ہم بھی انجام کی پرواہ نہیں کرتے یارو

,

   

گجرات ، ہماچل اسمبلی نتائج … کہیں خوشی کہیں غم
ہندوتوا ایجنڈہ کا عروج … کانگریس کی عزت بچ گئی

رشیدالدین
’’پھر آگئے وہیں پہ جہاں سے چلے تھے ہم‘‘ گجرات سے سیاسی سفر کا آغاز کرتے ہوئے دہلی تک پہنچنے کے بعد ملک بھر میں جارحانہ فرقہ پرستی اور نفرت کے پرچار کے بعد مودی ۔امیت شاہ جوڑی پھر گجرات واپس ہوگئی۔ گجرات اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے ذریعہ 27 سال کے اقتدار کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ ملک کو یہ پیام دینے کی کوشش کی کہ ہندوتوا ایجنڈہ پر ملک بھر میں عمل آوری کا وقت آچکا ہے ۔ ہندوتوا کی علامت بننے والی اس جوڑی نے خود کو نہ صرف بی جے پی بلکہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کیلئے ناقابل تسخیر بنادیا ہے ۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اب آر ایس ایس کو بھی مودی۔امیت شاہ کے اشاروں پر کام کرنا ہوگا اور وہ ہندوتوا طاقتوں کیلئے سپر پاور بن چکے ہیں۔ گجرات میں بی جے پی کی واپسی محض ایک انتخابی کامیابی نہیں بلکہ سیکولرازم اور مذہبی رواداری کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ ہماچل پردیش میں کانگریس کو کامیابی ملی اور رائے دہندوں نے بی جے پی کو انحراف کے ذریعہ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوںکی حکومتوں گرانے کی سزا دی ہے۔ ہماچل پردیش کے رائے دہندوں نے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو مسترد کرتے ہوئے یہ پیام دیا ہے کہ بی جے پی خود کو بے لگام تصور نہ کریں۔ مزاحمت کرنے والے آج بھی موجود ہیں جو وقت آنے پر بتاسکتے ہیں کہ ملک ہندو توا ایجنڈہ سے نہیں بلکہ دستور اور قانون سے چلے گا۔ ایسے وقت جبکہ جارحانہ فرقہ پرستی جنون کی حد تک پہنچ چکی ہے، ہماچل پردیش کا نتیجہ امید کی کرن اور آندھی میں چراغ جلنے کی طرح ہے۔ ملک میں 8 غیر بی جے پی حکومتوں کو غیر مستحکم کرتے ہوئے انحراف کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد بی جے پی بے خوف ہوچکی تھی اور وہ عوام کو دیوانہ سمجھ رہی ہے۔ ویسے بھی عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے لیکن جب کوئی واقعہ دماغ میں بیٹھ جائے تو عوام بدلہ لئے بغیر چین کی سانس نہیں لیتے۔ ہماچل پردیش میں بی جے پی کا منصوبہ تھا کہ اگر تشکیل حکومت کیلئے کچھ ارکان کم پڑجائیں تو کانگریس سے خریدی کرنا کوئی مشکل نہیں ہوگا لیکن عوام نے کانگریس کے حق میں واضح فیصلہ دیتے ہوئے منصوبہ پر پانی پھیر دیا۔ 1985 ء سے ہماچل پردیش کی روایت ہے کہ عوام نے ہر 5 سال میں تبدیلی کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ بی جے پی ہماچل کی شکست کے غم کو گجرات کامیابی کے جشن میں چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ 2018 ء کے بعد ملک میں کسی بھی ریاست میں کانگریس کی یہ پہلی کامیابی ہے۔ گجرات کے رائے دہندوں نے حق بحقدار رسید کے مصداق کانگریس کو اقتدار واپس کردیا۔ دیگر ریاستوں کے عوام اسی طرح کے شعور کا مظاہرہ کریں تو آئندہ سال کرناٹک میں بھی بی جے پی کا اقتدار چھن جائے گا۔ مودی ۔ امیت شاہ جوڑی اور دوسرے نفرت کے پرچارکوں کی طوفانی مہم کے بعد بی جے پی کو یقین تھا کہ وہ دونوں ریاستوں میں کامیاب ہوگی لیکن غرور اور تکبر کے نشہ میں بی جے پی ہماچل پردیش کے عوام کے غصہ کو سمجھ نہیں پائی۔ بی جے پی اور کانگریس کے لئے دونوں ریاستوں کا نتیجہ 50:50 رہا۔ بی جے پی کیلئے گجرات کی کامیابی سب کچھ ہے اور اسے ہماچل کی شکست کا زیادہ غم نہیں۔ دوسری طرف مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنے والی کانگریس کو طویل غم کے بعد خوشی کا ایک موقع حاصل ہوا۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی صدارت پر فائز ہونے کے بعد ملک ارجن کھرگے کی یہ پہلی کامیابی ہے اور کانگریس کیلئے کھرگے نیک شگون ثابت ہوئے۔ گجرات کی طرح ہماچل میں ماحول زہر آلود کرنے میں مودی ۔ امیت شاہ جوڑی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ملک میں 2024 ء تک یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا اعلان امیت شاہ نے ہماچل پردیش سے کیا تھا لیکن عوام نے ہندوتوا ایجنڈہ مسترد کردیا ۔ کانگریس کی کامیابی میں پرینکا گاندھی کی انتخابی مہم نے اہم رول ادا کیا۔ پرینکا گاندھی کی محنت رنگ لگائی ، لہذا کانگریس کو چاہئے کہ انتخابات میں پرینکا کو اسٹار کیمپینر کے طور پر ذمہ داری دے۔ کانگریس حکومت کی تشکیل میں فی الوقت کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن چیف منسٹر عہدہ کے 5 دعویداروں کی موجودگی سے آئندہ کبھی بھی بی جے پی توڑ جوڑ کے کھیل کو دہرا سکتی ہے۔ اترپردیش میں مین پوری لوک سبھا اور رام پور اسمبلی حلقہ کے ضمنی چناؤ پر ملک کی نظریں تھیں۔ مین پوری میں سماج وادی پارٹی کے قلعہ کو ڈھانے میں بی جے پی ناکام رہی لیکن رام پور میں اعظم خاں کے ساتھ انتخابی کارروائی کے ذریعہ بی جے پی کو کامیاب بنایا گیا ۔ اعظم خاں اور ان کے خاندان کو حق گوئی اور مسلمانوں کو جگانے کی سزا دی جارہی ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ حکومت نے اعظم خاں کے خاندان کو جیل بھیج دیاتھا۔ اسی طرح وہ ضمانت پر رہا ہوئے اور رام پور سے کامیابی حاصل کی تھی لیکن اشتعال انگیزی کے نام پر نہ صرف عدالت نے سزا سنائی بلکہ آناً فاناً اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیا گیا ۔ نااہلی کی کارروائی کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے ضمنی چناؤ کا اعلان کردیا۔ اتنا ہی نہیں انتخابی جذبہ کا یہ عالم تھا کہ ووٹ کے حق سے محروم کرتے ہوئے فہرست رائے دہندگان سے نام حذف کردیا گیا۔ اعظم خاں پر بکری اور کتابوں کی چوری جیسے الزامات ہیں۔ رام پور کے ضمنی چناؤ میں مسلم رائے دہندوں پر پولیس نے ظلم و زیادتی کے ذریعہ ووٹ دینے سے روک دیا ۔ مسلم اکثریتی اس حلقہ کو پولیس چھاؤنی میں تبدیل کرتے ہوئے صرف مسلم ووٹرس کو پولنگ اسٹیشن جانے سے روکا گیا۔ رائے دہی کا دن علا قہ میں کرفیو کا منظر پیش کر رہا تھا ۔ آخر کار بی جے پی امیدوار کی کامیابی کی سازش پر عمل آوری مکمل ہوگئی۔ رام پور میں الیکشن کمیشن کے قواعد نہیں بلکہ یوگی حکومت کے فرمان پر عمل ہورہا تھا۔ بی جے پی کو مسلمان اور ان کے بے لوث قائدین سے اتنی نفرت کیوں ہے ؟ بی جے پی جانتی ہے کہ اگر اعظم خاص کی قیادت کو ختم کردیا جائے تو یو پی کے مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائے گے اور پھر تاریخی مساجد کو مندروں میں تبدیل کرنے کے ایجنڈہ پر عمل آوری کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ یوگی کو بھولنا نہیں چاہئے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائیں تو وہ مٹ جاتا ہے۔
