گودی میڈیا کے اینکروں کا بائیکاٹ درست

   

آکار پٹیل
اپوزیشن جماعتوں کے اتحادINDIA نے ان 14 ٹیلی ویژن اینکرس کے ناموں کا اعلان کیا ہے جن کے پروگرامس کا ان کے ترجمان بائیکاٹ کریں گے۔ جس وقت میڈیا ( گودی میڈیا ) کے ان اینکروں کی فہرست جاری کی گئی اُس وقت اس اقدام کے پیچھے کار فرما وجوہات نہیں بتائی گئیں۔ لیکن مختلف اپوزیشن قائدین نے کہا کہ ’’ واٹس ایپ گروپ آف دی بی جے پی میڈیا سیل ‘‘۔ گودی میڈیا کے اینکروں کے بائیکاٹ کے خلاف بھی آوازیں اُٹھیں حالانکہ اپوزیشن نے بائیکاٹ کے حق میں دلائل بھی دیئے۔ بائیکاٹ کے مخالفین نے جو دلائل پیش کئے اس میں آزادی صحافتی اور ایمرجنسی جیسے الفاظ استعمال کئے گئے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ بعض اینکروں اور ٹی وی اسٹیشنوں کے حکومت کی تائید و حمایت کے شواہد کیا ہیں۔19 جون 2020 کو این ڈی ٹی وی کرسپانڈٹ اروند گناسیکر نے حکومت کے ایک نوٹ کا متن ٹوئیٹ کیا جس میں بتایا گیا کہ چینی دراندازی کے مسئلہ پر کُل جماعتی اجلاس کے بعد حکومت نے صحافیوں کوTALKIN POINTS دیئے ہیں۔ اس کُل جماعتی اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا کہ مشرقی لداخ میں چین نے کوئی دراندازی نہیں کی۔ بات چیت کے وہ نکات جو مودی حکومت چاہتی تھی کہ میڈیا اپنی سرخیوں میں توجہ دے ان میں یہ کہا جائے کہ ’’ انڈیا وزیر اعظم کے ساتھ کھڑا ہے ‘‘ ۔
سیاسی قائدین کی اکثریت نے مودی پر پورا پورا اعتماد اور بھروسہ کا اظہار کیا اور جس انداز میں مودی نے صورتحال سے نمٹا اس کیلئے لیڈروں نے مودی پر بھروسہ جتایا ہے۔ گودی میڈیا سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ ایسی سرخیاں بھی لگائیں ’’کانگریس نے حکومت کے خلاف جو غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ان کوششوں پر کے سی آر، نوین پٹنائک اور سکم کے کرانتی مورچہ نے پانی پھیر دیا ‘‘ (کانگریس اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں اہم کردار ادا کیا اور فی الوقت بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے کے خلاف بنائے گئے اس اتحاد میں 27 اپوزیشن جماعتیں شامل ہیں۔
کے سی آر کی بی آر ایس، نوین پٹنائک کی بیجو جنتا دل اور سکم کرانتی مورچہ کو اتحاد میں شامل نہیں کیا گیا یا پھر ان جماعتوں نے خود کو انڈیا سے دور رکھا ) ۔ حکومت کی جانب سے ٹی وی چیانلوں کو جو ہدایات دی گئیں‘ جو حکم دیا گیا اس پر ’’ حکم مرے آقا ‘‘ کہتے ہوئے من و عن عمل آوری کی گئی۔ چنانچہ حکومت کے اس حکم کے چند گھنٹوں بعد ہی ’ٹائمز ناو‘ نے اپنے پرائم ٹائم مباحث کی سرخی کچھ اس طرح لگائی ’’ تمام سیاسی جماعتیں انڈیا کے ساتھ ہیں لیکن سونیا گاندھی چین پر تنقید نہیں کریں گی اس کی مذمت نہیں کریں گی‘‘۔ دوسری جانب ریپبلک ٹی وی کے اہم مباحث میں 19 جون کو یہ سرخی لگائی گئی ’’ حقائق سے ناواقف کانگریس نے کی فوج کی تضحیک ‘‘ ۔ ریپبلک ٹی وی نے دوسری سرخی کچھ یوں لگائی ’’ آیا کانگریس اور چین کے درمیان ایک خصوصی رشتہ ہے ‘‘ اس طرح ایک اور سرخی میں یہ کہا گیا ’’ چین کے خلاف عوامی تحریک بڑھتی جارہی ہے‘‘ گودی میڈیا کس طرح مودی حکومت کی ہر ناکامی کو کامیابی کے طور پر پیش کررہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مئی، جون ، جولائی ان تین مہینوں میں ’ ٹائمز ناو‘ کے پرائم ٹائمز میں 33 مباحث ہوئے جن میں اپوزیشن کے اقدامات و کارروائیوں کو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان مباحثوں میں سے کسی ایک میں بھی مودی حکومت پر تنقید کرنے کی جر￿ت نہیں کی گئی ، حد تو یہ ہے کہ ان مباحث میں معاشی انحطاط یا معاشی سُست روی پر صفر مباحث ہوئے۔ ان ہی تین مہینوں میں ریپبلک ٹی وی کے 47 مباحث ہوئے جن میں صرف اور صرف اپوزیشن جماعتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان پر شدید تنقید کی گئی۔ یہ وہ مدت تھی جس میں 7جون اور 27جون کے درمیان پٹرول ؍ ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل 21 دن تک اضافہ کیا گیا یعنی 21 دن تک ہر روز پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھائی گئیں۔ 16 جون کو ہندوستان نے اعلان کیا کہ لداخ کی وادی گلوان میں چینی سپاہیوں کے ساتھ آمنے سامنے کی لڑائی میں ہمارے 20 بہادر سپاہی امر ہوگئے، چینی سپاہیوں نے انھیں بری طرح سے زدوکوب کیا، اس طرح یکم مئی کو کووڈ انفیکشن کی تعداد جو 2300 تھی 31 جولائی کو بڑھ کر 5700 ہوگئی لیکن گودی میڈیا کے ٹی وی چیانلوں نے ان پر کسی بحث و مباحث کا اہتمام نہیں کیا حالانکہ موضوعات اور مسائل تھے جن کا عوام سے خاص تعلق ہے ۔ اس کے چند دن بعد ہندوستانی صحافتی جائزہ میں ایک اور نوٹ شائع کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ اسے دفتر وزیر اعظم نے ٹیلی ویژن چیانلوں میں گشت کروایا جس میں ان چیانلوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ کن خبروں پر توجہ دیں اور کن خبروں کو نظرانداز کردیں۔
ٹی وی چیانلوں کو دفتر وزیراعظم سے جو نوٹ جاری کیا گیا اس میں کچھ یوں کہا گیا ’’مودی نے صاف اور واضح طور پر کہدیا ہے توسیع پسند عزائم رکھنے والے چین کے خلاف کارروائی کٹھن اور مشکل کام ہے لیکن صحیح حکمت عملی اور اقدامات غیر معمولی نتائج برآمد کرسکتے ہیں‘‘۔ گودی میڈیا نے یہ بھی سرخی لگائی کہ ’’ چین پیچھے نہیں ہٹا بلکہ اسے پیچھے ڈھکیلا گیا اور یہ کام اس متحدہ قوم نے کیا جس کی قیادت ایک ایسے لیڈر نے کی جو ہر اول دستہ میں ہوتا ہے، اس لیڈرنے فیصلہ کن فوجی، اقتصادی اور دفاعی اقدامات کئے اور وزیراعظم نریندر مودی کی دانشمندانہ قیادت نے چین کو پیچھے ڈھکیل دیا ‘‘ ساتھ میں یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم نے آتما نربھر بھارت ( خود مکتفی بھارت ) کا جو نعرہ لگایا وہ چین کی معاشی ترقی سے متعلق دعوے کرنے والوں کے چہروں پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