ہر ایک گھر میں دیا بھی جلے اناج بھی ہو

,

   

دروپدی مرمو … پہلی قبائلی خاتون صدر جمہوریہ
وینکیا نائیڈو سے ناانصافی … مخالف آوازوں کو کچلنے کی کوشش

رشیدالدین

دروپدی مرمو ملک کی 15 ویں صدر جمہوریہ منتخب ہوئی ہیں۔ بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے امیدوار کی کامیابی ابتداء سے یقینی تھی لیکن اپوزیشن کیمپ سے اس قدر بڑے پیمانہ پر کراس ووٹنگ کا اندازہ نہیں تھا۔ دروپدی مرمو کو ان کی عمر کے مساوی 64 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ وہ ملک کی تاریخ کی پہلی قبائلی خاتون صدر جمہوریہ اور پرتیبھا پاٹل کے بعد دوسری خاتون صدر جمہوریہ کا اعزاز حاصل کرچکی ہیں۔ دروپدی مرمو آزادی کے بعد پیدا ہونے والی اور سب سے کم عمر صدر جمہوریہ کا اعزاز رکھتی ہیں۔ اڈیشہ میں بی جے پی کونسلر سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کرنے والی دروپدی ملک کے جلیل القدر دستوری عہدہ تک پہنچنے کا سفر کسی فلمی کہانی سے کم نہیں۔ جواں سال دو فرزندان کی حادثاتی موت کا غم ابھی تازہ تھا کہ 8 سال قبل شوہر نامدار بھی داغ مفارقت دے گئے اور صرف ایک بیٹی سہارے کے طورپر ہے۔ شوہر اور بیٹوں کی یاد میں قائم کردہ اسکول کی نگرانی کرتے ہوئے دروپدی اپنے آبائی مقام میں مقیم تھیں۔ وہ جھارکھنڈ کی گورنر رہ چکی ہیں لیکن میعاد کی تکمیل کے بعد غیر سیاسی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ بی جے پی نے انہیں اڈیشہ کے ایک گاؤں سے راشٹرپتی بھون تک پہنچا دیا۔ دروپدی مرمو پیشہ کے اعتبار سے ٹیچر بھی رہ چکی ہیں ، لہذا ان سے امید کی جاسکتی ہے کہ دستور اور قانون کی بالادستی برقرار رکھیں گی۔ صدارتی الیکشن کے نتیجہ نے ملک میں ایک جماعتی نظام کی سمت پیشرفت کا اشارہ دیا ہے۔ اپوزیشن کے 17 ارکان پارلیمنٹ اور 125 ارکان اسمبلی نے کراس ووٹنگ کرتے ہوئے یشونت سنہا کے بجائے دروپدی مرمو کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ پانچ ارکان پارلیمنٹ کا ووٹ مسترد کردیا گیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ رائے دہی کے طریقہ سے لاعلم تھے یا پھر جان بوجھ کر اپنے ووٹ کو ضائع کردیا۔ کیرالا جہاں بی جے پی کا ایک بھی رکن نہیں ، وہاں سے دروپدی مرمو کے حق میں رائے دہی نے سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ کراس ووٹنگ کے بارے میں یشونت سنہا کے اندیشے درست ثابت ہوئے جس میں انہوں نے ارکان کو لالچ یا پھر دھمکانے کی شکایت کی تھی ۔ مرکز کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کے خوف نے کئی اپوزیشن جماعتوں کو این ڈی اے امیدوار کی تائید کیلئے مجبور کردیا ۔ آندھراپردیش میں تلگو دیشم اور مہاراشٹرا میں شیوسینا اس کی مثال ہے۔ ادھو ٹھاکرے جو ارکان اسمبلی کی بغاوت کے بعد اقتدار سے محروم ہوگئے۔ انہوں نے ارکان پارلیمنٹ اور بچی کچی پارٹی کو بچانے کے لئے دروپدی کی تائید کا اعلان کردیا ، حالانکہ وہ کانگریس اور این سی پی کے حلیف ہیں۔ اگر حکومت برقرار رہتی تو یشونت سنہا کی تائید کی جاتی۔ چندرا بابو نائیڈو نے جگن موہن ریڈی سے مقابلہ کیلئے سیاسی مجبوری کے تحت دروپدی مرمو کی تائید کا فیصلہ کیا۔ اگر وہ مخالفت کرتے تو مرکز کی جانب سے انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور سی بی آئی کے استعمال کا خطرہ تھا ۔ صدارتی الیکشن کے بعد آندھراپردیش میں برسر اقتدار اور اپوزیشن دونوں بی جے پی کے دوست بن چکے ہیں۔ لہذا آئندہ عام انتخابات میں کسی ایک کا انتخاب کرنا بی جے پی کیلئے دشوار ہوچکا ہے۔ ای ڈی اور سی بی آئی کارروائیوں میں نائیڈو کو کئی ارکان پارلیمنٹ سے محروم کردیا ۔ سی ایم رمیش اور سوجنا چودھری کے خلاف تحقیقاتی مہم اور مرکزی اداروں کی جانب سے مقدمات درج کئے گئے تھے لیکن بی جے پی نے شمولیت کے ساتھ ہی ’’ مودی ڈٹرجنٹ پاؤڈر‘‘ سے تمام الزامات دھل گئے ۔ لاکھ مقدمات ہوں بی جے پی میں شمولیت ’’واشنگ پاؤڈر نرما‘‘ کی دھلائی سے دودھ سی سفیدی میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ ملک میں واشنگ پاؤڈر نرما کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ کانگریس کے کئی ارکان نے کھل کر کراس ووٹنگ کی ۔ ایک دور وہ تھا جب سی بی آئی کو کانگریس بیورو آف انویسٹی گیشن کا نام دیا گیا تھا لیکن بی جے پی نے انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کو ہتھیار بنایا ہے۔ ای ڈی کی نوٹس ملتے ہی قائدین راہِ راست پر آجاتے ہیں۔ مہاراشٹرا میں ای ڈی کے خوف نے ہی ادھو ٹھاکرے کو اقتدار سے معزول کردیا حالانکہ بالا صاحب ٹھاکرے کے خاندان سے بغاوت کرنا آسان نہیں تھا ۔ بی جے پی دور حکومت میں ای ڈی کی نوٹس دراصل انحراف کا پروانہ ثابت ہورہی ہے ۔ مرکز میں 2014 ء میں نریندر مودی حکومت کے قیام کے بعد سے آمریت کے استحکام کا سلسلہ جاری ہے۔ جو ملک اپنی آزادی کے 75 سال کی تکمیل کا جشن منارہا ہے ، اس ملک میں دستور اور قانون کی جگہ ہندوتوا اور جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کا بول بالا ہے۔ جمہوریت کی جگہ آمریت نے لے لی ہے۔ دستوری اداروں کی آزادی اور خود مختاری کو نشانہ بناتے ہوئے حکومت کے اشاروں پر کام کرنے مجبور کیا جارہا ہے۔ ملک کی موجودہ صورتحال پر چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس این وی رمنا کا تبصرہ آئی اوپنر ہے۔ جسٹس رمنا نے بہتر حکمرانی کے لئے مضبوط اپوزیشن کی وکالت کی ہے۔ انہوں نے ملک میں جمہوریت کیلئے بڑھتے خطرات پر تشویش کا اظہار کیا۔ جسٹس رمنا کی آئندہ ماہ عہدہ سے سبکدوشی ہے۔ ایسے میں ان کی بیباکانہ رائے پر مبصرین کا کہنا ہے کہ زبانی جملہ بازی کے بجائے چیف جسٹس کو اپنے فیصلوں کے ذریعہ سنجیدگی کا ثبوت دینا چاہئے ۔ مخالف آوازوں کو کچلنے کیلئے تحقیقاتی ایجنسیوں کے استعمال کے ذریعہ حوصلوں کو پست کیا جارہا ہے۔ جہد کاروں اور سوال کرنے والے صحافیوں کو بے بنیاد الزامات کے تحت جیلوں میں سڑایا جارہا ہے ۔ گجرات فسادات کے لئے ذمہ دار کون ہے، یہ دنیا جانتی ہے لیکن عدلیہ سے کلین چٹ حاصل کرلی گئی ۔ ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کیلئے اس وقت کے چیف منسٹر ذمہ دار نہیں تو پھر کون ذمہ دار ہیں۔ حکومت کو اس کی نشاندہی کرنی چاہئے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ مرحوم احمد پٹیل پر فسادات کی سازش کا الزام عائد کیا گیا ۔ جب تک وہ زندہ رہے حکومت کو سازش کا خیال کیوں نہیں آیا۔ دنیا سے کوچ کرنے کے بعد حقیقی خاطیوں کو بچانے اور جہد کار تیستا سیتلواد کو پھنسانے کیلئے احمد پٹیل کا نام لیا جارہا ہے۔ عدالت نے خاطیوں کو بھلے ہی کلین چٹ دے دی ہو لیکن خدا کی عدالت کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔
