ہندوتوا تا سچر رپورٹ سرسید کا موجودہ امکانی ردعمل

   

نجم الہدیٰ
کہا جاتا ہیکہ سرسید احمد خاں واحد حقیقی مفکر اسلام طویل مدت سے ہندوستانی مسلمانوں میں برقرارر ہے۔ دیگر مفکران اسلام یا تو مولوی تھے یا شاعر جو قوم کو مایوسی کے عالم سے باہر کھینچنے کی کوشش میں مصروف رہے۔ وہ غالباً واحد مفکر تھے جو سیاسی شعبہ کو اس کوشش کے لئے غیر مفید سمجھتے تھے۔ وہ غلطی کی شناخت کے لئے درکار بصیرت رکھتے تھے۔ اس کے لئے ضروری کارروائی سے بھی واقف تھے۔ان کی سالگرہ کے طور پر 17 اکتوبر کو سالانہ بریانی۔ شیروانی تہوار منایا جاتا ہے۔ ان کے خود ساختہ مخلص پیرو ان کے مذہبی۔ سیاسی افکار، سیاسی رویہ اور تعلیمی کوششوں کو منسوب جذبہ عناد تلے دفن کردیئے جاتے ہیں۔
اگر وہ آج موجود ہوتے تو ان تبدیلیوں کی پرواہ کئے بغیر جو اس عرصہ میں ان میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کی پرواہ کئے بغیر جنہوں نے ان کے بال قبل ازوقت سفید کردیئے تھے جو اپنی قوم (برادری) کی فکر کی وجہ سے جس نے انہیں راتوں کی بے خوابی دی تھی جبکہ قوم اپنے درخشاں ماضی میں کھوئی ہوئی، حال سے ناراض اور مستقبل سے خوفزدہ تھی، اور یہ حالت جوں کے توں برقرار تھے، فکر مند رہتے تھے۔ یہی فکر ان کی بے خواب راتوں کی وجہ تھی سرسید احمد خان کے افکار کی افادیت کا ثبوت دینے کے لئے یہ قیاس کرنا ضروری ہے کہ اگر وہ آج ہمارے درمیان موجود ہوتے تو انکا ہندوتوا تا سچر رپورٹ، امکانی ردعمل کیا ہوتا؟

ہندوتوا، سرسید کے نقطہ نظر سے …
ممکن ہے کہ اسلام سیاسی مذہب نہ ہو لیکن مسلمان سیاست کے تئیں مذہبی جذبہ رکھتے ہیں۔ مختصراً ہمیں ہندوتوا پر ان کے ردعمل کا قیاس کرنا چاہئے۔ کیا وہ اس سے تصادم کی راہ اختیار کرتے یا اس کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتے؟ غلط قیاس آرائی کے نتیجہ میں قوم اس کی موجودہ مصیبت سے زیادہ مصیبت میں مبتلا ہو جائے گی۔دانشوری کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم سیاست سے ترک تعلق کرلیں تاکہ ہندوتوا کے عروج کے اس دور سے بہ آسانی گذر جائیں۔ ہندو معاشرہ ذات پات کی سیاست کے تانے بانوں میں پھنسا ہوا ہے جبکہ مسلم متحد اور ٹھوس ووٹ بینک سمجھے جاتے ہیں۔ اسی میں بڑے پیمانہ پر کردار وہ افراد ادا کرتے ہیں جو اس ووٹ بینک کے سہارے برسر اقتدار آئے ہیں۔ سرسید قدامت پرستوں کی نفرت کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ ان کے کالج (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کی مخالفت ترک کردینے پر انہوں نے سماجی اصلاح کے قدامت پسندوں کے ایجنڈہ کی مخالفت ترک کردینے کی پیشکش کی۔ تاہم بعد ازاں مسلمانوں نے اپنے راجہ رام موہن رائے (سرسید احمد خاں) کو اپنا معلم تسلیم کرلیا۔

