گھر سجانے کا تصور تو بہت بعد کا ہے

   

کورونا کے بدلتے رنگ … حکومت خواب غفلت میں
دنیا میںکورونا قابو میں … ہندوستان میں بے قابو
گیروا فنگس ملک کیلئے زیادہ خطرناک

رشیدالدین
موت اور مصیبت کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا کہ پتہ نہیں کب آن پڑے، ان دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے ۔ مصیبت کبھی موت کا سبب بن جاتی ہے تو کبھی موت گھر والوں کے لئے مصیبت کھڑی کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جان و مال کے نقصان اور مصیبت کو آزمائش قرار دیا ہے ۔ آزمائش میں صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے ۔ ہندوستان کے موجودہ حالات خاص طور پر کورونا کے قہر نے ہر کسی کے صبر کا امتحان لیا ہے ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کورونا وباء سے اموات اور روٹی روزی کے مسائل نے انسان کو توڑ مروڑ کر بکھیر دیا ہے ۔ امتحان اور آزمائش بھی ایک حد تک ہوتی ہے ، اس کے بعد راحت کے دن آتے ہیں لیکن یہاں تو ایک مصیبت میں کمی نہیں ہوپائی کہ دوسری نئی آزمائش حملہ کی منتظر ہے۔ کورونا کی شکل میں قدرت کا یہ قہر ہندوستان پر کیوں زیادہ نازل ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ ملک کا حاکم اور اس کے اعمال و افعال کا اثر بلاؤں کی صورت میں رعایا پر نازل ہوتا ہے ۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ انسانی اعمال اور نافرمانیوں کی سزا ہے ۔ کورونا نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا لیکن ہندوستان کے ساتھ وائرس کا رویہ بھی امتیازی اور جانبدارانہ ہے ۔ جس ملک سے کورونا کا جنم ہوا تھا ، وہاں حالات معمول پر آگئے ۔ امریکہ ، یوروپ اور دیگر ممالک میں زندگی معمول کی طرف لوٹ رہی ہے ۔ دنیا بھر میں کورونا کی صورتحال قابو میں آچکی ہے لیکن ہندوستان میں کورونا ابھی بھی بے قابو ہے۔ وقفہ وقفہ سے رنگ اور حلیہ تبدیل کرتے ہوئے نت نئے انداز میں اپنا اثر دکھا رہا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ہندوستان کے پڑوسیوں پاکستان ، بنگلہ دیش ، سری لنکا اور نیپال نے وباء پر قابو پالیا جبکہ وہ کسی بھی اعتبار سے ہندوستان کی برابری نہیں کرسکتے۔ یہاں مسئلہ چھوٹے یا بڑے ملک یا پھر کمزور اور طاقتور کا نہیں بلکہ صورتحال سے نمٹنے میں حکمرانوں کی سنجیدگی اور نیت کا دخل ہے۔ حکمراں کی نیت میں فتور ہو تو خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ یہی کچھ ہندوستان میں ہورہا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کا قہر دراصل حکومت کی نااہلی کا نتیجہ ہے ۔