گجرات اسمبلی چناؤ کا نتیجہ ملک کی سیکولر و جمہوری طاقتوں کے لئے آئی اوپنر ہے۔ بی جے پی نے گجرات کے راستے پھر ایک بار مرکز میں اقتدار کی منصوبہ بندی کرلی ہے اور ترقیاتی ایجنڈہ کے بجائے ہندوتوا ایجنڈہ ملک پر مسلط کرنے کی تیاری ہے۔ ا پوزیشن کو کمزور کرتے ہوئے بی جے پی 2024 لوک سبھا چناؤ کا ایکشن پلان تیار کیا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ملک کو فرقہ پرستی کے چنگل سے بچانے میں دلچسپی رکھنے والی طاقتیں متحد ہوجائیں تاکہ ہندوستان کو سیکولر اور جمہوری کے بجائے ہندو راشٹرا بننے سے روکا جاسکے۔ ہندو راشٹر کی تشکیل کیلئے آر ایس ایس نے اپنی تمام محاذی تنظیموں کو سرگرم کردیا ہے اور ان کا مقابلہ صرف بیان بازی سے نہیں کیا جاسکتا ۔ بلکہ ہر محاذ پر منہ توڑ جواب دینا ہوگا۔ عوام تک سچائی اور حقائق پہنچانے سے روکنے کیلئے میڈیا پر کنٹرول حاصل کرلیا گیا ۔ ملک کو آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کی ضرورت ہے ۔ گجرات اور ہماچل پر دیش کے علاوہ اترپردیش ، راجستھان ، اڈیشہ اور چھتیس گڑھ میں ضمنی چناؤ تھے جس میں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن دن بھر اور رات بھر گودی میڈیا کے اینکرس نے بی جے پی کی ناکامی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا اور گجرات کی جیت کو مودی کارنامہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے بھجن گائے گئے۔ دراصل وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر کا گودی میڈیا پر مکمل کنٹرول ہے۔ ہماچل پردیش میں انوراگ ٹھاکر کا آبائی ضلع کانگریس نے فتح کرلیا اور ان کے پارلیمانی حلقہ میں 17 اسمبلی نشستوں میں سے 12 پر کانگریس کامیاب رہی ۔ ظاہر ہے کہ انوراگ ٹھاکر نے گودی میڈیا کو ہدایت دی ہوگی کہ گجرات کے علاوہ کچھ بھی نہ دکھایا جائے۔ گجرات کا نتیجہ عوام کا فیصلہ نہیں بلکہ مذہبی منافرت کے ایجنڈہ کی کامیابی ہے۔ گجرات کے بعد ملک ہندو راشٹر کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے ۔ انتخابی مہم میں امیت شاہ نے گجرات فسادات کو کارنامہ کے طور پر پیش کیا اور ہندوؤں کے جذبات کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی۔ امیت شاہ کی گجرات فسادات سے متعلق تقاریر ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئیں اور سیکولر ووٹ کی تقسیم نے بی جے پی کو دوہرا فائدہ پہنچایا۔ وقت آچکا ہے کہ ملک کو ہندو راشٹر بننے سے روکنے کیلئے عوام اٹھ کھڑے ہوں۔ سیکولر پارٹیوں کو نرم ہندوتوا کے بجائے جارحیت کا جواب جارحانہ انداز میں دینا ہوگا۔ ہندوستان میں مذہبی رواداری کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی پہل ہوچکی ہے اور بی جے پی کو 2024 ء میں کامیابی کا انتظار ہے۔ ہندوستان کو یہ طئے کرنا ہوگا کہ ملک دستور اور قانون سے چلے گا یا پھر زعفرانی بریگیڈ کے ہاتھوں میں کمان سونپ دی جائے گی۔ والی آسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہم بھی انجام کی پرواہ نہیں کرتے یارو
جان ہم نے بھی ہتھیلی پہ سجا رکھی ہے