر جو ردعمل ظاہر کیا ہے وہ یہ امید پیدا کرتا ہے کہ اسپین جیسے حالات کے لئے عام مسلمان ذمہ دار نہیں ہوں گے بلکہ اگر اسپین جیسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری امت کے اس طبقہ پر ہوگی جو عافیت پسند‘مصلحت پسند رہا اورصبر‘ برداشت‘امن ‘ بھائی چارہ ‘ ملک کو ملت پر فوقیت دینے میں مصروف رہا اور اس طبقہ پر ملک کی خبط اس قدر سوار رہا کہ وہ اس بات کو فراموش کرگیا کہ :
بازو تیراتوحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرادیس ہے ‘تو مصطفوی ہے
برہمن واد کو فروغ دینے والے نظریات نے ملک بھر میں جو حالات پیدا کئے تھے ان حالات کا اگر باریکی سے مشاہدہ کیا جاتا ہے تو ایسے دور میں مسلمانوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ مظلوموں کو ساتھ لیتے اور ان کی ظالم کے ظلم سے روکنے کے لئے نکل پڑتے لیکن طلاق ثلاثہ سے بلڈوزر کے معاملات تک مصلحت پسندی کا شعار اختیار کرنے کے بعد اس وطن کے اس پیراہن کو اختیار کرلیا گیا تھا کہ وہ مذہب کا کفن بن چکا تھالیکن اللہ کی غیبی مدد نے ان لوگوں میں بھی حب رسولﷺ کو پیدا کردیا جو شان رسالتﷺ میں گستاخی کے 11 دن تک مکمل طور پر خاموش رہے اور اس مسئلہ کو اس طرح سے نظرانداز کرتے رہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ نبی معظمؐ کی شان میں گستاخی کے باوجود مذہبی قیادت پر پائے جانے والے سکوت کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اب وہ گیان واپی کیا کسی بھی مسئلہ پر امت کے نوجوانوں کے خون کو نہ ابالیں گے اور نہ ہی ابلنے دیں گے لیکن اللہ جس سے چاہے کام لے لیتا ہے اور ہندستان میں شان رسالت ﷺ میں گستاخی کے بعد اللہ تعالیٰ نے کئی چہروں کو بے نقاب کردیا ہے اور امت کے سامنے یہ ظاہر کردیا ہے کہ توہین رسالتﷺ پر خاموش رہنے والے تمہارے حقوق پر کیا آواز اٹھائیں گے۔8 برسوں کے دوران متعدد مسائل پر رہبری اور رہنمائی کا دعویٰ کرنے والوں نے امت کو سڑک پر آنے اور اپنے جمہوری حقوق کے استعمال سے روکے رکھنے کی کامیاب کوشش کرتے ہوئے ان کے جذبہ ایثار و قربانی کو کمزور کیا لیکن جب کبھی نوجوان میدان عمل میں آئے انہیں اللہ نے کامیابی عطا کی۔
عرب ممالک میں #الارسول اللہ یامودی کے ٹوئیٹر ہیش ٹیاگ نے جو ولولہ اور ہیجان پیدا کیا اس کا اندازہ کویت اور قطر کے سوپر مارکٹس سے ہندستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم سے لگایا جاسکتا ہے علاوہ ازیں کویت کے کچہرے دانوں پر ہندستان کے معزز وزیر اعظم کی تصاویر چسپاں کرتے ہوئے جو تذلیل کی گئی وہ دنیا بھر میں ہندستان کو شرمسار کرنے والی رہی ۔ہندستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم ترکی ‘ مصر‘ ملیشیاء‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات کے علاوہ دیگر ممالک میں جس انداز سے چلائی گئی وہ ہندستانی معیشت کو تباہ کرنے والی ثابت ہوسکتی تھی کیونکہ ان ممالک میں اڈانی اور امبانی کی مصنوعات کی فروخت کافی زیادہ ہوتی ہے اور ان کا بائیکاٹ نہ صرف ملک کی معیشت کی تباہی کا باعث بن سکتا تھا بلکہ ان دونوں سرمایہ کاروں کی تباہی کا بھی سبب بننے کے آثار پیدا ہوچکے تھے ۔ ان تمام امور کے علاوہ روس۔