ہم تو پھول جیسے تھے آگ سا بنا ڈالا

,

   

حجاب کے بعد حلال گوشت … شریعت کے بعد معیشت نشانہ
حالات پر رونا مسئلہ کا حل نہیں … ظلم کا ہاتھ پکڑنے کی ضرورت

رشیدالدین
آخر کب تک ہم حالات کا رونا روتے رہیں گے۔ کیا حالات پر ماتم کرنے سے صورتحال بدل جائے گی؟ انسانی تاریخ میں شائد ہی ایسی کوئی مثال ہو جس میں صرف حالات پر بیوہ کی طرح آنسو بہانے سے اچھے دن لوٹ آئیں ہوں۔ ظاہم متواتر حملے کر رہا ہے اور ہم ہیں کہ اس کا ہاتھ پکڑنے کے بجائے ظلم سہنے کو اپنی عادت بناچکے ہیں۔ ہم نے اسلامی تعلیمات کو بھی فراموش کردیا جس میں ظلم سہنے کو ظالم کی مدد کہا گیا۔ ہم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارکہ کو بھلادیا جس میں برائی کو ہاتھ سے روکنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ہم تو ہاتھ اور زبان سے روکنے کے بجائے دل میں برا جان کر ایمان کے آخری درجہ کو اختیار کرچکے ہیں۔ ظالم اور ظلم سے نجات کیلئے ہر دور میں جدوجہد اور مزاحمت کا سہارا لیا گیا۔ ہندوستان میں 1000 برس تک حکمرانی اور جہانبانی کرنے والی قوم آج خوف و دہشت کے عالم میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ اسلاف کے واقعات سے سبق حاصل کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہیں۔ جدوجہد آزادی میں ایک مرتبہ انگریزوں نے علماء کی قیادت میں احتجاج کو نشانہ بنایا ۔ انہیں یقین تھا کہ گولی چلاتے ہی مسلمان بھاگ کھڑے ہوں گے لیکن فائرنگ میں شہید مسلمانوں کی میتوں کا معائنہ کیا گیا تو ہر کسی کے سینے پر گولی تھی ۔ کسی کی پیٹھ پر گولی کا نشانہ نہیں تھا ۔ ایسے ہی جیالوں کے وارث آج بزدل اور کمزوری کا لبادہ اوڑھ کر ایسی زندگی بسر کر رہے ہیں جو کسی کے رحم و کرم پر ہو۔ ہم نے تاریخ کے ان ایمان افروز اور جولانی اور نئی حرارت پیدا کرنے والے واقعات کو بھلا دیا جس کا تذکرہ علامہ اقبال نے شکوہ جواب شکوہ میں کیا ہے۔ دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے ، کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی اور پاؤں شیروں کے بھی میدان میں اکھڑ جاتے تھے، یہ صرف جملے نہیں بلکہ تاریخ کے سنہری دور کے حالات کی عکاسی ہے۔ جس قوم نے کبھی ظلم کے آگے سر نہیں جھکایا، آج محکوم کی طرح زندگی گزارنے کو غنیمت سمجھ رہی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ کمزور اور بزدل کو غلامی کی زندگی دی گئی اور جس نے مزاحمت کی تخت و تاج اس کے قدموں میں رہا۔ 2014 ء میں نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت کی تشکیل کے بعد سے مسلمان آزمائش کے دور سے گزر رہے ہیں۔ نت نئے عنوانات کے ذریعہ صبر کا امتحان لیا جارہا ہے اور یہ دراصل ایمان کا امتحان ہے۔ صرف آنسو بہانے اور برا بھلا کہنے سے حالات نہیں بدلتے۔ وہ اس لئے کہ خدا غافل کی مدد نہیں کرتا۔ گزشتہ 8 برسوں میں نہ صرف مسلمان بلکہ شریعت اسلامی کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ جس ملک کی آبیاری خون جگر سے کی گئی، اسی ملک میں مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی سازش ہے۔ مسلمانوں کا مذہبی تشخص ختم کرتے ہوئے اسپین کے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں، جہاں اسلام کا کوئی نام لیوا باقی نہیں رہا۔ ہندو راشٹر کی تشکیل اور مسلمانوں کو رائے دہی کے حق اور شہریت سے محروم کرنا خفیہ ایجنڈہ میں شامل ہے۔ ریاستوں میں برسر اقتدار آنے کے بعد بی جے پی نے ریاستوں کی سطح پر ایجنڈہ کو نافذ کرنا شروع کردیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ذریعہ شریعت میں مداخلت کی گئی اور بعض معاملات میں عدالتوں کا سہارا لیا گیا ۔ 10 سے زائد ریاستوں میں لوجہاد کے نام پر تبدیلی مذہب پر پابندی عائد کی گئی ، حالانکہ اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے کا حق ہر شہری کو دستور نے دیا ہے ۔ سنگھ پریوار دستور میں مسلمانوں کو دیئے گئے حقوق ختم کرتے ہوئے نیا دستور رائج کرنا چاہتا ہے۔ عبادتگاہوں کے ساتھ مساجد سے اذاں کی آواز بھی سننا گوارا نہیں ہے۔ شریعت اور عبادتگاہوں کے بعد مسلمانوں کے لباس ، غذا اور رہن سہن کو نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ ہر شہری کو اپنی مرضی کے مطابق لباس اختیار کرنے اور غذا کے استعمال کا اختیار دستور نے دیا ہے۔ افسوس کہ دستور کے تحفظ کے ذمہ دار ادارے عدلیہ سے انصاف ملنے کی امید موہوم ہوتی جارہی ہے ۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار نے شمالی ہند سے نفرت کی مہم کا آغاز کیا تھا ۔ پھر سرحدی ریاستوں کے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ اس مرتبہ توجہ جنوبی ریاستوں پر ہے اور کرناٹک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کی جارہی ہے ۔ کانگریس اور جنتا دل سیکولر مخلوط حکومت کو غیر مستحکم کرتے ہوئے بی جے پی نے حکومت قائم کی۔ ٹیپو سلطان یادگار تقاریب کی مخالفت سے ایجنڈہ پر عمل آوری کا آغاز ہوا۔ انگریزوں کے خلاف لڑنے والے بہادر سے ناراضگی اور گاندھی جی کے قاتل سے محبت جارحانہ فرقہ پرست ایجنڈہ کا حصہ ہے ۔ کرناٹک کی نصابی کتب سے ٹیپو سلطان کے اسباق کو حذف کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اترپردیش کی طرح کرناٹک میں شہروں کے نام تبدیل کئے گئے ۔ لو جہاد کے نام پر قانون سازی کی گئی۔ اتنا سب کچھ کرنے سے جب دل نہیں بھرا تو حجاب پر پابندی عائد کرتے ہوئے مسلم لڑکیوں کو تعلیم سے دور کرنے کی سازش رچی گئی ۔ کرناٹک ہائیکورٹ نے حکومت کے فیصلہ کی تائید کی جبکہ سپریم کورٹ کے پاس اس معاملہ کی فوری سماعت کیلئے وقت نہیں ہے ۔ مسلمانوں کی معیشت پر حملہ کرنے کیلئے مندروں کے اطراف اور مذہبی تہواروں میں مسلمانوں کو کاروبار سے روک دیا گیا ۔ اتنا ہی نہیں حلال غذاؤں کے خلاف مہم شروع کرتے ہوئے مٹن اور چکن کے کاروبار کو نشانہ بنایا گیا ۔ گھر گھر پہنچ کر مہم چلائی جارہی ہے کہ مسلم دکانداروں سے خریدی بند کردیں۔ اکنامک جہاد کا نام دے کر مسلم تاجروں پر حملے کئے گئے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ چیف منسٹر کرناٹک بسواراج بومائی نے حلال گوشت پر امتناع کا جائزہ لینے کا تیقن دیا ہے۔ دراصل یہ تمام سرگرمیاں حکومت کے اشارہ اور سرپرستی میں چلائی جارہی ہیں ۔ حجاب کے تنازعہ کے نتیجہ میں کئی طالبات نے امتحانات کو ترک کردیا اور کئی ٹیچرس نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ ان غیرت مند طالبات اور ٹیچرس کی حمیت کو ہمارا سلام ہے۔ امتحان میں باحجاب لڑکیوں کو اجازت دینے پر 7 ٹیچرس کو معطل کردیا گیا ۔ آخر نفرت کی یہ مہم کہاں جاکر رکے گی؟
جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں سے مقابلہ کیلئے مسلم قیادت ، جماعتوں اور تنظیموں کا موقف ناقابل فہم ہے۔ مسلسل حملوں کے باوجود مسلم قیادت صرف بیان بازی کے ذریعہ زنانی احتجاج کو سب کچھ سمجھ رہی ہے ۔ حالانکہ وقت کی ضرورت ہے کہ عملی طور پر ظالم کا ہاتھ روکنے کی کوشش کی جائے ۔ بی جے پی دور حکومت میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں مزاحمت اور جدوجہد کے بعد مودی حکومت کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ کسان تقریباً ایک سال تک زرعی قوانین کے خلاف سڑکوں پر رہے اور کئی کسانوں نے جان کی قربانی دی جس کے بعد حکومت کو قوانین سے دستبرداری اختیار کرنی پڑی ۔ شمال مشرقی ریاستوں میں کئی علاقوں کو شورش زدہ قرار دیا گیا تھا لیکن مسلسل احتجاج کے بعد حکومت کو قبائلیوں کے آگے جھکنا پڑا۔ ٹاملناڈو میں جلی کٹو اور سبری ملا مندر کے تنازعات پر مرکزی حکومت کو اپنا موقف بدلنا پڑا۔ شریعت کے معاملہ میں مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم جماعتیں بھول رہی ہیں کہ شاہ بانو کیس میں اس وقت کی مرکزی حکومت کو شریعت کے حق میں دستوری ترمیم کیلئے مجبور ہونا پڑا تھا۔ اس وقت کی قیادت شریعت کے تحفظ کیلئے سڑکوں پر آچکی تھی لیکن آج قیادت صرف ایرکنڈیشنڈ کمروں تک محدود ہوچکی ہے۔ اخبارات میں بیانات اور مضامین سے صورتحال تبدیل نہیں ہوگی۔ یہ وقت تو عملی طور پر جواب دینے کا ہے اور اس کے لئے جمہوری طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں۔ عدالتوں کے مقدمات اپنی جگہ ہیں لیکن ہمیں مودی حکومت کو جمہوری انداز میں احتجاج کے ذریعہ اپنی سازش ترک کرنے کیلئے مجبورکرنا پڑے گا ۔ ابھی تو تجربہ صرف ایک ریاست میں چل رہا ہے لیکن اگر خاموش رہیں تو سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی حجاب کے خلاف آئے گا اور اسے سارے ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد سنگھ پریوار بے قابو دکھائی دے رہا ہے ۔ پارلیمنٹ میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ملک کے تمام بی جے پی کارکنوںکو یہ پیام دیا کہ وہ ڈرنے اور گھبرانے کے بجائے اپنی طاقت کے مظاہرے پر توجہ دیں۔ پارلیمنٹ سے امیت شاہ کا اس طرح کا بیان دراصل سنگھ پریوار کی حوصلہ افزائی ہے تاکہ وہ شدت سے ایجنڈہ پر عمل کریں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اوردیگر مسلم قیادتوں کو اپنے نجی اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے متحدہ طور پر میدان عمل میں اترنا ہوگا کیونکہ دنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے۔ اگر موجودہ قیادتیں شریعت کے تحفظ میں ناکام ہوجائیں تو آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی ۔ منظر بھوپالی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
ہم تو پھول جیسے تھے آگ سا بنا ڈالا
ہائے اس زمانے نے کیا سے کیا بنا ڈالا