گدھا اور گھوڑا

   

پیارے بچو! ایک غریب دھوبی کا بڑا ہی دُبلا پتلا گدھا تھا ۔وہ اِتنا کمزور ہوچکا تھا کہ اگر زور سے ہوا چلتی تو بھی وہ گر جاتا۔ پیٹھ پر جگہ جگہ زخموں کے نشان تھے اور ان میں بے شمار کیڑے چل رہے تھے ۔ وہ دو قدم بھی بغیر ٹھوکر کھائے نہیں چل پا رہا تھا۔ ایک اصطبل کے مالک نے اسے دیکھ کر دھوبی سے پوچھا : ’’تمہارا گدھا اس قدر کمزور کیسے ہوگیا؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’صاب! مفلس ہوں جب مجھے ہی کھانے کو نہیں ملتا تو گدھے کو کیا کھلاؤں۔بھوک اور فاقوں نے اُسے ایسا کردیا!‘‘ اصطبل کے مالک نے کہا: ’’ اسے ایک مہینے کیلئے میرے اصطبل میں چھوڑ جاؤچنانچہ وہ دھوبی اپنے لاغر گدھے کو اپنے اصطبل میں لے گیا اور اُسے گھوڑے کے ساتھ باندھ کر گھاس او ردانہ کھلانے لگا۔ گھوڑوں کے ساتھ ہر روز اس کی مالش بھی ہونے لگی ، اس کے کھڑے ہونے کی جگہ بھی صاف کی جاتی اور غریب آدمی بھی وہاں چھڑکاؤ کر جاتا ،لید (غلاظت) وغیرہ فوراً اُٹھائی جاتی اور تازہ چارہ کھلایا جاتا۔ یہ ٹھاٹھ دیکھ کر گدھا دل میں کہنے لگا: ’’ائے خدا! میرا تجھ سے پوچھنا بے ادبی تو ہے مگر میں تجھ سے پوچھے بغیر بھی رہ نہیں سکتا کہ مجھ میں (گدھے) اور گھوڑوں میں کیا فرق ہے؟ وہی ہاتھ وہی پاؤں میرے ہیں ، وہی اُن کے ،دونوں کے پیٹ کھانا مانگتے ہیں پھر معلوم نہیں کہ ایک دوسرے میں اس قدر فرق کیوں رکھا گیاکہ اُن کی قسمت میں گھاس ، چنے اور ان کی پسندیدہ خوراک اور میری قسمت میں کچرے کی جگہ پر چرنا ، وزن ڈھونا اور مالک کے ڈنڈے کھانا…؟
اس کے دوسرے ہی دن اچانک اصطبل کے مالک نے اپنے اصطبل کے تمام گھوڑوں کو ایک جنگ میں بھیجے دیئے۔ جب وہ گھوڑے شام کو اصطبل میں واپس آئے تو تمام گھوڑے زخموں سے چور تھے ۔ وہی بدن جن میں ایک دن پہلے تک ریشم سی چمک اور لچک تھی ، جگہ جگہ خون آلود تھے اور خون کا رِسنا بھی کسی طرح تھم نہیں رہا تھا۔بعض گھوڑوں کے جسم میں تو تیر بھی پیوست تھے، جن کو نکالنے کیلئے گھوڑوں کو باندھ کر بڑی مشکل سے پچھاڑا اگیا اور پھر اُن تیروں کو نکالا گیا۔تو گھوڑوں نے خوب چیخا ، لیکن اصطبل کا مالک کرتا بھی تو کیا کرتا ، اگر ان کے زخم کو مندمل نہیں کیا گیا تو وہ گھوڑے مر جائیں گے اور مالک کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ خیر… یہ دیکھ کر وہ گدھا خوف و دہشت کے عالم میں وہاں سے بھاگ نکلا اور پھر کبھی اسے اپنے گدھے ہونے کا افسوس نہیں ہوا۔
بچو! اب بتاؤ اِس کہانی سے ہم کو کیا سبق ملتا ہے ؟ اس میں سبق یہی ہے کہ انسان اللہ کے فیصلے پر ہر حال میں راضی اور خوش رہے ناکہ غیرمطمئن اور ناشکراگدھے کی طرح ۔ اللہ نے جس کو جو بنانا مناسب اور صحیح سمجھا ، وہی بنایا تو ہم بھی کسی مشکل یا تکلیف میں آجائیں یا ہم سے بہتر حال میں کسی کو دیکھیں تو ناشکری کا اظہار کرنے کے بجائے ، اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں اور احسانات کو یاد کرنا چاہئے۔ ہاں ! ہر شخص اچھے سے بہتر بننے کی کوشش کرسکتا ہے ، اور اسے کرنا بھی چاہئے لیکن اللہ نے ہم کو جس طرح بنایا اور جس حال میں رکھا ، اس پر ہر صورت مطمئن اور شکر گزار رہنا ہی اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