کے کویتا کی ناکامی ٹی آر ایس کیلئے دھکہ

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
عام انتخابات کے مشکی گھوڑوں کی ایڑیوں سے آڑتی ہوئی دھول بیٹھنے لگی ہے ۔ انتخابات میں ناکام امیدواروں کے چہرے مرجھا چکے ہیں ۔ خزاں زدہ ماضی کے سڑک پر اڑتے ہوئے خشک پتوں کے مانند یہ ناکام امیدوار آئندہ پانچ سال تک اپنی قسمت کی تاریکی میں گم ہوجائیں گے ۔ان ناکام امیدواروں میں ایک اہم امیدوار چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کی دختر کے کویتا قابل ذکر ہیں ۔ انتخابی مہم کے دوران چیف منسٹر کے سی آر کے چہرے پر 16 لوک سبھا نشستوں پر کامیابی کے یقین کی تمکنت نظر آرہی تھی لیکن جب ٹی آر ایس 16 کے بجائے صرف 9 لوک سبھا حلقوں سے کامیابی ہوئی تو وفاقی محاذ بنانے کے خواب آدھی رات کی دیواروں کو چاٹ لیے گئے ۔ بی جے پی اور کانگریس نے مل کر کے سی آر کے بھرم کو چکنا چور کردیا ۔ گذشتہ سال اسمبلی انتخابات میں ٹی آر ایس نے 119 نشستوں کے منجملہ 88 پر کامیابی حاصل کی تھی اور کئی اگزٹ پولس میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ ٹی آر ایس کو 13 تا 16 نشستوں پر کامیابی مل سکتی ہے ۔ مگر صرف 9 نشستوں تک ہی محدود رہ گئی ۔ بی جے پی کو چار اور کانگریس کو 3 لوک سبھا حلقوں سے کامیابی ملی ۔ بی جے پی نے تلنگانہ میں 2014 کے عام انتخابات میں صرف ایک نشست حاصل کی تھی ۔ اب وہ چار ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ تلنگانہ میں اپنا سیاسی وزن بڑھانے کی جدوجہد کررہی ہے ۔ تلنگانہ میں بی جے پی کی شروعات ہوچکی ہے اور ٹی آر ایس کا زوال یقینی ہونے کا بھی بی جے پی قائدین دعویٰ کرنے لگے ہیں ۔ تلنگانہ کو کرناٹک کے بعد جنوبی ہند کا گیٹ وے بنانے کا ارادہ کرنے والے ریاستی بی جے پی قائدین اب تلنگانہ اور مغربی بنگال کے درمیان ایک متوازن سیاسی جدوجہد جاری رکھنا چاہتے ہیں ۔ نظام آباد سے کے کویتا کی شکست موضوع بحث بنی ہوئی ہے ۔

