گورنرس اور حکومتوں کا ٹکراؤ

   

زمانے کی روش کچھ ہو، ہم اپنا کیوں چلن بدلیں
ہمیں تو عیب کو زیبا نہیں دیتا ہنر لکھنا

جمہوری اور وفاقی طرز حکمرانی میں ریاستوں کی منتخبہ حکومتوںاور مرکزی نمائندوں کا ایک متوازن اور اہم رول ہوتا ہے ۔ ہر جمہوری ادارہ کو اپنے طور پر ذمہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں۔ ایک ادارہ کی دوسرے ادارہ میںمداخلت کی کوئی گنجائش نہیںہوتی ۔ ہر ادارہ کے اپنے دائرے ہیں اور اسی میںرہتے ہوئے سبھی کو کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسی وقت توازن کو برقرار رکھا جاسکتا ہے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میںدیکھا گیا ہے کہ گورنرس کی جانب سے ریاستوں کی منتخبہ عوامی حکومتوںسے ٹکراؤ کی کیفیت شروع ہوگئی ہے ۔ گورنرس کی جانب سے مرکزی نمائندوں کا رول ادا کرتے ہوئے ایک دستوری سربراہ ہونے کی روایت کو متاثر کیا جا رہا ہے ۔ اس طرح کے واقعات سے ریاستوں اور گورنرس کے مابین ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے ۔ اس سے دونوں ہی فریقین کی شبیہہ متاثر ہو رہی ہے ۔ جس وقت سے مرکز میں بی جے پی زیر قیادت نریندرمودی حکومت اقتدار میںآئی ہے اس وقت سے اس طرح کے واقعات پیش آنے لگے ہیں۔ یکے بعد دیگرے کچھ ریاستوں میں ایسی صورتحال پیدا ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور یہ رکنے یا تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے ۔ یہ صورتحال ان عوام سے بھی مذاق کے مترادف ہے جو اپنے ووٹ کے ذریعہ حکومتوںکو منتخب کرتے ہیں۔ مرکزی حکومت بھی ملک کے عوام کی منتخبہ ہے اور ریاستی حکومتیں بھی ان ریاستوں کے عوام کے ووٹ سے ہی تشکیل پائی ہیں۔ ایسے میںکسی کو بھی دوسرے کیلئے مشکلات پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ یہی ہمارے جمہوری اوروفاقی طرز حکمرانی کا اصول ہے ۔ مرکز اور ریاستوں میں الگ الگ جماعتوں کی حکومتیںملک میں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ کئی مواقع پر ایسا ہوا ہے کہ مرکز میں کسی جماعت کی حکومت قائم ہوئی تو ریاستوںمیںدوسری جماعتوںکو عوام نے موقع دیا تھا ۔ دونوں ہی حکومتوں کو اپنے اپنے طور پر عوامی فیصلے کا احترام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ لازمی ہے کہ عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے منتخبہ حکومتیں اپنے کام انجام دیں۔ مرکز ملک گیر سطح پر تو ریاستی حکومتیں اپنی اپنی ریاستوںکے امور کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے سے اختلاف اور ٹکراؤ بھی عام بات ہے ۔ ہر جماعت اپنے منصوبوںاور نظریات کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے ۔ دوسری جماعتیں ان کی مخالفت کرسکتی ہیں اور اپنے منصوبے اور نظریات پیش کرسکتی ہیں تاہم دونوں اگر حکومتوںمیںآجائیں تو ایک دوسرے کا پاس و لحاظ اور احترام کرنا ہر دو کی ذمہ داری ہے ۔ سیاسی اختلاف کو حکمرانی کے عمل میںرکاوٹیںپیدا کرنے کی خاطر استعمال نہیں کیا جانا چاہئے ۔ مرکز کی اسکیمات اگر ریاستوں کیلئے بہتر اورموثر ہیں تو ان کو اختیار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا جانا چاہئے اور ریاستیں اپنے طور پر کوئی اچھا کام کر رہی ہیں جن سے سیاسی اختلاف تو ہوسکتا ہے لیکن عوام کو فائدہ ہو رہا ہے تو مرکز کو بھی اس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرنی چاہئے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں کئی ریاستوں میں دیکھا گیا ہے جہاںمرکزی حکومت کے مقرر کردہ گورنرس کی جانب سے ریاستی حکومتوں کے کام کاج میں رخنہ اندازی کی گئی ہے ۔ ان میں رکاوٹیں پیدا کی گئی ہیں۔ ریاستی حکومتوں کیلئے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں کو نیچا دکھانے تک کی بھی کوششیں ہوئی ہیں جوافسوسناک ہے ۔ ہندوستانی طرز حکمران کے اصولوںاور روایات کے مغائر ہے ۔ سیاسی اختلافات کو حکمرانی کے عمل میںرکاوٹ کیلئے پیدا کرنا اخلاقی پستی کی مثال کہی جاسکتی ہے اور اس سے سبھی جماعتوں کو گریز کرنے کی ضرورت ہے چاہے وہ مرکز میں برسر اقتدار ہو یا ریاست میں۔
دہلی ‘ مغربی بنگال ‘ کیرالا ‘ ٹاملناڈو اور تلنگانہ میںاس طرح کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جہاں گورنر اور ریاستی حکومتیں ایک دوسرے کی فریق بن گئی ہیں۔ انہیں ایک دوسرے کے شریک بنتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت تھی لیکن وہ ایک دوسرے کے مد مقابل بنتے جارہے ہیں۔ یہ صورتحال جہاں ملک کے طرز حکمرانی کیلئے اچھی نہیں ہے وہیں عوام کیلئے بھی مشکلات کا باعث بنتی جا رہی ہیں۔ مرکزی حکومت اوراس کے ذمہ داروں کو اس ساری صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح کے مسائل کو ختم کرنے کیلئے مرکز کو ذمہ دارانہ اور سرگرم رول ادا کرنا چاہئے ۔ سیاسی اختلافات کو برقرار رکھتے ہوئے مسائل کی یکسوئی کرنا ہندوستان کی انفرادی پہچان رہی ہے اوراس کو برقرار رکھا جانا چاہئے ۔