گزشتہ سال فروری میں جب کورونا نے دستک دی تو نریندر مودی گجرات میں اس وقت کے امریکی صدر ٹرمپ کا استقبال کر رہے تھے ۔ مارچ میں جب صورتحال بگڑ گئی ، اس وقت حکومت خواب غفلت سے بیدار ہوئی اور جلد بازی میں غیر منصوبہ بند طریقہ سے لاک ڈاؤن نافذ کردیا ۔ دواخانوں میں علاج کی سہولتوں میں اضافہ اور درکار ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے کے بجائے تالی اور تھالی کا کھیل کھیلا گیا جس کے نتیجہ میں عوام کی طرف سے حکومت کے لئے گالی نکل رہی ہے ۔ موجودہ حالات کے لئے عوام بھی ذمہ دار ہیں۔ وہ اس لئے کہ وہ حکمراں کے انتخاب میں قابلیت اور اہلیت کے بجائے جذباتی نعروں میں بہہ گئے ۔ سنگھ پریوار نے ہندو راشٹر کے نشانہ کی تکمیل کیلئے نریندر مودی کو وزیراعظم کے چہرہ کے طورپر پیش کیا ۔ مودی کی تعلیمی قابلیت کے بارے میں سرکاری ریکارڈس خالی ہیں۔ تعلیمی قابلیت اور ڈگری مودی کے پاس بھلے ہی نہ ہو لیکن گجرات میں قتل عام کا تجربہ تمام طرح کی قابلیت اور صلاحیت پر بھاری تھا اور یہی صنعت وزارت عظمیٰ کے لئے اہل قرار پائی ۔ کورونا کی پہلی لہر کی شدت میں کمی کے ساتھ ہی حکومت نے کورونا سے جنگ جیت لینے کا دعویٰ کرتے ہوئے جشن منایا۔ دراصل کورونا کیلئے وہ بریک کا وقت تھا تاکہ دوسرے حملہ کی تیاری کی جائے ۔ ماہرین نے دوسری لہر کی پیش قیاسی کرتے ہوئے حکومت کو چوکس کیا لیکن مودی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی جس کے نتیجہ میں پہلی لہر کے مقابلہ دوسری لہر زیادہ مہلک ثابت ہوئی ۔ تمام دوسرے ممالک نے ویکسین کا آرڈر دے دیا اور طبی سہولتوں میں اضافہ کیا گیا جبکہ ہندوستان نے دوسری لہر کی تباہی کے بعد ویکسین کے حصول پر توجہ دی ۔ اگر پہلے ہی احتیاط کی جاتی اور دواخانوں میں تیاری کی جاتی تو شائد یہ دن دیکھنے کو نہ ملتا۔ کئی ممالک نے ابھی تک ٹیکہ اندازی کا عمل 70 تا 90 فیصد مکمل کرلیا ہے جبکہ ہندوستان میں آغاز کے ساتھ ہی ویکسین کی قلت ہوگئی ۔ علاج میں کوتاہی ، آکسیجن کی کمی اور ادویات کی قلت سے ہونے والی اموات کیلئے ذمہ دار حکومت نہیں تو کون ہوگا۔ وزیراعظم کو من کی بات سنانے سے فرصت ملے تو وہ عوام کے دل کی بات سن پائیں گے ۔ اب تو کورونا کے وباء ہونے یا موسمی بیماری ہونے پر بحث چھڑگئی ہے ۔ کورونا وباء ہو یا نہ ہو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ روک تھام کیلئے قدم اٹھائے۔ ہر شخص کو ٹیکہ اندازی کا نشانہ آخر کب پورا ہوگا۔ دوسری لہر سے عوام ابھی ابھر نہیں پائے تھے کہ ماہرین نے تیسری لہر کے بارے میں وارننگ دے دی ہے ۔ بعض ریاستوں میں تیسری لہر کی دستک سنائی دینے لگی۔ ماہرین کے اندازہ کے عین مطابق مہاراشٹرا ، دہلی ، اترپردیش اور آندھراپردیش میں بچوں کے متاثر ہونے کے واقعات نے عوام میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کردیا ہے ۔ کورونا کے اثرات ابھی کم نہیں ہوئے کہ بلیک اینڈ وائیٹ فنگس کے نام سے ایک نئی بیماری وجود میں آگئی۔ اب تو ملک میں فنگس کے علاج کے لئے کوئی تیاری نہیں ہے ۔ کورونا اور پھر فنگس آخر یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا ۔

