ہمیں تعلیم کی اہمیت معلوم ہی نہیں تھی۔ صفایہ حنیف

,

   

ایک وقت دوستوں کے دھوکے کاشکر بنی صفیا کی کوشش سے آج 100سے زائد بیوائیں خود مختار بنی ہیں اور تقریبا600خاندان کا فائدہ ہوا ہے۔پچھلے ماہ ہی انہیں اپنے کاموں کے لئے باوقار ایوارڈ سے نوازا گیاہے

بنگلورو۔وہ رات صفیاحنیف پر بہت بھاری تھی‘ گود میں پڑی ایک سال کی بیٹی بخار سے بری طرح تڑپ رہی تھی۔ بنگلورو کے مجسٹک بس اسٹانڈ پر دو سال قبل ہوئی بیوہ صفیا کو کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ وہ کیاکرے۔

جن دوستوں پر اعتبار کرکے و ہ بنگلورو ائی تھی‘ وہ دھوکہ دے گئے تھے۔بیٹی کو بخار میں تڑپتا اور ماں کو روتے بلکتے دیکھ ایک پارٹی نام کی عورت نے صفیا کا حال پوچھا۔رحم دل پاٹی انہیں اپنے گھر لے گئی اور صفیا اوران کی بیٹی کو کھانا کھلایا۔

اس رات زندگی نے صفیا کو سب سے تلخ حقیقت سے واقف کروایاتھا اور اس میں ان کے لئے سب سخت سبق بھی چھپا ہوا تھا۔کیرالا کے پالکوڈ ضلع میں پیدا ہوئی صفیا صرف 16سال کی تھی جب ان کے نکاح کردیاگیاتھا۔ شادی کے بعد وہ پانی کے ساتھ بنگلورو اگئی۔

ظاہر ہے کہ ان کی پڑھائی ادھوری رہ گئی۔ صفیاکہتی ہیں ’ہمار ے سماج کی یہ روایت تھی۔ میرے سبھی سہلیوں کی شادی کم عمر میں ہوئی۔ ہمیں یہ احساس ہی نہ تھا کہ تعلیم مکمل کرنا کتنا ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے والدین بھی یہی سونچتے تھے کہ بیٹی کی شادی کردینا ہی بہتری ہے کی گیارنٹی ہے“۔

عمر کے 19ویں سال تک پہنچتے پہنچتے صفیاکی گود میں دو بچے آگئے تھے۔ اپنے بچوں او رشوہر کے ساتھ کبھی خوشی او رکبھی تکلیف کے لمحات سے دوچار صفیا کو زندگی سے تب تک کوئی شکایت نہیں تھی۔

مگر جب وہ بیس سال کی ہوئی ایک حادثے میں شوہر کا ساتھ ہمیشہ کے لئے چھوٹ گیا۔ ڈوبنے سے ان کے شوہر کی موت ہوگئی تھی۔ شوہر کی موت کے بعد ماں باپ نے دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ یا تو گھر میں رہیں یا دوسری شادی کرنئی زندگی کا آغاز کرے۔

صفیاکے والدین کو یہ منظور نہ تھا کہ وہ جوان بیوہ بیٹی کام کے لئے باہر نکلے اور زمانہ اس کے کردار کو لے کر افسانہ بنانے لگے۔ مگر صفیا کو یہ منظور نہ تھا۔ وہ اپنے والدین پر بوجھ بننا نہیں چاہتی تھی۔

اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے ارادہ کرلیاتھا۔ شوہر کے دوستوں اور رشتہ داروں سے بات کرکے وہ بنگلورو ائی تھی۔بڑی بیٹی کو والدین کے پاس ہی چھوڑ دیاتھا۔ مگر مجسٹک بس اسٹانڈ کے پاس زندگی تلخ تجربوں کے ساتھ کھڑی تھی۔