یوکرین جنگ کے بعد سے ہندستان کی خارجہ پالیسی کو نظر میں رکھتے ہوئے تمام حالات کو دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس صورتحال میں امریکی خارجہ پالیسی اور ہندستان کے متعلق امریکی اداروں کی رپورٹس کا بھی مشاہدہ کیا جانا چاہئے جو بار بار اس با ت کی نشاندہی کر رہی تھی کہ ہندستان میں اقلیتوں کا عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہاہے اور انہیں سرکاری سرپرستی میں ہندوتوا مظالم کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ امریکی و یوروپی ممالک کی زمینی حقائق پر مبنی رپورٹس کی مسلسل اشاعت اور حالات روس سے قربت کا بدلہ لینے کے لئے امریکی تحدیدات تک کی نوبت لا سکتے تھے اسی لئے بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے ترجمانوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے انہیں معطل تو کردیا لیکن گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاسکی ہے۔
ہندستانی مسلمانوں میں جو بے بسی و مایوسی کے بیانات کے سبب پژمردگی پیدا ہوئی تھی اسے امت کی بے حسی اور بے کسی تصور کیا جا رہا تھا لیکن عالم اسلام کی ایک کاروائی نے ہندستانی مسلم نوجوانوں کو جو ہمت و حوصلہ عطاء کیا اس کا اظہار ملک بھر کے بیشتر تمام شہروں میں بعد نماز جمعہ دیکھا گیا جہاں جانثاران مصطفیﷺ نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ ان کے قلوب زنگ آلود نہیں ہیں بلکہ جو لوگ ان کو سڑکوں پر نکلنے اور اپنے جمہوری حق کا استعمال کرنے سے روک رہے ہیں وہ ضعف الفکر کا شکار اور ذہنی غلامی میں مبتلاء ہوچکے ہیں ۔ جمعہ کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہندستانی مسلم نوجوانوں کی خودی اب بھی صورت فولاد ہے لیکن وہ اب تک اکابرین و قائدین کے احترام میں خاموش رہے تھے اور اب ان مظاہروں کے ذریعہ وہ ان قائدین و تنظیموں کو یہ پیغام دینے لگے ہیں کہ ان کی تن آسانی کے لئے مزید ملت کی قربانی کا سبب نہیں بنیں گے اور نہ ہی ان تنظیموں اور اداروں کا باراپنے کندھوں پر اٹھائے صبر ‘ برداشت ‘ مصلحت جیسے الفاظ کو اپنی زندگیوں میں جگہ دیں گے۔ یقینا حب رسول ﷺ صرف یہی نہیں کہ شان رسالتﷺ میں گستاخی پر احتجاج کیا جائے بلکہ اتباع رسولﷺ ہی دراصل حب رسولﷺ ہے اور اللہ کے رسولﷺ نے ظالم کی مدد کا حکم دیا ہے جو کہ اسے ظلم سے روک کرہی کی جاسکتی ہے لیکن ہمیں ظلم برداشت کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے اور کہا جا رہاہے کہ ملک بچے گا تو ملت بچ پائے گی اور ملک ہی نہیں رہے گا تو ملت کہاں ہوگی!
عالم اسلام کے شدید ردعمل کے سیاسی حالات کیا ہوں گے اس کا اندازہ بھی لگانا انتہائی ضروری ہے اور یہ بھی لازمی ہے کہ اندرون ملک صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی تیار کی جائے کیونکہ گستاخی کے معاملہ میں عالم عرب کے ردعمل نے ملک میں فاشسٹ قوتوں کو متحد کردیا ہے لیکن اس کے باوجود ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو مظلوم ہے اور اس کی مدد بھی ہماری ذمہ داری ہے ۔ مولاناسید ابوالحسن علی میاں ندویؒ فارغین دارارلعلوم سے کئے گئے ایک خطاب میں فرماتے ہیں جو اس تقریر کے کتابچہ میں تحریر ہے’’اپنے کو نیلامی کی منڈی میں نہ پیش کیجئے‘‘اس تقریر میں آپ ؒ فرماتے ہیں کہ ’اصلاح کا کام‘ عزیمت کا کام اور سطح سے بلند ہوکرامت کے نفع کا کام اور زہد و ایثار دونوں میں اللہ تعالیٰ نے کوئی فطری اور طبعی رشتہ قائم کردیا ہے جو اسلام کی پوری تاریخ میں ٹوٹنے نہیں پایا ۔اس لئے میں آپ سے صاف کہتا ہوں کہ اس کے لئے بھی آپ اپنے کو تیار کریں۔کیونکہ دوسری قوموں میں بھی کوئی کام زہد و ایثار کے بغیر نہیں ہواہے۔اگرچہ ان کا مزاج الگ ‘ان کے نتائج مختلف اور ان کے احکام بھی دوسرے ہیں‘ اس لئے اپنے آپ کو ارزاں فروشی سے بچائیں۔صرف دولت دنیا کو اور عہدوں کو اپنا مطمع نظر نہ بنائیں‘ جہاں سے کام آجائے ‘ مانگ آجائے اور امید ہوجائے بس آپ آنکھ بند کرکے چلے نہ جائیںاور زہد و ایثار سے کام لیں۔