سرسید اور سچر کمیٹی رپورٹ
سچر کمیٹی رپورٹ نے 2006 ء میں مسلم فرقہ میں ملک گیر سطح پر صدمہ میں مبتلا کردیا ہوتا کیونکہ اس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ مسلمانوں کی حالت بعض اعتبار سے پست ترین طبقات سے بھی زیادہ ابتر ہے۔ لیکن اس کا استقبال فرقہ پرست سیاست کرنے والوں کی جانب سے مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ کیا گیا کیونکہ اس طرح ان کے حکومت کی مخالفت کرنے کے لئے ہاتھ مضبوط ہوئے تھے کہ ان کے ساتھ فرق و امتیاز کا رویہ برقرار ہے۔ یہ رپورٹ گویا اس طرح مظلومیت کی ایک توپ بن گئی تھی۔انتہا پسند دائیں بازو کی برہمی سے قوم (برادری) کے متلاطم سمندر میں تیرتے اور محفوظ رہنے کا مشورہ دینے کے بعد سرسید نے اپنی نظر آگے دوڑائی، انہیں اپنی برادری کی ابتر حالت پر صدمہ پہنچا۔ 1871ء میں ولیم ہنڈ کی کتاب ’’کیا ہندوستانی مسلمان اپنے ضمیر کی آواز پر ملکہ کے خلاف بغاوت کے پابند ہیں؟‘‘ پڑھ کر بھی انہیں صدمہ ہوا تھا۔ انہوں نے اس پر تفصیل سے تبصرہ کیا اور ضمنی عنوان میں پوشیدہ بغض و عناد کو آشکار کیا اسے شائع کروایا۔ آج اگر وہ موجود ہوتے تو ’’ہندوستان کے وفادار مسلمان‘‘ کے عنوان سے اپنے تبصرہ کا ایک ترمیمی ایڈیشن شائع کرتے۔

موجودہ دور کا اسلام
سرسید نے انگریزوں کی کامیابی کو ایک مسلم مفکر کی نظر سے دیکھا۔ مسلم طبقہ صدیوں سے اس ملک پر حاکم رہنے کے ملبے تلے دبا ہوا تھا۔ اور برسر اقتدار طبقہ خود کو نظریات کا مخزن سمجھتا تھا۔
سرسید نے اپنی برادری سے اپنا انداز فکر بدلنے کا مطالبہ کیا تاکہ موجودہ دور کے مطابق ہوسکے۔ انہوں نے قرآن مجید کی تفسیر تحریر کی تاکہ اسلام اور سائنس ہم آہنگ ہوسکیں اور مسلمان موجودہ دور کے تقاضوں پر پورا اتر سکیں۔ اپنی اس کوشش میں وہ مغربی مفکرین اور معقولیت پسند مفکرین اسلام دونوں سے مساوی طور پر متاثر تھے۔ اگر وہ تمام مذاہب کے اتحاد کے خواہاں تھے تو کیا وہ ویدوں اور اپنشدوں کی تشریح بھی تحریر کرتے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو شاید وہ ’’آئین اکیری‘‘ کا عصری ایڈیشن ہوتی۔ وہ جانتے تھے کہ اگر اسلام ہندوستانی قومیت میں جذب ہو جائے تو ہندوستانی مسلمانوں کو اس سے کئی فائدے حاصل ہوں گے۔ شاید سرسید سے پہلے ایسے مفکر اسلام البیرونی تھے جسنے ’’کتاب الہند‘‘ اور شہزادہ دارا شکوہ جس کی کتاب مجمع البحرین‘‘ بہت شہرت رکھتی ہے۔ سرسید کو افسوس تھا کہ مسلمانوں نے ہندوستان کی تفہیم کی سنجیدگی سے اور مخلصانہ کوشش نہیں کی۔ بحیثیت حکمراں انہوں نے جو نہیں کیا وہ انہیں اب بحیثیت شہری کرنا چاہئے۔