ہندوستان کے معاملہ میں کورونا نے اپنا ٹائم ٹیبل ترتیب دیا ہے ۔ پہلے مرحلہ میں ضعیف العمر افراد اور دوسرے مرحلہ میں نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیا، اب جبکہ تیسری لہر کی پیش قیاسی کی جارہی ہے تو اس میں بچوں کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے ۔ کورونا نے ہندوستان کے لئے آخر عمر کا تعین ہر لہر کیلئے علحدہ طور پر کیوں کیا ؟ کیا واقعی یہ کورونا کا کھیل ہے یا پھر کورونا کے نام پر کوئی پس پردہ کھیل رہا ہے۔ کون ہے اس پردہ زنگاری میں اس کو بے پردہ کیا جائے ۔ کورونا کا انڈین ٹائم ٹیبل دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں دیکھا گیا ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہندوستان کا کورونا دنیا کے دیگر وائرس سے مختلف ہو اور اسے ہندوستان اس قدر پسند آگیا کہ وہ ہر لہر میں اپنی پسند کے مطابق مخصوص عمر کے افراد کی نشاندہی کر رہا ہے ۔ کسی بھی مرض کے لئے عمر کے تعین کی بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ کوئی بھی مرض انسان کی عادات اور اطوار پر منحصر ہوتا ہے لیکن وباء کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ کسی ملک میں وباء آجائے تو اس کا شکار ہر عمر کے افراد ہوسکتے ہیں لیکن ہندوستان میں کورونا نے جو ترتیب بنائی ہے ، وہ کافی دلچسپ ہے۔ کورونا تو اپنا کھیل کھیل رہا ہے اوردوسری طرف حکومت کی نااہلی کے نتیجہ میں کروڑوں عوام روٹی اور روزی سے محروم ہوگئے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کو صرف زبانی جمع خرچ میں دلچسپی ہے۔ کورونا کے آغاز پر لاکھوں کروڑ کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا گیا تھا، آخر یہ رقم کہاں اور کس پر خرچ کی گئی ، اس کا حساب عوام کے روبرو پیش کیا جائے۔ ایک سال سے زائد عرصہ سے روزگار سے محرومی نے تعلیم یافتہ اور شریف افراد کو بھی مجرم بنادیا ہے ۔ ملک کے ذمہ دار شہری تیار کرنے والے ٹیچرس ترکاری بیچنے پر مجبور ہوچکے ہیں جبکہ روزگار سے محروم کئی تعلیم یافتہ افراد کو جرائم میں ملوث پایا گیا۔ پولیس کو گرفتاری کے بعد یہ جان کر حیرت ہوئی کہ روزگار سے محرومی سے عاجز آکر وہ جرائم کی دنیا میں قدم رکھنے پر مجبور ہوگئے ۔ اس صورتحال کیلئے آخر ذمہ دار کون ہے ؟ حکومت کو عوام کی بھلائی سے زیادہ انتخابات کی فکر ہے۔

جس طرح پہلے لاک ڈاون میں لاکھوں مزدور سڑکوں پر نکل آئے تھے، وہ آج تک بھی واپس نہیں ہوئے ۔ اپنے آبائی مقامات پر بیروزگاری سے جوجھ رہے ہیں۔ حکومت کو کم از کم ان غریب خاندانوں کیلئے ماہانہ رقم اور اناج پر مشتمل پیکیج کا اعلان کرنا چاہئے ۔ دوسری لہر کے آغاز پر نریندر مودی لاک ڈاؤن سے گھبرانے لگے کیونکہ پہلے لاک ڈاؤن نے حکومت کی بدنامی کا سامان کیا تھا۔ مودی نے ریاستوں پر لاک ڈاؤن کی ذمہ داری ڈال دی۔ حکومت عوام کو ویکسین ، آکسیجن اور دیگر لائیف سیونگ ڈرگس کی فراہمی میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ سپریم کورٹ کو ایک سے زائد مرتبہ حکومت کی سرزنش کرنی پڑی ۔ نریندر مودی نے اترپردیش میں اپنے شاگرد یوگی ادتیہ ناتھ کو آئندہ انتخابات کیلئے دوبارہ لیڈر منتخب کیا ہے۔ ایک طرف کورونا اترپردیش میں موت کے لئے عوام کا سلیکشن کر رہی ہے تو دوسری طرف بی جے پی نے الیکشن کیلئے یوگی کا سلیکشن کیا ۔ ملک میں بھلے ہی کورونا یا پھر بلیک اور وائیٹ فنگس عوام کو پریشان کر رہے ہوں لیکن ان سے بھی زیادہ خطرناک کوئی فنگس ہے تو وہ گیروا فنگس ہے۔ بلیک اور وائیٹ فنگس مخصوص افراد کو متاثر کرسکتے ہیں لیکن گیروا فنگس سماج کے لئے مہلک اورخطرناک ہے۔ اس فنگس سے سماج کا شیرازہ بکھر سکتا ہے۔ مودی حکومت کورونا اور فنگس پر قابو پانے کے بجائے مختلف انداز میں گیروا فنگس پھیلا رہی ہے۔ ممتاز شاعر ڈاکٹر وسیم بریلوی نے کیا خوب کہا ہے ؎
گھر سجانے کا تصور تو بہت بعد کا ہے
پہلے یہ طئے ہو کہ اس گھر کو بچائیں کیسے