’’ہماری ناک اُونچی رکھو!‘‘

   

ثریا جبین
ہماری اماں کو اپنی ناک کی بڑی فکر رہتی ہے۔ اگر ہم کبھی خلاف مرضی کوئی کام کرتے تو گھر آکر پہلے اماں کی ناک بغور دیکھتے۔ کہیں غائب تو نہیں ہوگئی۔ پھر ہم سوچتے ہماری غلطیوں کی سزا اماں کی ناک کو کیوں ملے؟ ہر وقت کی روک ٹوک سے ہم پریشان تھے۔ نئے فیشن کی ڈریس دیکھ کر جی للچاتا، لیکن اماں کی وجہ سے ہاتھ نہیں پہنچتا، کیونکہ بقول اماں کے شریف زادیاں ایسے کپڑے نہیں پہنتیں، ہم بڑی حسرت سے اپنی دوستوں پر نظر ڈالتے ’’ہائے رے انسان کی مجبوریاں‘‘ اور تو اور کھانے پینے پر بھی پابندی۔ کالج میں لڑکیاں فری پیریڈ میں کینٹین میں جابیٹھتیں، لیکن اماں کا حکم تھا کہ باہر کی کوئی چیز نہ کھانا، پیٹ خراب ہوجاتا ہے۔ اماں تو ہمارے پیٹ کی فکر کرتیں لیکن ان خوبصورت سجی سجائی چیزوں کو دیکھ کر ہماری نیت خراب ہوجاتی لیکن صبر، ہمارا بھی دل چاہتا ہم بھی آزاد پرندوں کی طرح خوب گھومیں پھریں لیکن ہمیں تو پنجرے کا پنچھی بناکر رکھ دیا گیا ہے، کہیں بھی بلااجازت آنے جانے پر پابندی، صاف کہہ دیتیں کوئی ضرورت نہیں مارے مارے پھرنے کی۔ اماں جنتا ہمیں کنٹرول کرتیں اتنا ہی ہمارا جی چاہتا کہ بغاوت کردیں، ہم چاہتے عورتوں کے حقوق ان کی آزادی کے بارے میں کھل کر بحث کریں۔ دیکھتے ہیں کون جیتتا ہے لیکن یہ نوبت آئے تب نا۔ اماں کے سامنے آتے ہی ہماری چھوٹی سی زبان کو تالا لگ جاتا۔ ویسے ہم کہنا تو بہت چاہتے ہیں کہ عورتوں کو مردوں کے برابر کا درجہ ملنا چاہئے وغیرہ وغیرہ لیکن اماں کی یہ منطق کہ مردوں کی برابری کرکے عورت نہ گھر کی رہتی ہے نہ گھاٹ کی، اللہ نے مرد کو برتری دی ہے۔ اس بات کا جواب تو ہم مدلل دے سکتے تھے لیکن زبان درازی کا ٹھپہ لگ جاتا۔ اماں کی نظریں بہت گہری ہیں۔ یوں تو وہ اچھی خاصی پڑھی لکھی خاتون ہیں لیکن باتیں بڑی دقیانوسی کرتی ہیں۔ ہمیشہ وعظ و نصیحت کے بول ہمارے کانوں میں ٹھونستی رہتی ہیں۔ ہمیں ایک مکمل انسان بنانے کی فکر میں رہتی ہیں، ایسا انسان جس میں صرف جوہر ہی جوہر بھرے ہوں، جواہرات کا مرکب ہو۔
ایسے تو ہمیں بچپن سے ذہن نشین کرادیا گیا تھا کہ لڑکیاں پرائی ہوتی ہیں۔ (پھر پرائی ہونے والی لڑکیوں پر اتنا کنٹرول کیوں) سسرال کو تو ایک ہوا بنا دیا گیا تھا، عزت ، خدمت اور ساتھ ہی ساتھ ماں باپ کی ناک کی اہمیت کئی بار سمجھا چکی تھیں۔
ان پابندیوں میں ہم بڑے ہوئے اب اماں نے ہمارے لئے بر دیکھنے شروع کئے۔ ہماری کیا مجال کہ اپنی ناچیز رائے کا اظہار کرتے کیونکہ ہماری زندگی کے تمام حقوق بحق ان کے نام محفوظ تھے۔ چوں چرا کی کوئی گنجائش نہ تھی۔
ایک دن کالج سے آئے تو معلوم ہوا کچھ لوگ ہمیں دیکھنے آرہے ہیں، ساتھ ہی لڑکا بھی آئے گا تاکہ سب کی پسند سے رشتہ ہوجائے۔ ہمیں تیار ہونے کے لئے کہا گیا۔ جب ہم ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو ایک مثلث نما بھاری بھرکم شخص پر نظر پڑی۔ اب نظر جو پڑی تو جم کر رہ گئی۔ یہی ہے وہ لڑکا‘‘ اماں کی پسند، ہم نے لڑکھڑا کر دیوار کا سہارا لیا۔ ایک خاتون کہنے لگیں یہاں آؤ میرے پاس بیٹھو، ہم نے ان کی بات سنی اَن سنی کردی تو وہ خود اٹھ کر آئیں اور ہمیں اپنے ساتھ بٹھا لیا، بڑی پیاری بچی ہے، انہوں نے کہا (اس میں کیا ہے)۔
ہمیں رہ رہ کر غصہ آرہا تھا کہ اماں کو ہمارے لئے یہی پہلوان چننا تھا، بہرحال محاورے کے مطابق خون کے گھونٹ پی کر چپ رہے بغاوت تو نہیں کرسکتے تھے۔ اماں کی آواز ہر وقت کانوں میں گونجتی’’ہماری ناک اونچی رکھنا‘‘۔ اس ناک کے چکر میں یہ زہر کا پیالہ پینا ہی پڑے گا۔
پھر اماں نے انکشاف کیا، لڑکے نے تمہیں پسند کرلیا ہے اور مجھے بھی یہ رشتہ منظور ہے، انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی، ہمارے دل میں دماغ میں جنگ عظیم چھڑگئی۔ کیسے کیسے شہزادے آتے تھے خوابوں میں قطار لگائے۔ اب تو ہمارے خوابوں کے جھروکوں کو بند کردیا گیا تھا۔ اماں کے ایک فیصلے نے ہمارے سارے خواب چور چور بلکہ چکناچور کردیئے تھے۔
ہمارے دل میں اس پہلوان نما شخص کا خوف بری طرح طاری تھا۔ ہم نے سوچا اس شخص سے کسی طرح چھٹکارہ حاصل کیا جائے بس ایسے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی سلامت رہے۔ ہم نے اپنی ایک دوست کو اعتماد میں لیا۔ کسی طرح اس پہلوان کو باور کرایا جائے کہ ہم کسی اور کو پسند کرتے ہیں۔ ہماری دوست نے فون ملاکر یہ بات اس لڑکے تک پہنچادی۔ ہم دل ہی دل میں خوش ہونے لگے کہ چلو اس بلا سے چھٹکارہ مل جائے گا۔ اب ہم اس لڑکے کے فون کا انتظار کرنے لگے کب جواب میں انکار آتا ہے۔ صبح سے شام ہوگئی کوئی جواب نہ آیا۔ ہم نے یونہی سامنے رکھے Bio-Data کو دیکھا لیکن یہ کیا! ہم نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا۔ اس میں تو کسی اور کا نام تھا، ہم سَر پکڑ کر رہ گئے۔ اماں کی ناک اور اونچی ہوگئی۔