ہاتھ اٹھالئے سب نے اور دعا نہیں معلوم

,

   

نریندر مودی …حکومت اور پارٹی پر کنٹرول
فلم پٹھان کی تعریف … مسلمانوں سے ناانصافی

رشیدالدین
کسی نظام کو نافذ کرنا ہو یا پھر کسی ادارہ کو چلانا، ان دونوں کی کامیابی کے لئے مضبوط گرفت یا کنٹرول ضروری ہوتا ہے۔ اگر حکومت چلانا ہو تو گرفت اور کنٹرول کے ساتھ مکمل غلبہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ مرکز میں بی جے پی حکومت پر وزیراعظم نریندر مودی کا کنٹرول کچھ اس قدر مضبوط ہوچکا ہے کہ اسے ناقابل تسخیر گرفت نہیں بلکہ ون میان شو کہا جاسکتا ہے۔ آزادی کی 75 سالہ تاریخ میں ملک نے پنڈت جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی جیسے مضبوط اور مقبول وزرائے اعظم کو دیکھا لیکن ان دونوں کی غیر معمولی صلاحیتوں کے باوجود حکومت ، پارٹی اور نظم و نسق پر ایسا کنٹرول حاصل نہ کرسکے جیسا کہ آج نریندر مودی کو حاصل ہے۔ اٹل بہاری واجپائی بھی بی جے پی زیر قیادت حکومت کے وزیراعظم رہے لیکن بہترین ایڈمنسٹریٹر کے باوجود مخالف آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ نریندر مودی بظاہر انتظامی امور کے ماہر دکھائی نہیں دیتے لیکن گجرات سے تعلق اور وہاں کے حالات نے انہیں ایسا وزیراعظم بنادیا جس کا بیک وقت حکومت ، پارٹی ، نظم و نسق اور قوم پر کنٹرول کچھ ایسا ہے کہ مخالف آواز کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی اس صلاحیت اور خوبی کو ڈکٹیٹرشپ آمریت بھی کہہ سکتا ہے لیکن گزشتہ 9 برسوں میں ہندوستان کی جمہوریت دراصل آمریت کی یرغمال بن چکی ہے۔ گجرات فسادات کے بعد اس وقت کے وزیراعظم واجپائی کے راج دھرم کی نصیحت پر جب نریندر مودی چیف منسٹر کی حیثیت سے ہنس رہے تھے، اسی وقت سیاسی مبصرین نے ان کے عزائم کو بھانپ لیا تھا۔ گجرات میں سیاسی شناخت دینے والے اپنے سیاسی گروہ ایل کے اڈوانی کو عوامی زندگی سے گوشہ گمنامی میں پہنچاکر اپنی علحدہ شناخت بنانے والے نریندر مودی کا سیاسی ستارہ عروج کی آخری بلندیوں پر پہنچ چکا ہے۔ ملک کے شائد پہلے وزیراعظم ہیں جو صدر جمہوریہ اور نائب صدر جیسے دستوری عہدوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور حال میں بعض ویڈیو وائرل ہوئے جس میں صدر جمہوریہ اور نائب صدر کو نظر انداز کرتے دکھایا گیا۔ مودی ہر کسی کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ میں نے اس مقام تک پہنچایا ہے ۔ حکومت، پارٹی اور بیورو کریسی پر اس قدر خوف طاری ہے کہ کوئی پس پردہ توکجا شائد خواب میں بھی مودی مخالفت کا تصور نہیں کرسکتا۔ جس طرح ہر رات کی سحر یقینی ہے ، اسی طرح ہر عروج کے ساتھ زوال قانونِ قدرت ہے۔ مودی غلبہ اور دبدبہ کا یہ عالم ہے کہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی مودی کو اب ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ وہ خود ایک برانڈ بن چکے ہیں۔ اس مقام تک پہنچنے کیلئے جن جن کو سیڑھی کے طور پر استعمال کیا تھا، انہیں آج گودام میں محفوظ کردیا گیا تاکہ وقت ضرورت استعمال کیا جاسکے۔ مودی کی ترقی اور شہرت میں گودی میڈیا کا اہم رول رہا لیکن گزشتہ دنوں لوک سبھا میں گودی میڈیا کو یہ کہتے ہوئے ان کا مقام بتادیا کہ اخبارات کی سرخیوں اور ٹی وی چیانلس کے چمکتے چہروں سے میری ساکھ نہیں بنی بلکہ طویل عوامی خدمات نے عوام میں میرا بھروسہ بنایا ہے ۔ یہ وہی گودی میڈیا ہے جس نے مودی کی ہر خامی کو خوبی بناکر پیش کیا ۔ اپوزیشن کا مکمل بلیک آؤٹ کرتے ہوئے دن رات مودی کا گن گان کیا لیکن مودی کے رویہ سے تمام بھونپو اینکرس کو ’’مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں‘‘ والا نغمہ گنگنانے کیلئے چھوڑ دیا ۔ مودی بلکہ واحد وزیراعظم ہیں جنہوں نے 8 سال میں ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی ۔ باوجود اس کے وہ میڈیا کی ’’ڈارلنگ‘‘ بنے رہے ۔ مودی نے امیت شاہ کے ساتھ مل کر ہر مخالف آواز کو دبانے کا کام کیا ہے اور جب مشن مکمل ہوگیا تو آج امیت شاہ بھی غیر محسوس طریقہ سے دور کردیئے گئے ۔ شائد نریندر مودی کو اپنے ساتھ کسی کا نام جڑنا پسند نہیں ہے۔ گجرات کے اسمبلی چناؤ میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد امیت شاہ کی اہمیت میں کمی واقع ہوئی اور اب دونوں کی یہ گجراتی جوڑی بہت کم ساتھ میں دکھائی دے رہی ہے ۔ مودی کے پاس صرف بولی نہیں بلکہ کام بھی ہے۔ اس قدر اسکیمات شروع کی گئیں جن کا شمار کرنا ممکن نہیں۔ اسکیمات سے بھلے ہی مستحق افراد کو فائدہ نہ ہو لیکن اسکیمات کے آغاز کی دعویداری مضبوط ہے۔ مودی نے 8 برسوں میں اپوزیشن کو کمزور کرتے ہوئے کانگریس جیسی قدیم اور کیڈر پر مبنی پارٹی کو بقاء کی لڑائی میں مصروف کردیا۔ عوام پر مودی کی گرفت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نوٹ بندی ، قیمتوں میں اضافہ ، مسلمانوں اور دلتوں پر مظالم کے ریکارڈ کے باوجود ملک میں بی جے پی کی کامیابی کا سلسلہ جاری ہے ۔ موجودہ حالات اور تبدیلیوں کے باوجود وزیراعظم کی مقبولیت میں کوئی نمایاں کمی نظر نہیں آئی ۔ حکومت، پارٹی اور نظم و نسق پر غیر معمولی گرفت جمہوریت کی صحت کیلئے ٹھیک نہیں ہے ۔ مودی اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکے ہیں جسے عام طور پر چراغ سحری بھی کہا جاتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی کے بعد کون؟ مودی نے ابھی تک اپنا جانشین تیار نہیں کیا ہے اور اگر مودی کو کچھ ہوجائے تو حکومت اور پارٹی کی متوازی سلطنت کی عمارت ڈھیر ہوجائے گی ۔
ملک کی سیاست نریندر مودی کے اطراف گھوم رہی ہے۔ ان کے صلاح کاروں کا ماننا ہے کہ وزیراعظم کا عہدہ نریندر مودی کے مقام میں اضافہ نہیں بلکہ مودی نے اس عہدہ کو شان بخشی ہے۔ گزشتہ دنوں گوتم اڈانی کی کمپنیوں میں معاشی بحران کا معاملہ ہندوستان کی معیشت پر اثر انداز ہوا۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک اڈانی کمپنیوں کے نقصانات سے متاثر ہوئے۔ دنیا جانتی ہے کہ اڈانی کو کس کی سرپرستی ہے ۔ ہم دو ہمار ے دو کی طرح مودی نے امیت شاہ اور اڈانی کا ہاتھ تھاما۔ تینوں کا تعلق گجرات سے ہے اور حکومت کی سرپرستی میں گوتم اڈانی دنیا کے دوسرے دولتمند شخص بن گئے۔ لیکن یہ فرضی ترقی کا غبارہ جیسے ہی پھٹ پڑا اڈانی ترقی سے تنزل کی سمت آنے لگے۔ پارلیمنٹ اور اس کے باہر اڈانی معاملہ کی گونج سنائی دی لیکن نریندر مودی پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود مودی نے پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران اڈانی اور ان کی کمپنیوں کا نام تک نہیں لیا۔ وزیراعظم نے جگر مراد آبادی اور دیگر دو ہندی شعراء کے اشعار کا سہارا لے کر اپوزیشن کو نشانہ بنایا۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اڈانی معاملہ میں نریندر مودی کا ضبط اور تحمل قابل رشک ہے۔ کوئی بھی سیاستداں اپنے خلاف الزام تراشی کو بآ سانی ہضم نہیں کرسکتا لیکن مودی نے اس سنگین بحران کو نظر انداز کرتے ہوئے اہمیت گھٹانے کی کوشش کی ۔ آنے والے دنوں میں اڈانی کمپنیوں کے بحران کا ہندوستانی معیشت پر کیا اثر ہوگا ، اس پر ماہرین بحث کر رہے ہیں۔ نریندر مودی بھلے ہی پارٹی اور حکومت پر اپنی گرفت کو مضبوط کرلیں لیکن ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں وہ مخالف مسلم لیڈر کے طور پر اپنی شناخت کو مٹا نہیں پائیں گے ۔ گجرات فسادات کے داغ مودی کے ساتھ تاحیات برقرار رہیں گے ۔ بی بی سی نے گجرات فسادات میں مودی کے رول پر جو ڈاکیومنٹری جاری کی ہے ، اس پر پابندی عائد کی گئی لیکن سپریم کورٹ کا موقف اس بارے میں مختلف ہے۔ دنیا بھر میں مودی حکومت کو مسلمانوں پر مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف وزی کے معاملہ میں تنقیدوں کا سامنا ہے ۔ ملک میں فرقہ وارانہ سیاست کے ذریعہ ہندو ووٹ بینک کو مستحکم کیا گیا اور جارحانہ فرقہ پرست طاقتوںکو مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کی کھلی چھوٹ دی گئی۔ کوئی دن ایسا نہیں کہ اخبارات میں مسلمانوں پر مظالم کا کوئی واقعہ شائع نہ ہو۔ خاص طور پر بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے دوسرے درجہ کے شہری کا احساس دلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ماب لنچنگ کے واقعات پر مودی حکومت کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ فرقہ وارانہ سیاست کے ذریعہ 2024 ء میں اقتدار کی ہیٹ ٹرک کی منصوبہ بندی ہے ۔ بی جے پی اقتدار میں شریعت اسلامی میں مداخلت کی گئی اور یکساں سیول کوڈ کی تلوار لٹک رہی ہے۔ مودی نے کشمیر کے خصوصی موقف اور ریاست کا درجہ ختم کرتے ہوئے کشمیریوں کے ساتھ سنگین ناانصافی کی ہے۔ ملک کی تاریخ میں کشمیر کے حوالے سے مودی کا نام ہمیشہ منفی انداز میں یاد کیا جائے گا۔ کشمیروں نے تقسیم ہند کے وقت پاکستان جانے کے اختیار کے باوجود ہندوستان کو اپنا وطن بنایا لیکن آج کشمیری اپنے فیصلہ پر شرمندہ دکھائی دے رہے ہیں۔ نفرت کے سوداگروں نے شاہ رخ کی فلم پٹھان کو ریلیز سے قبل ہی نشانہ لگایا۔ فلم کے ایک گانے پر زعفرانی لباس برداشت نہیں تھا ۔ فلم کے بائیکاٹ کی اپیلوں کے باوجود دنیا بھر میں پٹھان نے کامیابی کے ریکارڈ قائم کئے ۔ وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں فلم پٹھان کی تعریف پر مجبور ہونا پڑا ۔ انہوں نے کہا کہ کئی دہے بعد کشمیر میں تھیٹرس ہاؤز فل دکھائی دیئے۔ پٹھان کی کامیابی دراصل دنیا بھر میں ہندوستان کی مقبولیت ہے۔ فلم پٹھان کی تعریف سے مسلمانوں کی مخالفت کا الزام ختم نہیں ہوسکتا۔ احمد فراز نے کیا خوب کہا ہے ؎
کس طرف کو چلتی ہے اب ہوا نہیں معلوم
ہاتھ اٹھالئے سب نے اور دعا نہیں معلوم