کیوں کہ کویتا کو ہرانے میں خود ٹی آر ایس قیادت کی تساہلی کام آئی ہے ۔ ٹی آر ایس کے حلقوں میں ہی اس موضوع کو لے کر گرما گرم توتو میں میں ہورہی ہے ۔ یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ سابق وزیر اور ٹی آر ایس ایم ایل اے ہریش راؤ کو لوک سبھا انتخابات سے دور رکھا گیا ۔ انہیں کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور نہ ہی ان کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ کویتا کے علاوہ ٹی آر ایس کے دیگر اہم امیدوار بھی ناکام ہوئے ہیں اس لیے چیف منسٹر کے سی آر کو لوک سبھا میں پارٹی لیڈر منتخب کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے ۔ پارلیمانی پارٹی لیڈر کا انتخاب بھی ایک اہم مسئلہ ہے ۔ 16 ویں لوک سبھا میں جتندر ریڈی ٹی آر ایس کے قائد مقننہ تھے لیکن 17 ویں لوک سبھا میں انتخابات کے لیے انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا جس کے بعد ہی انہوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ چیف منسٹر کے سی آر کو پورا یقین تھا کہ ان کی دختر کویتا کامیاب ہوں گی تو انہیں لوک سبھا میں پارٹی لیڈر بنایا جائے گا لیکن وہ اپنی نظام آباد کی سیٹ بچا نہیں سکیں ۔ کویتا کے بعد کے سی آر کے قریبی دست راست لیڈر بی ونود کمار سے امیدیں تھیں کیوں کہ وہ گذشتہ لوک سبھا میں ٹی آر ایس کے پارٹی لیڈر تھے لیکن وہ بھی بی جے پی کے امیدوار بی سنجے کے ہاتھوں کریم نگر حلقہ سے شکست کھا گئے ۔ ٹی آر ایس سربراہ کو پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کرنے میں مشکل درپیش ہے ۔ اب پارٹی کی نظر تلگو دیشم سے نکل کر ٹی آر ایس میں شامل ہوئے ناما ناگیشور راؤ پر ہے جنہوں نے ٹی آر ایس ٹکٹ پر کھمم سے کامیابی حاصل کی ہے ۔ ناگیشور راؤ سابق میں تلگو دیشم کے فلور لیڈر رہ چکے ہیں ۔ انہیں کافی تجربہ بھی ہے لیکن ٹی آر ایس کے اندر ان کی مخالفت کی جارہی ہے ۔ تلگو دیشم سے آنے والے لیڈر کو پارٹی کا اہم عہدہ دینے پر ٹی آر ایس کے کئی سینئیر قائدین کو اعتراض ہے ۔ اب کے سی آر کی نگاہ محبوب آباد حلقہ لوک سبھا سے منتخب قبائلی لیڈر اور پارٹی واحد خاتون ایم پی ملوتھ کویتا پر ٹکی ہوئی ہے اور انہیں پارلیمانی پارٹی لیڈر بنایا جاسکتا ہے ۔ وفاقی محاذ کا گھوڑا دوڑانے والے کے سی آر کی مرکز میں اب کوئی دال نہیں گلے گی اس لیے کم از کم لوک سبھا میں ٹی آر ایس کی موثر نمائندگی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ٹی آر ایس کے وفاقی محاذ کی بھی اب ضرورت باقی نہیں رہی کیوں کہ بی جے پی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے تو علاقائی پارٹیوں کا رول بھی ختم ہوگیا ہے اگر ٹی آر ایس کو 16 نشستوں پر کامیابی بھی ملتی تو وہ دہلی میں کچھ نہیں کرسکتی تھی ۔ کیوں کہ بی جے پی نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے وفاقی محاذ کے نظریہ کو ہی دفن کردیا ہے اور وفاقی محاذ کا غبار صرف 2019 کے انتخابات تک ہی تھا ۔

اب مختلف ریاستی پارٹیاں مرکز سے دوستی کرنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کررہی ہیں ۔ وفاقی محاذ کے عشق ناتمام کا نشہ تمام ہوگیا ہے ۔ ٹی آر ایس سربراہ کے گھر میں ہی ناراضگی پیدا ہوچکی ہے ۔ بیٹی کویتا نے اپنی ناکامی کے لیے باپ کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا ہے تلنگانہ کے مرد آہن کے چندر شیکھر راؤ کو سب سے بڑا جھٹکہ اور صدمہ یہی لگا کہ ان کی دختر کو بری طرح شکست ہوئی ہے ۔ 6 ماہ قبل ہی اسمبلی انتخابات میں شاندار جیت درج کروانے والی ٹی آر ایس کو لوگوں نے سبق سکھایا ہے ۔ کل تک مرکز میں تیسرے محاذ کے متفقہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہونے کا خواب دیکھنے والے کے سی آر کے لیے لوک سبھا انتخابات ایک زور کا جھٹکہ ثابت ہوئے ہیں ۔ کیوں کہ ان کی حکومت اب مرکز کی مودی حکومت پر ہی زیادہ سے زیادہ انحصار کرے گی ۔ تاہم کے سی آر نے جنوبی ہند میں اپنے لیے ایک نیا سیاسی دوست بھی تلاش کرلیا ہے ۔ آندھرا پردیش میں وائی ایس آر کانگریس سربراہ جگن موہن ریڈی سے ان کی خوب گھل مل رہی ہے ۔ دو تلگو ریاستوں کے دونوں سربراہوں کو مل کر اپنے علاقائی سیاسی مفادات کا تحفظ کرنا ہے ۔ اس لیے کے سی آر نے جگن موہن ریڈی کی حلف برداری میں شرکت کی دعوت کو قبول کیا اور دونوں مل کر نئی دہلی میں وزیراعظم مودی کی حلف برداری تقریب میں بھی شرکت کرنے والے تھے لیکن ان کے طیاروں کو دہلی میں اترنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ اس لیے دونوں حلف برداری تقریب میں شرکت سے محروم رہے ۔ کے سی آر ان سیاستدانوں میں سے نہیں ہیں جو بے غرض کسی سیاسی لیڈر سے دوستی رکھتے ہیں ۔ کے سی آر کے ذہن میں کچھ نہ کچھ چل رہا ہے اس لیے انہوں نے وائی ایس آر کانگریس صدر جگن سے ہاتھ ملا لیا ہے جب کہ جگن موہن ریڈی کی پارٹی نے علحدہ ریاست تلنگانہ کی پر زور مخالفت کی تھی اور مرن برت بھی رکھا تھا ۔