ہتھکڑیوں میں عمر خالد کو عدالت میں پیش کرنے پر عدالت نے رپورٹ مانگی

,

   

اس ضمن میں کسی بھی مخصوص احکامات کے بغیر ملزم کو ہتھکڑیوں میں نہیں رکھاجاسکتا ہے۔
نئی دہلی۔ جمعرات کے روز دہلی کی ایک عدالت نے ڈی جی محابس سے ردعمل اس درخواست پر مانگا جس کے ذریعہ جے این یو کے سابق اسٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد جنھیں دہلی فسادات کے دوران بڑے پیمانے پر سازش کرنے کے الزامات کے تحت گرفتارکیاگیا ہے‘ کو ہتھکڑیوں میں پیش کرنے کے متعلق محکمہ جاتی جانچ کی مانگ کی گئی ہے۔ قانون کے مطابق اس ضمن میں کسی بھی مخصوص احکامات کے بغیر ملزم کو ہتھکڑیوں میں نہیں رکھاجاسکتا ہے۔

سینئر ایڈیشنل جج امیتابھ روات نے اس بات کی بھی ہدایت دی ہے کہ ایک کاپی پولیس کمشنر کو بھی روانہ کی جائے جو ہوسکتا ہے کہ ایک ذمہ دار پولیس افیسر کے ذریعہ تحقیقات کے بعد رپورٹ داخل کریں جو آیا عمر خالد کو جمعرات کے روز ہتھکڑیوں میں لایاگیا تھا اور اگر ایسا ہے تو احکامات پر کیاگیاہے۔

خالد کی وکیل کی جانب سے ادارہ جاتی تحقیقات کی مانگ پر مشتمل درخواست پر یہ احکامات جاری کئے ہیں کہ ”جان بوجھ کر اور غیر قانونی طریقے سے 17فبروری کے روز خالد کو ہتھکڑیوں میں عدالت میں پیش کیاگیاتھا“۔

مذکورہ وکیل نے الزام لگایا کہ کارکار ڈوم عدالتوں کے لاک آپ پولیس عہدیدارن نے خالد کو عدالت میں پیش کیا اور عدالت کے کسی احکامات کے بغیر ہتھکڑیوں میں انہیں پیش کیاجبکہ حقیقت یہ ہے کہ ”یہاں پر دو مختلف عدالتوں نے دومتضاد احکامات جاری کئے ہیں“۔

انہوں نے کہاکہ یہ ملزمین کے حقوق کی خلاف ورزی ہے اور خاطی عہدیداروں کے خلاف کاروائی کی جانی چاہئے

عدالتی کاروائی کے دوران کسی بھی ملزم کو ہتھکڑیاں پہنائی نہیں جاتی ہیں اور یہ انتہائی قدم ملزم کے ساتھ کسی عدالت کی منظوری کے بعد ہی یا پھر کسی درخواست پر جس میں وجوہات عدالت کو پیش کئے گئے ہیں اس کی بناء پر ہی اٹھایاجاسکتا ہے۔

مذکورہ جج نے کہاکہ ”اس عدالت نے ایسا کوئی آرڈر اس ملزم کے لئے نہیں دیا ہے‘ اس معاملے کے کسی بھی ملزم کے لئے نہیں ہے“۔

اس کے علاوہ عدالت نے مانا یہ تحقیقاتی ایجنسی‘ اسپشل سل‘ نے بھی اس کیس میں ایسی کوئی درخواست نہیں کی ہے۔جج نے کہاکہ ”ڈی جی (محابس) کوبھی نوٹس جاری کردی گئی ہے کہ اس عدالت کو واقف کروائیں کہ ایسا کوئی حکم نامہ جاری کیاگیا جو ان کی جانب سے ہے۔

ایک رپورٹ ریڈر اور اس عدالت کے پی اے کو بھی اس ضمن میں پیش کریں“۔خالد او ردیگر کئی لوگوں پرفبروری 2020فسادات کے ”ماسٹر مائنڈ“ کے طورپرمقدمہ درج کیاگیاتھا‘ ان فسادات میں 53لوگوں کی جانیں گئیں اور 700زخمی ہوئے تھے۔

سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کے دوران یہ تشدد رونما ہوا تھا۔

ان کے علاوہ جے این یو اسٹوڈنٹس نتاشا ناروال اور دیونگانا کالتیا‘ جامعہ کوارڈنیشن کمیٹی ممبرس صفورا زرخر‘ اے اے پی کے سابق کونسلر طاہر حسین او ردیگر کئی افراد بھی مقدمہ درج کیاگیاتھا۔