صدر جمہوریہ کے الیکشن معاملہ میں نائب صدر جمہوریہ ایم وینکیا نائیڈو سے ناانصافی کی گئی ہے۔ ملک کی یہ روایت رہی ہے کہ نائب صدر جمہوریہ کو صدر جمہوریہ کے عہدہ پر فائز کیا جائے یا پھر انہیں ایک اور میعاد کے لئے خدمت کا موقع فراہم کیا جائے۔ صدر جمہوریہ کے امیدوار کی تلاش کے دوران ایک مرحلہ پر وینکیا نائیڈو کا نام سرفہرست رہا ۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا ، امیت شاہ اور دوسروں نے وینکیا نائیڈو سے ملاقات کرتے ہوئے صدارتی امیدوار کے طور پر ان کے نام کو تقویت پہنچائی تھی لیکن اچانک دروپدی مرمو کے نام کا اعلان کیا گیا۔ سیاسی حلقوں میں امید کی جارہی تھی کہ وینکیا نائیڈو کو نائب صدر کے عہدہ پر دوسری میعاد دی جاسکتی ہے لیکن بی جے پی قیادت نے نائب صدر کے امیدوار کے طور پر مغربی بنگال کے گورنر کے نام کا اعلان کردیا۔ ہر کسی کو اس بات پر حیرت ہے کہ وینکیا نائیڈو کو صدارت نہ سہی نائب صدر کی دوسری میعاد کیوں نہیں دی گئی ۔ وینکیا نائیڈو ایک غیر متنازعہ شخصیت کے ساتھ ساتھ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ نائب صدر کی حیثیت سے انہوں نے راجیہ سبھا کی کارروائی چلانے کیلئے تمام جماعتوں کی تائید حاصل کی۔ وینکیا نائیڈو ہمیشہ مادری زبان میں تعلیم کی پرزور وکالت کرتے رہے ہیں۔ بی جے پی صدر کی حیثیت سے انہوں نے اپنے انتظامی صلاحیتوںکو منوایا تھا۔ ایسی قابل شخصیت سے ناانصافی پر بی جے پی کو جواب دینا پڑے گا۔ آخر وینکیا نائیڈو کس تعصب کا شکار ہوئے اور ان کی کونسی بات بی جے پی کو ناگوار گزری ؟ وینکیا نائیڈو سے ناانصافی دراصل تلگو عوام کی توہین ہے۔ دوسری طرف پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کسی کارروائی کے بغیر اپوزیشن کا احتجاج جاری ہے۔ بی جے پی حکومت کی ہمت اور جرأت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اس نے پارلیمنٹ سیشن کی پرواہ کئے بغیر اشیائے ضروریہ پر جی ایس ٹی نافذ کیا۔ پٹرول ، ڈیزل اور پکوان گیس کے بعد غذائی اشیائے پر جی ایس ٹی نے غریب اور متوسط طبقات کو بے حال کردیا ہے۔ حکومت بے خوف اور عوام بے حس ہوچکے ہیں۔ بی جے پی کا خوف ہے یا پھر بے حسی کا نتیجہ کہ مہنگائی کے خلاف عوام کی جانب سے کوئی ناراضگی اور احتجاج نہیں ہے ۔ ملک میں غریب تو غریب اوسط طبقات غریب ہوچکے ہیں۔ عوام وہ دن بھول گئے جب پیاز کی قیمت میں اضافہ پر دہلی کی حکومت زوال سے دوچار ہوگئی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن اور عوام بی جے پی کی انتقامی کارروائیوں سے خوفزدہ ہیں۔ کمیونسٹ جماعتیں جو عوامی مسائل پر احتجاج کیلئے ہمیشہ سرگرم رہتی تھیں، وہ بھی کمزور پڑچکی ہیں۔ ندا فاضلی کا یہ شعر موجودہ حالات کی ترجمانی کرتا ہے ؎
ہر ایک گھر میں دیا بھی جلے اناج بھی ہو
اگر نہ ہو کہیں ایسا تو احتجاج بھی ہو