جن دوستوں کے دلاسہ اور بھروسہ پر صفیا وہاں پہنچی تھی‘ وہ ان کا استقبال کرنا تودور فون لینا بھی گوارہ نہیں سمجھا۔ وہ دونوں تک اسی بس اسٹانڈ پر بیٹھے اپنے فیصلے کا حساب لگاتی رہی۔

ایسے بے بس وقت میں پاٹی ان کے لئے مسیحا بن کر ائی۔ پاٹی خود ایک 22سال کی بیوہ بیٹی کی ماں تھی اور صفیا کی تکلیف دیکر برداشت نہیں کر پائی۔پاٹی نے اپنے گھر میں صفایا کو پناہ دی۔ کچھ ہاتھ پیر مارنے کے بعد انہیں ایک کال سنٹر میں نوکری مل گئی۔

نوکری کے دوران کیرالا سے فاصلاتی نظام تعلیم کے ذریعہ انہوں نے گیارہوں او ربارہوں کی تعلیم پور ی کی تھی۔ پاٹی کی ممتا سے متاثر صفیا کہتی ہیں کہ”وہ ہمیشہ مجھ میں اپنی بیٹی کو دیکھتی تھیں۔ میں جب نوکری پر جاتی وہ میری بیٹی کا خیال رکھتی اور اس کے عوض میں انہوں نے ایک پیسہ نہیں لیا“۔

نوکری نے صفیامیں خود اعتمادی کو فروغ دیامگر بڑی بیٹی سے دوری انہیں پریشان کرتی رہتی تھی۔ آخر وہ بھی تین سال کی تھی۔انہوں نے گاؤں لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ لوٹتے وقت پاٹی نے انہیں کئی سوغاتیں دیں‘ مگر ان کی ایک نصیحت صفیا کے آنے والے کل کے لئے مثال بن گئی۔

پاٹی نے ان سے کہاتھا ’کبھی کسی مصیبت کی امید نہ کرنا‘۔ گاؤں لوٹنے کے بعد صفیا کو ایک مقامی اسپتال میں ریسپشنسٹ کی نوکری مل گئی‘ ساتھ میں انہوں نے بی اے لٹریچر میں داخلہ لے لیا۔ صفیا کو اب ان بیواؤں کی فکر لاحق ہوگئی جن کے پاس نہ تو تعلیم ہے اور نہ ہی ایسے وسائل جس کے ذریعہ وہ زندگی کی مشکلات کا سامنا کرسکیں۔

انہوں نے ایسی بیواؤں کی مدد کا فیصلہ کیا۔اپنی کمائی کا ایک حصہ انہوں نے ان کاموں پر خرچ کرنا شروع کردیا۔

شروعات میں انہوں نے پانچ بے سہارا بچوں کی تعلیم کا خرچ اٹھانا شروع کردیا۔ پھر صفیا نے ایک فیس بک پیج تیار جس پرانہوں نے اپنے بیواؤں کو تفصیلات شیئر کرنا شروع کردیا۔ انہیں اس پیج سے کافی مالی مدد ملی۔

ان پیسوں سے انہوں نے مذکورہ بیواؤں اور ان کے بچوں کی مدد کرنا شروع کردیا‘جن کے کمانے والے کسی حادثہ کاشکار ہوکر ہمیشہ کے لئے بستر پر آگئے تھے۔

مگر اس پوری کام میں صفیا نے کبھی بھی تعلیم کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

بی اے کے بعد انہوں نے سوشیل ورک میں ایم اے کیا اور عوامی انتظامیہ پر ڈپلومہ بھی کیا۔ صفیا کی کوشش سے ایک سو سے زائد بیوائیں خود مختار بن گئی ہیں اور چھ سو کے قریب خاندان کا فائدہ ہوا ہے۔

پچھلے ماہ انہوں نے ایک باوقار ایوارڈ سے بھی نوازا گیاتھا۔صفیا حقیقت میں ایک مثال ہے