ہرین پانڈیا قتل کیس

   

زندگی خوفناک جنگل ہے
اور سانپوں کے ساتھ رہنا ہے
ہرین پانڈیا قتل کیس
گجرات کے سابق وزیرداخلہ ہرین پانڈیا کے قتل کیس 2003 ء کے سلسلہ میں سپریم کورٹ نے 12 افراد کی سزا کو برقرار رکھا اور اس کیس کی تازہ تحقیقات کے لئے داخل کردہ این جی او کی مفاد عامہ کی درخواست کو خارج کردیا۔ یہ قتل کیس سیاسی سازشوں سے محصور رہا ہے اس پر قانون کی گرفت سے زیادہ سیاسی طاقتوں کی چالاکیوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ نتیجہ میں کیس کی اصل نوعیت ہی پس منظر میں چلی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے سی بی آئی اور مرکزی حکومت کو اپیلیں داخل کرنے کی اجازت دی ہے۔ گجرات ہائیکورٹ کے احکام کو چیلنج کیا جاسکتا ہے کیوں کہ گجرات ہائیکورٹ نے اس کیس میں قتل کے الزام سے ملزمین کو بری کردیا ہے۔ ہرین پانڈیا اُس وقت کی نریندر مودی زیرقیادت گجرات حکومت میں وزیرداخلہ تھے اُنھیں احمدآباد میں صبح چہل قدمی کے دوران 26 مارچ 2003 ء کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ اس قتل کو سازش قرار دیتے ہوئے مختلف مرحلوں پر عدالتوں کے سامنے پیش کیا گیا مگر سچائی اور سازش کے درمیان کے فرق کو دور کرنے میں متعلقہ تحقیقاتی ایجنسیوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ ہرین پانڈیا کے والد وٹھل پانڈیا اور اہلیہ جاگروتی بین کی جانب سے جو الزامات عائد کئے گئے تھے ان پر بھی کوئی دھیان نہیں دیا گیا نتیجہ میں اصل خاطی آزاد رہے اور جن کو قتل کیس کے شبہ میں ماخوذ کیا گیا ان پر برسوں سے مقدمہ چلتا رہا ہے۔ سیاسی مخاصمت کی وجہ سے ہونے والے قتل کی دوبارہ تحقیقات کے مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے قانون نے اپنے ہاتھ اُٹھالئے ہیں۔ این جی او نے جو مرکز برائے مفاد عامہ کے قانونی مسائل کے نام سے کام کررہی ہے، کیس کی دوبارہ تحقیقات کے لئے عرضی داخل کی تھی۔ اس عرضی کو مسترد کرتے ہوئے اس پر 50 ہزار روپئے کا جرمانہ عائد کیا گیا تاکہ وہ دوبارہ عدالتوں کا وقت ضائع کرنے والی درخواستیں داخل کرنے سے باز آسکے۔ قبل ازیں اِس کیس کی ساری تحقیقات گجرات پولیس کی جانب سے کی گئی تھی۔ بعدازاں اسے مرکزی تحقیقاتی ایجنسی کے حوالے کیا گیا۔ اس قتل کی سازشی پہلوؤں پر غور کرنے کے بجائے کیس کی نوعیت میں تبدیلی کرتے ہوئے معاملہ سے جس طریقہ سے نمٹا گیا ہے وہ کئی خامیوں سے بھرا ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جاچکا ہے۔ گجرات میں گودھرا فسادات کے فوری بعد عوام کے اندر دہشت پھیلانے کی واحد سازش کی گئی تھی جس کے لئے دو واقعات کو ایک دوسرے سے ضم کرنے کی کوشش کی گئی۔ سی بی آئی نے اس قتل کیس کو دائیں بازو کے قائدین کو نشانہ بناتے ہوئے ریاست گجرات میں 2002 ء کے فرقہ وارانہ فسادات کا انتقام لینے کی سازش قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے جمعہ کے دن اپنے اہم فیصلے میں اس قتل کیس کے بعض ملزمین کی برأت میں مداخلت سے انکار کردیا۔ گجرات ہائی کورٹ نے بعض نوجوانوں کی سزا کو کم کردیا تھا جس کی وجہ سے جو ملزمین سزا سے زیادہ جیل کاٹ چکے تھے انھیں ازخود رہائی نصیب ہوئی تھی۔ خصوصی انسداد دہشت گردی قانون (پوٹا) کی عدالت نے 25 جون 2007 ء کو 18 ملزمین کو ماخوذ کیا تھا اور اس کیس میں کئی خامیاں چھوڑی تھیں۔ خاص کر شواہد کی کمی اور ثبوت کے لئے مواد کی ناکافی کی بنیاد پر تمام ملزمین کو بری کردیا تھا۔ تاہم سی بی آئی کے سپرد کردہ ہائی کورٹ کے کام کی تکمیل میں اس قتل کی اصل سازش رچانے والے تک رسائی سرحد پار تک بھی شبہ کی سوئی گھماکر بند کردی گئی اور قتل پر پڑے راز کے پردے اُٹھائے نہیں جاسکے۔ نظام انصاف کو دھکہ پہونچانے اور سچائی پر جھوٹ کو غالب کرتے ہوئے قتل کے تعلق سے جو کچھ شواہد پیش کئے گئے اس پر کئی سوال اُٹھ کھڑے ہوئے۔ کیوں کہ جس وقت ہرین پانڈیا کی نعش دستیاب ہوئی تھی جسم پر گولیوں کے نشان تھے۔ ان کے والد وٹھل بھائی پانڈیا نے اپنے فرزند کے قتل کو سیاسی قتل قرار دیا تھا اور قاتل ہنوز قانون کی گرفت سے آزاد ہے۔ اس وقت یہ تبصرہ عام ہوا تھا کہ ہرین پانڈیا کی 2002 ء میں اُس وقت کے چیف منسٹر گجرات نریندر مودی کے درمیان رسہ کشی چل رہی تھی۔ اس مسئلہ کو لے کر ہرین پانڈیا کے والد وٹھل بھائی نے سپریم کورٹ میں دوبارہ تحقیقات کی درخواست بھی داخل کی تھی اور ان کی اہلیہ جاگروتی نے بھی کیس کی تحقیقات پر شبہ ظاہر کرتے ہوئے دوبارہ تحقیقات کے لئے زور دیا تھا۔ اس سارے کیس کے پیچھے حقائق پر ہنوز پردہ پڑا ہوا ہے کیوں کہ جس کار کی سیٹ سے ہرین پانڈیا کی نعش برآمد کی گئی اس پر خون کا کوئی دھبہ نہیں تھا اور کار پر گولیوں کے بھی نشان نہیں تھے لیکن سی بی آئی نے اس کیس کی جو درگت بنائی ہے اس پر کئی سوال ہنوز جواب طلب ہیں۔
بہی کھاتہ بجٹ سے متوسط طبقہ ناراض
وزیر فینانس نرملا سیتارامن نے برسوں پرانے سامراجی طریقہ سوٹ کیس میں بجٹ کاغذات لے کر پارلیمنٹ پہونچنے کے عمل کو تبدیل کرتے ہوئے اس مرتبہ پہلی بار بہی کھاتہ بجٹ کے ساتھ لوک سبھا میں بجٹ پیش کیا۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت خود کو زیادہ سنسکاری ثابت کرنے کے لئے نت نئے انداز اختیار کررہی ہے لیکن ہر بدلتے قدم کے ساتھ غلطی بھی ہوجاتی ہے۔ وزیر فینانس نے بجٹ کو مغرب کی غلامی کے دور سے چھٹکارا دلاتے ہوئے ہندوستانی تجارت کی قدیم روایت ’بہی کھاتہ‘ کی شکل میں لپیٹتے ہوئے کاغذات تیار کئے تھے لیکن اپنی بجٹ تقریر میں اُنھوں نے ہندوستان کی معیشت کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے خالص ہندی یا ہندوستانی کرنسی کا نام لینے کے بجائے یہ کہاکہ ان کی حکومت نے اس بجٹ میں ہندوستان کی 2.7 ٹریلین ڈالر کو 2025 تک 5 ٹریلین ڈالر تک اضافہ کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہاں اُنھوں نے بہی کھاتہ سے ہٹ کر امریکی ڈالر کا سہارا لیا، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ ہندوستانی کرنسی کے اعداد و شمار استعمال کرتیں لیکن کرنسی کو مضبوط بنانے کی جانب کام کرنے کے بجائے یہ حکومت صرف شعبدہ بازی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ عام دیانتدار ٹیکس ادا کرنے والے عوام اور متوسط طبقہ کے لئے یہ غریب ترین بجٹ ہے۔ اس بجٹ میں صرف امیروں اور بیرونی سرمایہ کاروں کی چاندی ہے۔ کہنے کو تو بجٹ میں گاؤں، غریب اور کسانوں کے لئے خاص توجہ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اب ہر گاؤں کے ہر خاندان کو بیت الخلاء، پکوان گیس کنکشن، پانی کی سربراہی اور رہنے کے لئے گھر کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ این ڈی اے حکومت کے لئے یہ 3 گروپ یعنی گاؤں، غریب اور کسان کی ترقی ہی اصل مقصد ہے لیکن بجٹ ہندوستان کی اقلیتوں کے لئے مایوس کن ہے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ صرف انتخابی نعرہ بن کر رہ گیا ہے۔ یہ بجٹ صرف امیروں کے وکاس کی فکر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ہندوستان کے متوسط طبقہ نے اس بجٹ پر اپنی ناراضگی کا سوشیل میڈیا پر برملا اظہار کرنا شروع کیا ہے۔