ہندوستان ، دولت مند ملک … آبادی غریب

,

   

سیاست فیچر
ہمارا وطن عزیز ہندوستان فی الوقت کئی ایک مسائل کا شکار ہے۔ فرقہ پرستی مسلسل بڑھتی جارہی ہے، بیروزگاری اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ غربت کا یہ حال ہوگیا ہے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس (فاقہ کشی یا بھوک سے متعلق عالمی عشاریہ میں شامل 116 ملکوں میں ہم 101 ویں مقام پر پہنچ گئے ہیں جبکہ نیپال، بنگلہ دیش، پاکستان جیسے ہمارے پڑوسی ملک ہم سے کافی بہتر ہیں۔ جس ملک کے عوام بھوکے رہتے ہوں، وہاں بیماریاں اور غربت و افلاس اپنی آماجگاہ بنا لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال ہندوستان 94 نمبر پر تھا۔ رپورٹ میں ہندوستان میں بھوک کی سطح کو تشویشناک بتایا گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہم نیپال (76) ، بنگلہ دیش (76) ، میانمار (71) اور پاکستان (92) سے بھی گئے گذرے ہوگئے۔ ہندوستان بیک وقت کئی ایک مسائل کا شکار ہونے کے باوجود ایک دولت ملک ہے، لیکن ملک کی 80% سے زائد دولت چند ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ اس کے برعکس عوام کی اکثریت غربت کا شکار ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہی معاشی تفاوت یا فرق ہندوستان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اگر پچھلے 20 برسوں کے دوران ہم دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ لوگوں تک بنیادی سہولتیں پہنچانے کیلئے بہت کچھ کیا گیا۔ حکومت یہ دعوے کرتے نہیں تھکتی کہ اس نے بے شمار گاؤں، دور دراز کے علاقوں تک بجلی پہنچا دی ہے۔ گاؤں گاؤں میں اسکولوں کا جال پھیلایا ہے۔ سڑکیں بچھائی ہیں اور عالمی سطح پر جب غیرت دلائی گئی تو پھر گاؤں گاؤں اور ہر گھر میں بیت الخلاء تعمیر کروائے گئے کیونکہ بڑھتی مذہبی جنونیت کو دیکھتے ہوئے محب وطن ہندوستانیوں نے یہ مطالبہ شروع کردیا تھا کہ مندروں کی تعمیر کی بجائے گاؤں گاؤں اور گھر گھر میں ٹوائیلٹس تعمیر کروائے جائیں تاکہ خاص طور پر شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ان کی عصمتیں محفوظ رہیں۔ بہرحال حکومت تو دعوے کرتی ہی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چھوٹے اور غریب کسانوں بالخصوص دلتوں اور آدی واسیوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے؟ اگر دیکھا جائے تو کوئی زیادہ اضافہ ہمیں نظر نہیں آتا۔ اس ضمن میں جتنے بھی سروے کئے گئے، اس میں یہی بتایا گیا کہ آدی واسیوں، دلتوں کی محنت کا ثمر دولت مند صنعت کاروں کو ملا ہے۔ ایک سروے میں بتایا گیا کہ 1996ء میں بہار کیلئے لوہار داگا نے جو اب جھارکھنڈ کا حصہ ہے، آدی واسی خاندانوں کی اوسط سالانہ آمدنی 15 ہزار روپئے رہی۔ اس طرح کے نتائج ملک کے دوسرے علاقوں میں کئے گئے سروے کے ذریعہ بھی سامنے آئے۔ تاہم 2020ء میں جو سروے کیا گیا، اس سے پتہ چلا کہ قبائیلی علاقوں کے خاندانوں کی فی کس اوسط سالانہ آمدنی 55 ہزار تا 60 ہزار روپئے ہے۔ اس کا مطلب قبائیلیوں کی آمدنی میں 1996ء سے تاحال 4% اضافہ ہوا۔ اگر ہم مہنگائی کی شرح کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں کی آمدنی میں پچھلے دو دہوں کے دوران زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔ اگر دیکھا جائے تو 1996ء میں آمدنی 15 ہزار رہی اگر ان 15 ہزار روپئے کی قدر یا نیٹ پریزنٹ ویلیو (این پی وی) 2019ء میں دیکھی جائے تو 67 ہزار روپئے بنتی ہے۔ تو ایسے میں 2020ء میں ان آدی واسی خاندانوں کی سالانہ آمدنی 55 تا 60 ہزار روپئے ہونا کوئی بڑا کارنامہ نہیں۔ ہندوستان کی قومی مجموعی پیداوار یا جی ڈی پی سے متعلق فی کس اوسط پیداوار میں 2000ء تا 2019ء کے درمیان 5 گنا اضافہ ہوا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ساری آبادی کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہو۔ 2019ء میں جو آمدنی ہوئی ، اس کا 21% حصہ صرف ایک فیصد دولت مندوں نے حاصل کیا جبکہ 1990ء میں ان 1% دولت مندوں نے ملک کی آبادی کی جملہ آمدنی کا 11% حصہ حاصل کیا تھا۔ 2019ء میں ملک کے 10% دولت مندوں کی آمدنی ملک کی جملہ آمدنی کا 56% حصہ رہی۔ جبکہ 10% حصہ ایسا رہا جس کی آمدنی صرف 3.5% رہی۔ اگر دولت کی تقسیم کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 2019ء میں 10% دولت مند ہندوستانیوں کے قبضہ میں ملک کی 80.7% دولت رہی۔ اس کا مطلب ہندوستان میں معاشی تفاوت کا بڑھنا ہے۔ ہندوستان ایک زرعی ملک ہے اور گاؤں میں لوگوں کی زندگی کا انحصار زراعت پر ہی ہوتا ہے۔ ہندوستان میں 26.3 کروڑ خاندان زرعی سرگرمیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ بات 2011ء کی مردم شماری میں بتائی گئی ۔ صرف 11.9 کروڑ کسانوں کے پاس ہی زمینات ہیں۔ 14.4 کروڑ بے زمین مزدور اور کسان ہیں۔ ہندوستان میں کم از کم 86.2% کسان صرف 47.3% فصل کا علاقہ اپنے قبضہ میں رکھتے ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران ’’لائیو منٹ‘‘ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ہندوستان کی آبادی کا صرف 1% حصہ جو انتہائی دولت مندوں پر مشتمل ہے، اس کے ہاتھوں میں 42% قومی دولت پہنچ گئی ہے جبکہ ملک کی آبادی کا 50% حصہ انتہائی غریب ہے جو قومی دولت کا صرف 2.8% حصہ اپنے پاس رکھتا ہے۔ آکسفارم رپورٹ میں بتایا کہ ملک کی 10% آبادی پر مشتمل دولت مند 74.3% قومی دولت پر قابض ہیں۔ جبکہ 90% حصہ صرف 25.7% دولت رکھتا ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران ہندوستان میں ارب پتیوں کی تعداد مسلسل بڑھتی گئی ہے اور ان کی دولت کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ 7,744 کروڑ روپئے ہے خاص طور پر کنزیومر گڈس انڈسٹری اور ادویات سازی کی صنعت سے وابستہ ارب پتیوں کی تعداد 25 بتائی جاتی ہے۔ 9 ارب پتی ایسے ہیں جن کی دولت 50% ہندوستانیوں کی دولت سے کہیں زیادہ ہے۔ ملک میں معاشی تفاوت بھی بڑھتا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر ٹیکنالوجی کی کمپنی کے ایک چیف ایگزیکٹیو آفیسر ایک سال میں جو کمائی کرتا ہے، اتنی ہی کمائی اگر کوئی گھریلو خادمہ کرے گی، تو اسے ایک نہیں، دو نہیں، 10 نہیں، بلکہ 22 ہزار 277 سال درکار ہوں گے۔